آج کی تاریخ

جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے

تازہ ترین

پولیس مقابلے: انصاف کی راہوں پر بندوق کی گولیاں

پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی روایت کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو دہائیوں سے ہمارے عدالتی، انتظامی اور سماجی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں پنجاب میں اس رجحان میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے، وہ نہ صرف انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے قانون کے بجائے طاقت کو “انصاف” کا ذریعہ بنانے کا کھلا اعلان بھی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق صرف سال 2024 کے آغاز سے لے کر اب تک پنجاب میں 500 سے زائد مبینہ پولیس مقابلے ہو چکے ہیں، جن میں 670 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسا اعداد و شمار ہے جو کسی جنگ زدہ ملک میں بھی شاید نہ ہو، لیکن پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے میں یہ روزمرہ کی حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
یہ صورت حال خاص طور پر اس وقت ابھری جب پنجاب پولیس نے رواں سال کے اوائل میں ’کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ‘ (سی سی ڈی) کے نام سے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا۔ اس یونٹ کا بظاہر مقصد صوبے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد جرائم پر قابو پانا بتایا گیا، لیکن اس کا عملی چہرہ ایک “مقابلہ یونٹ” کے طور پر سامنے آیا، جہاں مشتبہ افراد کو حراست میں لینے، تفتیش کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے بجائے انہیں موقع پر ہی گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔
سی سی ڈی کے ترجمان اگرچہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ادارہ ماورائے عدالت کسی اقدام کی اجازت نہیں دیتا اور ان کی پالیسی میں اس کے لیے “زیرو ٹالرنس” ہے، لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ سندھ میں بھی اس سال کے دوران تقریباً 5000 مبینہ پولیس مقابلے رپورٹ ہوئے ہیں، جنہیں ایچ آر سی پی نے “اسٹیجڈ انکاؤنٹرز” قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائی کی، تو پھر ہر دوسرے روز کسی نہ کسی ضلع میں درجنوں لاشیں کیوں گر رہی ہیں؟ اور ان میں سے بیشتر کے لواحقین کیوں فریاد کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے پیارے بے گناہ تھے، یا انہیں پہلے اغوا کر کے مقابلے میں مار دیا گیا؟
ماورائے عدالت قتل کے خلاف سب سے طاقتور دلیل یہی ہے کہ اس میں اکثر بے گناہ افراد بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔ نقیب اللہ محسود اور شاہنواز کمبھر جیسے کیسز ہمارے اجتماعی ضمیر پر بدترین دھبہ ہیں۔ نقیب اللہ کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا، وہ ایک نوجوان ماڈل بننے کا خواب لے کر کراچی آیا، لیکن بدقسمتی سے سابق ایس ایس پی راؤ انوار جیسے افسر کے ہاتھوں ایک جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود اس کے اہل خانہ آج بھی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
ایسے واقعات نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ آئین پاکستان کی بھی توہین ہیں۔ آئین ہر شہری کو ’ڈیوی پروسس آف لا‘ یعنی قانونی چارہ جوئی کے تحت اپنے مقدمے کی شنوائی کا حق دیتا ہے۔ چاہے کوئی شخص کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو، جب تک عدالت جرم ثابت نہ کرے، ریاست کو اس کی زندگی چھیننے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس کے اندر ایسا کلچر فروغ پا چکا ہے جہاں ماورائے عدالت قتل کرنے والے افسران کو ’ہیرو‘ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں ترقی، انعامات، اور سیکیورٹی فورسز کے اندر خاص مقام دیا جاتا ہے۔ ایسے ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ افسران کا تذکرہ فخر کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسے انہوں نے قوم پر احسان کیا ہو، حالانکہ حقیقت میں یہ قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔
ان مقابلوں کی ایک اور وجہ ہمارا فرسودہ، نوآبادیاتی دور کا فوجداری انصاف کا نظام ہے جو آج بھی انگریزوں کے زمانے کے طریقہ تفتیش پر چل رہا ہے۔ پولیس افسران کو سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرنے کی تربیت حاصل نہیں، فرانزک سہولتیں ناکافی ہیں، گواہوں کو تحفظ حاصل نہیں، عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے برسوں التوا میں رہتے ہیں، اور سزا کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجتاً پولیس کے لیے سب سے آسان راستہ یہی بچتا ہے کہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بجائے گولی سے خاموش کر دیا جائے۔
یہ ’شارٹ کٹ‘ نہ صرف آئین و قانون کے خلاف ہے بلکہ یہ جرائم کو ختم کرنے کے بجائے اور بھی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ایسے ماورائے عدالت اقدامات سے وقتی طور پر شاید کوئی گینگ ختم ہو جائے، لیکن انصاف کے تقاضے پامال ہونے کے نتیجے میں عوام کا ریاستی نظام پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ جب عوام یہ سمجھنے لگیں کہ عدالتیں صرف طاقتوروں کے لیے ہیں اور عام آدمی کے لیے صرف پولیس کی بندوق، تو پھر معاشرہ ایک جنگل کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔
اس سنگین مسئلے کا حل صرف یہ نہیں کہ پولیس کے ان ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹس‘ کو سسپنڈ کر دیا جائے یا ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔ اس کے لیے ایک جامع اصلاحاتی ایجنڈا درکار ہے۔ سب سے پہلے، ہر ماورائے عدالت قتل کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، اور یہ تحقیقات صرف پولیس یا محکمہ داخلہ کے تحت نہ ہوں بلکہ اس میں عدلیہ، پارلیمان کے ارکان، سول سوسائٹی، اور انسانی حقوق کے نمائندے شامل ہوں۔
دوسرے، پولیس نظام کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ ہر تھانے میں فرانزک ماہرین، جدید لیبز، ڈیجیٹل ڈیٹا بیس، اور شفاف تفتیش کے لیے تربیت یافتہ افسران تعینات کیے جائیں۔ پولیس کی بھرتیوں، تربیت اور نگرانی کے نظام میں بھی وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ خود قانون شکن نہ بن جائے۔
تیسرے، اگر موجودہ عدالتی نظام مقدمات کے بروقت فیصلے نہیں دے سکتا تو متبادل طریقے جیسے کہ ’فاسٹ ٹریک کورٹس‘، ’جرم و سزا عدالتیں‘ یا ’خصوصی عدالتیں‘ قائم کی جائیں جو سنگین مقدمات کو فوری طور پر نمٹا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گواہوں کو تحفظ دینے کا نظام بھی مؤثر بنایا جائے تاکہ لوگ پولیس یا عدالت کے سامنے سچ بولنے سے نہ کترائیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تمام اصلاحاتی عمل میں ریاست کی نیت صاف ہو۔ اگر حکومتیں صرف جرائم کے اعداد و شمار کم دکھانے کے لیے پولیس کو ماورائے عدالت قتل کی چھوٹ دیتی رہیں گی، تو یہ آگ ایک دن ان کے اپنے دامن کو بھی جلا دے گی۔ معاشرے میں قانون کی حکمرانی صرف عدالتوں سے قائم ہو سکتی ہے، بندوقوں سے نہیں۔
ماورائے عدالت قتل صرف انسانی حقوق کی پامالی نہیں، بلکہ یہ ایک زہریلا بیج ہے جو سماج میں بداعتمادی، بے یقینی، اور انتقام کا جذبہ پروان چڑھاتا ہے۔ جب ریاست خود قاتل بن جائے تو پھر مجرموں کو کیا روکا جا سکتا ہے؟ اس رجحان کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون کے سامنے جواب دہ ہو۔
پاکستان کو اگر ایک مہذب، پرامن اور منصفانہ ریاست بنانا ہے تو ماورائے عدالت قتل کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک آئینی جمہوریت ہے یا بندوق بردار اہلکاروں کی “جنگلی” عدالت۔ اور یہ فیصلہ جتنا جلد ہو، اتنا بہتر ہے۔ کیونکہ انصاف کی راہیں اگر بندوق سے متعین ہونے لگیں تو پھر کسی کی جان، عزت اور آزادی محفوظ نہیں رہتی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں