آج کی تاریخ

پولیس ،کرائم رپورٹرز گٹھ جوڑ بے نقاب ،کچھ لو ، کچھ دو کی پالیسی میں سچائی اور احتساب گم

ملتان( تجزیہ وتحقیق:زین العابدین عابد) پولیس، کرائم رپورٹرز گٹھ جوڑ بےنقا ب کرکے روزنامہ ’’ قوم‘‘ نےا انفرادیت برقراررکھی ہے۔سوشل میڈیا کے بڑھتے رجحان نے جہاں اخباری صنعت کوبری طرح متاثر کیا ہے، وہیں میڈیا اور مجرم کے گٹھ جوڑ میں اضافے نے عوام کو اخبارات پڑھنے سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ پریس جسے ہمیشہ سچائی اور احتساب کا ستون سمجھا جاتا تھا، اب ذاتی مفادات اور مشکوک رویوں کی زد میں ہے۔ چند برسوں سے جرائم کی رپورٹنگ میں ایک نیا اور متجسس رجحان سامنے آیا ہے، جہاں ذاتی خواہشات اور مفادات صحافتی دیانتداری پر حاوی ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ رپورٹ کسی رپورٹر پر ذاتی حملے یا بے جا تنقید کے لیے نہیں لکھا گئی بلکہ حقائق جمع کرنے، پولیس کے سینئر افسران اور عوامی آرا لینے کے بعد بہت احتیاط سے مرتب کی گئی ہے۔ ہمیں اس گٹھ جوڑ کا ابتدائی طور پر علم نہیں تھا اور جو رپورٹرز اس گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں ہیںوہ قابل تعریف ہیں۔جرائم کی رپورٹنگ میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اخبارات مختلف مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے غیر مستقل رویہ اپناتے ہیں۔ مثال کے طور پرمنشیات فروشوں کے خلاف خبریں چند دنوں تک مسلسل شہ سرخیوں میں رہتی ہیںجس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ منشیات فروشوں اور جرائم کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے لیکن اچانک یہ خبریں غائب ہو جاتی ہیںجس سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا حالات بدل گئے؟ سب منشیات فروش پکڑے گئے؟ جرائم پیشہ جیلوں میں ڈال دیئے گئے؟۔حقیقت یہ ہے کہ منشیات فروشی جاری رہتی ہے، منشیات فروش سرگرم رہتے ہیں اور پولیس کی کارروائیاں اچانک ختم نہیں ہوتیں۔ یہ خاموشی مالی یا سیاسی مقاصد کے حصول کی طرف اشارہ کرتی ہے اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ہم ذمہ داری سے یہ الفاظ تحریر کر رہے ہیں کہ پولیس سٹیشنز (تھانوں) میں نئے سب انسپکٹرز کی بھرتی کے بعد جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حیران کن طور پران افسران کے مقامی رپورٹرز سے قریبی تعلقات بڑھ گئے ہیں، جو ان کے نمائندے یا مشیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس سے انصاف اور سچائی کی راہیں دھندلا چکی ہیں۔ عوام یہ جانتے ہیں کہ جرائم کی رپورٹنگ حقائق کے بجائے ذاتی تعلقات اور مفادات سے متاثر ہوتی ہے۔بعض رپورٹرز جرائم اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے بجائے اپنے اتحادیوں کی حفاظت یا مخالفین کو نشانہ بناتے ہیںجس سے سچائی مسخ ہوتی ہے۔ایک اور تشویشناک رجحان یہ ہے کہ بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث افراد صحافت کا سہارا لے کر خود کو رپورٹر ظاہر کرتے ہیںبلکہ معروف اخبارات کے رپورٹرز بن بھی چکے ہیں۔ یہ افراد پریس کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور صحافت کے پردے میں اپنے جرائم جاری رکھتے ہیں۔ یہ عمل اس بات سے مشابہت رکھتا ہے کہ کس طرح کچھ مجرم سیاسی حلقوں میں پناہ لے کر معزز بن جاتے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے صحافیوں کا پولیس بھی بھرپور دفاع کرتی ہے۔ حالانکہ ایسے نام نہاد صحافی جھوٹی یا مبالغہ آمیز خبریںخاص طور پر پولیس کے خلاف شائع کرتے ہیں تاکہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کر سکیں یا اپنی بداعمالیوں سے توجہ ہٹا سکیں۔ ان کی من گھڑت خبریں نہ صرف کنفیوژن پیدا کرتی ہیں بلکہ عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا پر اعتماد کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ہم عوام الناس کے لئے یہ سچائی لکھے دیتے ہیں یہ رپورٹرز اخباری دفاتر سے نامناسب تنخواہیں لیتے ہیں لیکن ان کا طرز زندگی انتہائی شاہانہ ہوتا جا رہا ہے جو ان کی آمدنی کے ذرائع پر سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔ اگر ان کا بنیادی پیشہ صحافت ہے تو وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ ممکنہ جواب رشوت، بھتہ خوری یا غیر ظاہر شدہ معاہدوں میں پوشیدہ ہے، جو ان کی پیشہ ورانہ دیانتداری اور صحافتی اخلاقیات پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ حال ہی میں صحافیوں پر بھتہ خوری ،بلیک میلنگ اور ہنی ٹریپ میں ملوث ہونے کے شواہد پر مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔صحافت جو معاشرے کے نگہبان کے طور پر کام کرتی ہے، چند افراد کی خود غرضیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یہ عمل نہ صرف پریس کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ طاقتور حلقوں کو جوابدہ بنانے کی صلاحیت کو بھی محدود اور کمزور کر رہا ہے۔ “ان مسائل سے نمٹنے کیلئے میڈیا اداروں، اخبارات اور چینلز مالکان کو اپنے رپورٹرز کی سخت نگرانی کرنی چا ہئے” اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ذاتی مفادات پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں پہلو تہی اختیار نہ کریں، صحافی اپنی آمدنی کے ذرائع میں شفافیت، مضبوط ادارتی پالیسیاں اور صحافیوں کے لیے اخلاقی تربیت ایسے اقدامات ہیں جو پریس کی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں۔ مہذب معاشرہ اور تعلیم یافتہ طبقہ سبھی جانتے ہیں کہ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، لیکن اس کا غلط استعمال غلط معلومات، عوامی عدم اعتماد اور معاشرتی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ میڈیا ( پرنٹ اور ڈیجیٹل) دونوں کو ان چیلنجز کو پہچان کر ایک ایسی صحافت کے لیے کام کرنا چاہیے جو ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ عوام کی خدمت کرےاور معاشرہ کے ہر فرد کو یہ یقین ہو کہ صحافی مظلوم کی آواز ہے۔ ایک رپورٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صحافتی اخلاقیات کو ایمانداری اور غیر جانبداری سے نبھائے اور ہمیشہ عوامی مفاد کو مقدم رکھے۔ پولیس کے ساتھ دوستی یا تعلقات استوار کرنا رپورٹنگ کی شفافیت کو متاثر کر سکتا ہے، صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہےاور عوام کے اعتماد کو مجروح کر سکتا ہے۔ ایک رپورٹر کو دباؤ یا ذاتی تعلقات سے آزاد ہو کر حقائق پیش کرنے چاہئیں تاکہ جرائم اور ناانصافیوں کو بے نقاب کیا جا سکے اور اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکے۔ صرف ایک غیر جانبدار اور اخلاقی صحافی ہی معاشرے میں انصاف اور شفافیت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔جارج اورویل نے ایک جگہ یہ سنہری الفاظ لکھے ہیں۔’’صحافت صرف وہ ہے جو کسی اور کی مرضی کے خلاف شائع کی جائے، باقی سب عوامی تعلقات ہیں ‘‘۔روزنامہ قوم کی خبر نے اس گٹھ جوڑ کو اسطرح بے نقاب کیا ہے، ’’ایس ایچ او حضرات کھل کھیل رہے ہیں ، شہری دن رات لٹ رہے ہیں، فراڈیئے کھل کر دھوکے کر رہے ہیں اور تھانوں میں کھل کر ڈیلیں جاری ہیں اوباش شہہ اورشاباش پر ہیں، راوی چین ہی چین الاپ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف کے کرائم فری پنجاب کے فیصلے اور عوامی پذیرائی پر مشتمل سلوگن کا سد باب پولیس نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت سب اچھا کی رپورٹیں بنا لکھ کر اوپر بھجوانا شروع کر دیا ہے‘‘۔

شیئر کریں

:مزید خبریں