کہتے ہیں کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو زمین کے کونے کونے سے مختلف اقسام کی مٹی جمع کروائی اور پھر ہر کیفیت، ہر رنگ اور ہر قسم کی مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا عمل مکمل کیا۔ پچیس سال قبل میں خبریں اسلام اباد کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھا تو ایک دن ڈپٹی ایڈیٹر قاسم نواز مجھے ایک فقیر کے پاس لے گئے جو ہمارے دفتر کے عقب میں برساتی نالے کے کنارے ایک جھگی میں رہتا تھا۔ قاسم نواز نے انہیں بتایا کہ یہ میاں غفار ہیں اور ملتان سے ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد آئے ہیں، ویسے لاہور کے رہنے والے ہیں۔ ملتان کا نام سن کر کہنے لگے واہ واہ، کیا کہنے اس خطے کے۔ کیا ہی جذب اور کیا ہی برداشت وہاں کے لوگوں میں ہے۔ اپنی سوال کرنے کی عادت نے کچھ وضاحت طلب کرنا چاہی تو مجھے کہنے لگے کہ پانی کا گلاس بھر کر لاؤ۔ میں قریبی مٹکے سے لبالب گلاس بھر لایا تو بھرا ہوا گلاس دیکھ کر کہنے لگے، اسلام آباد میں تمہارا کام ختم ہے جاؤ واپس ملتان۔ اس سے قبل کچھ اسی قسم کی بات پروفیسر احمد رفیق اختر نے بھی مجھے کہی جب میں معروف کالم نگار اور استادوں کے استاد ہارون الرشید صاحب کے ہمراہ انہیں ملنے کے لیے گوجر خان گیا تھا۔ جھگی کا وہ مکین کہنے لگا کہ کیا بات ہے ملتان، بہاولپور، اچ شریف اور کوٹ مٹھن کی۔ میں نے پھر سوال داغا کہ اسلام آباد کی کیوں نہیں ؟ جس پر انھوں نے وہی پانی کا بھرا ہوا گلاس زمین پر انڈیل دیا تو پانی بہتا ہوا دور تک ڈھلوان میں چلا گیا۔ کہنے لگے اب پانی سے بھرا ایک گلاس وہاں جا کر ریگستانی زمین پر پھینکنا اسے مٹی وہیں جذب کر لے گی۔ کہنے لگے، او بھائی ہر مٹی کی اپنی اپنی برداشت، اپنی اپنی تاثیر، اپنا اپنا جذب، اپنا اپنا وصف، اور اپنا اپنا رد عمل ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں جذب کہاں جذب تو ریگستان میں ہے۔ تم نے پانی اور مٹی کا ملاپ ان پتھروں پر بھی دیکھ لیا اور تم یہی ملاپ ادھر جا کر بھی دیکھ لینا، تمہیں تمہارے سوال کا جواب اور میری بات کی دلیل مل جائے گی۔
گزشتہ ماہ کے تیسرے عشرے میں منگل اور بدھ کو میں بہاولپور میں تھا۔ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر سید تنصیر الحسن ترمذی کو فون کرکے بتایا کہ میں بہاولپور میں ہوں تو کہنے لگے، بھائی جان فوری طور پر ڈی ایچ اے میرے گھر پہنچیں۔ تنصیر ایف بی آر میں آفیسر اور آج کل لودھراں کا ضلعی سربراہ ہے۔ اس نے لوکیشن بھیجی تو میں روانہ ہو گیا۔ اس کے گھر کے قریب میں نے ایک لڑکے کو پانی سے بھری بالٹی زمین پر پھینکتے دیکھا، پلک جھپکنے میں سارے کا سارا پانی زمین میں جذب ہو گیا اور میری آنکھوں کے سامنے اس جھگی نشین کا اسلام آباد کی پتھریلی زمین پر پانی پھینکنے والا منظر گھوم گیا۔ اب میرے ذہن میں یہ سوال پھنس گیا کہ جذب وصف اور دوست نوازی میں اس مٹی کا پلڑا بھاری ہے یا تنصیر کا کہ جس سے میرے خاندانی تعلقات 28 سال پر محیط ہیں اور ان 28 سالوں میں یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکا کہ دونوں میاں بیوی میں سے جذب اور وصف کے لحاظ سے کون بڑا ہے ؟ کیا ہی حسین جوڑی ہے جو اللہ رب العزت نے اپنی صناعی سے تخلیق فرمائی ہے۔ ان دونوں کی باہمی ہم آہنگی، محبت، اور سمجھ داری دیکھ کر دل بے ساختہ گواہی دیتا ہے کہ یہ رشتہ آسمانی ہے۔ میں پورے یقین اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ دونوں میاں بیوی مل کر “والدین کی تربیت” پر کوئی ادارہ قائم کریں تو محض چند برسوں میں اُن کی دانش، بصیرت اور عملی مثالیں اتنی متاثر کن ثابت ہوں گی کہ اُن کا ادارہ کسی بھی نجی یونیورسٹی سے بڑا اور باوقار کیمپس بن جائے گا۔
اس جوڑی کی بصیرت اور تربیت کی زندہ و جاوید مثال اُن کا اکلوتا بیٹا، عبداللہ تنصیر ہے۔ آج وہ اپنی شخصیت، کردار اور علم میں ایک روشن چراغ کی مانند ہے، مگر میں نے اُسے پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب پچیس برس قبل، میں اپنی مرحومہ اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ تنصیر صاحب کے گھر مدعو تھا۔ اُس روز ننھا عبداللہ پورے انہماک سے قرآنِ مجید کی قراءت سیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں قاری صاحب رخصت ہوئے تو ایک ڈرائنگ ماسٹر اُس ننھے عبداللہ کو سکیچنگ اور مصوری کے رموز سکھانے آ پہنچے۔ جب وہ استاد بھی چلے گئے تو عبداللہ گھڑ سواری کے لیے نکل پڑا۔ شام کے سائے گہرے ہوئے تو واپسی پر اُسے تقریر اور گفتگو کی مشق کروانے ایک اور معلم موجود تھے۔ میں یہ سارا منظر حیرت سے دیکھتا رہا، تو تنصیر سے کہا، “یار، یہ کتنا کمزور سا بچہ ہے، اور تم نے اسے کتنے بوجھ تلے دبا دیا ہے!”
