آج کی تاریخ

علی پور تباہی کی اصل وجہ ہیڈ پنجند کی دیوار، ری ماڈلنگ، پنجاب حکومت ذمہ دار نہیں تو تحقیقات سے گریز کیوں؟-علی پور تباہی کی اصل وجہ ہیڈ پنجند کی دیوار، ری ماڈلنگ، پنجاب حکومت ذمہ دار نہیں تو تحقیقات سے گریز کیوں؟-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-سخی سرور کی تاریخ کا سب سے بڑا لینڈ سکینڈل، اوقاف کی 2 لاکھ 56 ہزار کنال اراضی فروخت-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-بہاولپور: کارپوریشن ملی بھگت، فلڈ ایریا سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی ٹاؤنز کی سنچری-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-گندم بحران شدت اختیار کر گیا، کاشتکار برباد، ذخیرہ اندوز آزاد، چھوٹے سٹاکسٹس کی پسائی-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت-کبیر والا: 25 کروڑ کی گندم سیلاب میں بہنے کا ڈرامہ، 4 شہروں میں تاجروں کو فروخت

تازہ ترین

پولیس نظام مظلوم کا محافظ یا مجرم کا سہولت کار؟

پنجاب پولیس کا کردار قانون کی رکھوالی کے بجائے اکثر ناانصافی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ناقص تفتیش،جھوٹی ایف آئی آرز اور طاقتور
تھانہ قطب پور یا سیاسی ڈیرہ؟ مظلوم تھانے میں تماشا بن گیا!
مجرموں کو ملنے والا تھانیدارانہ پروٹوکو ل —یہ سب مظلوم کو مجرم اور مجرم کو معزز بناتے ہیں۔حال ہی میں ایک ڈی ایس پی کے دفتر میں 80 لاکھ روپے کی چوری کے مقدمے میں نامزد ملزم کو ایسی شان و شوکت سے بٹھایا گیا جیسے وہ کوئی مہمانِ خاص ہو۔وردی والوں کا رویہ اور ملزم کو دی جانے والی اہمیت دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں۔دوسری جانب اصل متاثرہ انصاف کی تلاش میں دربدر پھر رہا ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی نظام واقعی مظلوم کا محافظ ہےیا مجرموں کا سہولت کار؟یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ ملتان کے علاقے گارڈن ٹاؤن میں چند ماہ پہلے ایک گھر سے ملازم کی جانب سے 80 لاکھ روپے مالیت کا سونا چوری کرنے کے مقدمہ میں تفتیش کے لیے ملتان کے ماڈل تھا نہ قطپ پور جانا ہوا،اس مقدمہ کی مدعیہ وزیراعلیٰ پنجاب آفس میں تعینات ایک اہم ادارے کی خاتون آفیسر ہیں مگر ناقص تفتیشی نظام کے آگے یہ خاتون آفیسر اس قدر بے بس نظر آرہی تھی کہ اپنا چوری شدہ زیور برآمد کرانے اور پولیس سے انصاف کے حصول کے لیے منت اور ترلوں پر آچکی ہیں مگر سفارشی کلچر سے مرعوب پولیس کے اعلیٰ افسران اس خاتون کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں، کم و بیش دو گھنٹے ماڈل تھانے کی انتظارگاہ میں انتظار کی کوفت برداشت کرنے کے بعد جب ڈی ایس پی مظفرآباد کے آفس میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ کا نامزد ملزم جو پچھلے 2 ماہ سے پولیس کو چکمہ دے کر مفرور تھا اور کئی چھاپوں کے باوجود ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ڈی ایس پی کے آفس میں ہی اپنے سفارشیوں کے ساتھ ایک گھنٹے سے براجمان تھا اور ذرائع کے مطابق ڈی ایس پی آفس میں سفارشیوں کے ہمراہ ملزم کو کرسی پر بٹھا کر چائے بھی پلائی گئی۔اعلیٰ منصب پر تعینات خاتون آفیسر جو اس کیس کی مدعیہ ہیں انہوں نے جب ڈی ایس پی کو معاملہ بتانے کی کوشش کی تو بجائے مدعیہ کی بات سننے کے مذکورہ ڈی ایس پی بار بار مسخرانہ انداز میں بات کاٹ کر صرف ملزم اور اس کے ساتھ آنے والے سفارشیوں کی بات کو اہمیت دیتے رہے،اس کیس کے سلسلے میں چند ماہ پہلے بھی تھانہ قطب پور جانا ہوا تو اس وقت کے تفتیشی افسر جسے حال ہی میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے نے 100 فیصد یقین کے ساتھ یہ کہا تھا کہ ملزم نے چوری کی ہے اور اسے ہر حال میں کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا،لیکن اب تفتیشی کے
