تحریر : طارق قریشی
عیدالفطر کی چھٹیوں کے دوران پاکستان میں تمام ٹی وی چینلز نے خصوصی پروگرام ترتیب دیئے تھے۔ ان پروگراموں میں پاکستان کی معروف شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں اور دیگر مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ اسی طرح کے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں ملک کے معروف تجزیہ نگار اور سینئر ترین شخصیت مجیب الرحمان شامی بھی شریک گفتگو تھے۔ گفتگو کے دوران شامی صاحب نے موجودہ دور کے میڈیا کو پبلک ٹوائیلٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کا میڈیا ایک پبلک ٹوائیلٹ میں تبدیل ہو گیا ہے کہ جس میں ہر شخص اپنا اپنا گند پھینک رہا ہے۔ شامی صاحب کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کے تجربے اور میڈیا بارے ان کے فرسٹ ہینڈ فالج” کو کسی صورت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ شامی صاحب اس وقت پاکستان کے ان صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جو گذشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے سے صحافت کے میدان میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔ پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک ہر جگہ ان کے نقش قدم نظر آتے ہیں۔ آج کے میڈیا کو پبلک ٹوائیلٹ قرار دینا بھی ان کے ذاتی مشاہدے اور تجربات پر ہی مبنی ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ حقیقت بھی نظر آتا ہے مگر یہ ایک ادھورا سچ ہے۔ میرے آج اس موضوع پر کالم تحریر کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ شامی صاحب جیسے جید اور سینئر صحافی کو ادھورا نہیں مکمل سچ بیان کرنا چاہیے تھا۔ ادھورا سچ اس طرح کہ شامی صاحب نے یہ تو بتا دیا کہ پاکستانی میڈیا پبلک ٹوائیلٹ بن گیا ہے اور ہر شخص اس میں اپنا اپنا گند ڈال رہا ہے مگر یہ نہیں بیان فرمایا کہ میڈیا جیسا مقدس ادارہ اس تنزلی تک کیسے پہنچا اور کس کس نے پہنچایا۔ ظاہر ہے یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہو گیا۔ نہ ہی کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے اور یہی وہ ادھورا سچ ہے جیسے محترم شامی صاحب چھپا گئے۔ کیونکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں میڈیا کا اصل زوال 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار سنبھالا تو ابتدائی مہینوں میں ان کی توجہ پاکستان میں ایک نئے آئین کی تشکیل پر رہی۔ بھٹو صاحب کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہ تھی۔ چند چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے حکومت تو تشکیل دے لی مگر آئین کی منظوری کے لئے انہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس لئے ابتدائی سالوں میں بھٹو صاحب نے صوبہ خیبر پختونخواہ ( اس وقت اس صوبے کا نام صوبہ سرحد تھا ) اور بلوچستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حکومت کو بھی گوارہ کر لیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک میں میڈیا جو ان دنوں میں صرف پرنٹ میڈیا پر ہی مشتمل تھا‘ کی تنقید بھی برداشت کر لی۔ 1973ء میں آئین کی متفقہ منظوری کے ساتھ ہی ذوالفقار علی بھٹو کا پوشیدہ جاگیردارنہ اور آمرانہ مزاج سامنے آ گیا۔ اب حزب اختلاف کی سرکردہ قیادت کے ساتھ ساتھ صحافت کے بڑے بڑے نام ان کا نشانہ تھے۔ کسی کا اخبار بند تو کسی کا ہفت روزہ‘ قریشی برادران سے لے کر جہاں اخبارات اور جرائد کے مالکان عتاب کا شکار ہوئے وہیں کارکن صحافی بھی قید و بند جھیلنے پر مجبور ہوئے۔ اس عتاب کا شکار اگرچہ دائیں اور بائیں بازو دونوں طرف کے صحافی تھے کہ ان دنوں پاکستان میں سیاسی تقسیم کے ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم زیادہ نمایاں تھی۔ اس حوالے سے کیونکہ زیادہ نمایاں تعداد کے ساتھ ساتھ بڑی شخصیات کا تعلق دائیں بازو سے تھا اس لئے بظاہر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ بھٹو صاحب کا اصل نشانہ دائیں بازو کے صحافی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سیاست اور صحافت میں ان جماعتوں اور ان شخصیات سے رابطہ کیا جو بھٹو حکومت میں زیر عتاب تھے۔ جنرل ضیاء نے اسلامی نظام اور اسلام کا نعرہ دے کر دائیں بازو کو اپنا فطری حلیف بنا لیا۔ اس طرح پاکستانی صحافت میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے بڑے بڑے نام ایوان اقتدار کی غلام گردش کے ایسے اسیر بنے کہ پاکستان میں صحافی کا مقام ہی اس بات پر طے ہونے لگا کہ کون سا صحافی ہے کہ جس کا حکمرانوں سے براہ راست رابطہ ہے‘ کس کا ٹیلیفون جنرل صاحب اور ان کے رفقاء دن میں یا رات کے کسی بھی پہر فوراً اٹینڈ کر لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں کسی صحافی کا حکومتی ایوانوں میں بار بار جانا صحافیانہ آداب کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ ایسے صحافی کو مخبر اور ٹائوٹ کا نام دیا جاتا تھا۔ کجا یہ کہ کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ حکومت وقت سے براہ راست نوازشات وصول کرے۔ اسلام اور اسلامی نظام کے نام پر اب صحافتی ادارے‘ ان کے مالکان اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ناموں والے کارکن قرطاس کا کشکول لے کر صحافتی نوازشات کی بھیک لینے ایسے قطار میں لگے کہ نہ صحافت مقدس پیشہ رہا نہ ہی ملک میں نظریاتی صحافت کا وجود باقی رہا۔ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد پہلے غیر جماعتی انتخابات بعد میں مرکز اور صوبائی حکومتوں کی چپقلش نے نوازشات کے ایسے ایسے بند در کھولے کہ ان میں سب کچھ بہہ گیا۔ نہ اخلاقیات بچی نہ ہی صحافتی آداب کے پیمانے‘ اب بڑے صحافی کی پہچان یہ ٹھہری کہ وزیر اعظم سے کس کا ذاتی رابطہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کے قریب کون ہے؟ کس نے کتنے پلاٹ الاٹ کرائے کس نے کتنے پرمٹ لئے‘ دنوں دنوں میں صحافیوں کے بھی رنگ ڈھنگ تبدیل ہو گئے اور صحافتی اداروں کے بھی مشرف دور میں الیکٹرانک میڈیا کے آغاز نے اس DIRTY RACE کو اور بھی تیز کر دیا۔ اس طرح تنزلی کا یہ سفر جو قریباً پچاس برس قبل شروع ہوا تھا اس نے پاکستانی میڈیا کو مقدس پیشے سے پبلک ٹوائیلٹ میں تبدیل کر دیا اور پھر صحافت کو مشن سے نکال کر انڈسٹری کہا جانے لگا۔ بہت سوں کی طرح محترم شامی صاحب بھی اس کارواں میں ہراول دستے کے شریک سفر تھے اس لئے ان کے منہ سے ادھورا سچ زیب نہیں دیتا۔ درخواست ہے کہ کسی اگلے پروگرام میں اس ادھورے سچ کا بقیہ حصہ بھی بیان کر دیں مشاہدے اور تجربہ اور سچ کے تڑکے کے ساتھ تو کچھ نہ کچھ حق ادا ہو ہی جائے گا۔