تنصیر مسکرایا، اور بڑے دل نشین انداز میں بولا: یہی تو عمر ہے۔ جتنا بوجھ ڈال دو، بچہ اٹھا لیتا ہے۔ جتنی چاہو تربیت کر دو، کیونکہ سیکھنے کے لیے یہ وقت دوبارہ نہیں آتا۔” آج پچیس سال بعد، وقت نے تنصیر کی بصیرت کو سچ ثابت کر دکھایا۔ وہی ننھا عبداللہ، جو کبھی قاری صاحب سے قراءت، مصور سے خاکے، گھوڑے سے ہم آہنگی، اور استاد سے تقریر سیکھا کرتا تھا، آج امریکہ کی ایک نامور یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہا ہے اور نہ صرف اپنے والدین بلکہ ملک و ملت کا نام بھی روشن کررہا ہے۔
تنصیر کا یہ نیا گھر خاصا دور تھا، اس لیے میں نے حیرت سے پوچھا: اتنی دُور کرایہ پر شفٹ ہونے کی کیا منطق ہے؟
وہ مسکرایا اور بولا : یہ دل چسپ کہانی ہے۔ بھائی جان دراصل ہم جس گھر میں سالہا سال سے کرایہ پر رہ رہے تھے اس کے مالک نے اچانک کہا کہ گھر خالی کر دیں مگر میرا ان سے وعدہ تھا کہ آپ جب کہیں گے میں 15 دن کے نوٹس میں گھر خالی کر دوں گا۔ اب یہ نیا گھر کرایہ پر نہیں لیا۔ اللہ تعالٰی کے کرم سے، میں اس میں بغیر کسی مالی لین دین کے اور مالک مکان کی حیثیت سے رہائش پذیر ہوں۔ پھر تھوڑا توقف کر کے کہنے لگا، یہ سب میرے ایک قریبی دوست، جو مجھے اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں، کی مہربانی سے ممکن ہوا۔ وہ ڈاکٹر کیپٹن (ر) ہیں، جو اس وقت ڈی ایچ اے بہاولپور میں جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا کمرشل منصوبہ “تکمیل اسکوائر” تعمیر کر رہے ہیں۔ انہی کی پرزور خواہش پر میں یہاں شفٹ ہوا ہوں۔
تنصیر میں کئی خوبیاں ہیں یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سمیت مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کی فیسیز مخیر حضرات و ادارے جن میں اختر حبیب ٹرسٹ ، قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن، میاں وحید ارشد فاؤنڈیشن ,عامر ممتاز و دیگر صاحب ثروت حضرات کے تعاون سے لگ بھگ بائیس ( 22 ) طلبہ کو ہر ماہ تعلیمی وظائف دیتے ہیں۔ پھر تنصیر نے بتایا کہ پرائیویٹ کالج کی ایک بہت اچھے گھر کی طالبہ کے والدین اچانک کسی مصیبت میں پھنس گئے اور بچی کی فیس جمع کروانے کے لیے ان کے پاس پیسے نہ تھے۔ طالبہ کا قیمتی سال ضائع ہو رہا تھا کیونکہ اسے امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ لہذا اُس بچی کی فیس ایک مخیر دوست کو کہہ کر ادا کرائی ( الحمدللہ )
تنصیر جس گھر میں اب رہائش پذیر ہوا ہے مجھے اس نے یہ سارا گھر دکھایا جو ماشاءاللہ بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ اس گھر کی عقبی و سائیڈ والی دیواروں اور سامنے والی دیوار پر سات سات مٹی کی کنالیاں پڑی تھیں جن میں مختلف قسم کے اناج، پانی اور دانے رکھے ہوئے تھے۔ مجھے کہنے لگا بھائی جان یہ ’’پرندوں کا بوفے‘‘ ہے۔ جس طرح ہم ایک ہی قِسم کے کھانے سے تنگ آ جاتے ہیں اللہ کی اس مخلوق کو بھی تو ورائٹی چاہیے جو میں نے یہاں مہیا کر رکھی ہے اور یہی بوفے ہم نے پرانے گھر میں بھی سجا رکھا تھا جہاں روزانہ اٹھ کر فجر کی نماز سے پہلے دانہ ڈالنا بھابھی صاحبہ کا معمول تھا۔
یقیناً بوفے تو عموماً عالی شان ہوٹلوں کی پہچان ہوتا ہے لیکن بعض محبتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بے غرض ادا کی جاتی ہیں۔ جیسے ایک میاں بیوی کی وہ خاموش خدمت جو وہ سالہا سال سے ہر صبح پرندوں کے لیے بوفے سجا کر انجام دیتے رہے اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ انہی پرندوں کی دعائیں رنگ لے آئیں وہ میاں بیوی اب ایک خوب صورت اور پُر سکون گھر میں منتقل ہو چکے ہیں، جہاں ان کی نیکی، دعا بن کر ان کا مقدر سنوار گئی۔ آخر کار، سچے دل سے کی گئی خدمت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