اسی لاکھ کی چوری، مدعیہ کو قرآن پر حلف، ملزم کو چائے کا کپ!
ٹرانسفر کے بعد ایک نیا معاملہ سامنے آگیا،مدعیہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ قرآن پر اس بات کا حلف دے کہ واقعی اس کے گھر میں چوری ہوئی ہے،تفتیش کے دوران ڈی ایس پی کی جانب سے مدعیہ سے سوالیہ انداز میں پوچھا گیا کہ جھوٹا مقدمہ درج کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس پر مدعیہ نے قسمیں اٹھا کر یہ یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ یہ مقدمہ جھوٹا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور ظلم کا ازالہ چاہتی ہے،تفتیش کے نام پر کئی گھنٹوں کی خواری کے بعد ڈی ایس پی نے بجائے فیصلہ کرنے کے یہ کہہ دیا کہ مقدمے کا تفتیشی افسر ہی اب فیصلہ کرے گا،کیا ایک ڈی ایس پی اس قدر مجبور ہے کہ دونوں پارٹیوں کو اپنے آفس بلا کر دونوں پارٹیوں کی بات سننے کے بعد فیصلہ بھی نہیں کر سکتا،میں قرآن پاک پر ہونے والے فیصلوں کا ہرگز مخالف نہیں ہوںق لیکن ہم ہر معاملے میں قرآن کو درمیان میں لے آتے ہیں،بحیثیت مسلمان ہم قرآن پر ہونے والے فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے لیکن جب فیصلے قرآن پاک پر ہی کرنے ہیں تو پھر پنجاب پولیس میں کلچر اور تفتیش کی تبدیلی کے نام پر کروڑوں روپے کے اخراجات کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے پولیس کلچر میں تبدیلی کے دعوے تو بہت کیے ہیں مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔تھانوں سے سفارشی کلچر کیسے تبدیل ہوگا، سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کب بند ہوگا، تھانوں میں سیاست دانوں کی مداخلت کیسے روکی جائے گی،جب وزیر اعلیٰ آفس میں تعینات اعلیٰ خاتون آفیسر کو پنجاب پولیس سے انصاف کے حصول کے لیے اس قدر ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں تو پھر عام آدمی کی حالت کیا ہوگی ۔آج ملتان کے ماڈل تھانے میں ہونے والی اس تفتیش کا احوال لکھتے ہوئے میں خوفزدہ ہوں کہ عام آدمی کی پریشانی دور کرنے،انصاف فراہم کرنے اور مظلوم کی مدد کرنے پر تعینات پنجاب پولیس کس قدر بے بس ہے کہ ایک چوری کے مقدمے سے لے کر قتل اور اغواء کے واقعات میں سیاسی اور سفارشی کلچر کے
وزیراعلیٰ آفس کی خاتون افسرکو انصاف نہیں ملا،عام شہری کہاں جائے؟
ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس 80 لاکھ روپے کے مقدمہ میں نامزد ملزم کو تھانے میں بند کر کے چوری شدہ مال ریکور کرتی،ملزم کو پروٹوکول ملتا دیکھ کر میں واقعی خوفزدہ ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب،آئی جی پنجاب پولیس اور سی پی او ملتان صاحب ذرا اس طرف بھی نظر دوڑائیں اور معاملات کو سدھارنے کے لیے اقدامات کریں ورنہ کروڑوں روپے لگا کر مزید ماڈل تھانے بھی بنائے جاتے رہیں عوام اور پولیس کے درمیان ایک اچھا امیج پیدا نہیں ہو سکتا اور انصاف کا حصول ایک خواب ہی رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں