پاکستان اور چین کے تعلقات کو ہمیشہ دنیا کے سامنے ایک مثالی اور بے مثال دوستی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی دہائیوں پر محیط شراکت داری کو اس مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا ہے کہ سیاسی یا معاشی بحران بھی اسے کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان نے اس دوستی کو مزید واضح کر دیا، جب پاکستان پر چین کی پالیسیوں کے خلاف کام کرنے کے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کیا گیا۔دفترِ خارجہ نے پیر کو جاری کردہ بیان میں ان تمام الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا، جو پاکستان کی چین کے ساتھ وابستگی کو مشکوک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ الزامات زیادہ تر بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرتے نظر آئے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی نے امریکہ میں اپنے حالیہ دورے کے دوران چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف ایک لابی گروپ کے ایونٹ میں شرکت کی۔محسن نقوی نے ان الزامات کو فوری طور پر پروپیگنڈہ” قرار دیتے ہوئے سختی سے تردید کی اور کہا کہ نہ تو انہوں نے کسی ایسے ایونٹ میں شرکت کی اور نہ ہی وہ کسی ایسی دعوت کو قبول کریں گے جو چین مخالف ہو۔ ان کے اس بیان کے بعد دفترِ خارجہ نے بھی سخت موقف اپنایا اور چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی اور اشتراک عمل کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔پاکستان نے ہمیشہ سے “ون چائنا پالیسی” کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون قرار دیا ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقات علی خان نے اس اصول کی دوبارہ تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی پاکستان کی غیر متزلزل وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات باہمی اعتماد، مشترکہ اقدار، اور خطے اور دنیا میں استحکام کے لیے ایک دوسرے کی حمایت پر مبنی ہیں۔چین کی ون چائنا پالیسی کے تحت، پاکستان نے ہمیشہ تائیوان، تبت اور دیگر متنازعہ خطوں پر چین کی حاکمیت کی حمایت کی ہے۔ یہ پاکستان کی چین کے ساتھ نظریاتی اور سیاسی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے، جو نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بناتا ہے بلکہ عالمی سفارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب رکھتا ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان معاشی اشتراک کی سب سے بڑی مثال “چین-پاکستان اقتصادی راہداری” (سی پیک) ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ سی پیک نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے ایک “لائف لائن” ثابت ہوا ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے تعلقات کی مضبوطی کی دلیل بھی ہے۔ سن 2013ء میں شروع ہونے والے سی پیک منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں 65 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری بنیادی طور پر سڑکوں، انفراسٹرکچر، توانائی، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر مرکوز ہے۔ پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل سے لے کر گوادر بندرگاہ کی ترقی تک، سی پیک نے پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کے معاشی مسائل کے دوران، چین نے بارہا پاکستان کو مالی امداد فراہم کی ہے، قرضوں کی واپسی کی مدت میں توسیع کی ہے، اور بیرونی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کی ہے۔ اس امداد نے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے۔بھارتی میڈیا اور دیگر چین مخالف لابی گروپس کی جانب سے پاکستان پر
الزامات عائد کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ پروپیگنڈا اکثر دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم، پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں اور چین کے ساتھ دوستی پر ثابت قدمی دکھائی ہے۔محسن نقوی کے حالیہ بیان اور دفترِ خارجہ کی سختی سے تردید نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کبھی بھی چین مخالف سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہ بیانات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات محض سفارتی یا اقتصادی نہیں، بلکہ یہ ایک گہری اسٹریٹجک شراکت داری پر مبنی ہیں۔پاکستان اور چین کے تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مختلف نظریاتی پس منظر رکھنے والے ممالک بھی باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر مضبوط شراکت داری قائم کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک نے نہ صرف اپنی دوستی کو مضبوط بنایا ہے بلکہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے بھی مل کر کام کیا ہے۔چین کی جانب سے پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مدد، اور پاکستان کی جانب سے چین کے بنیادی مفادات کی حمایت، دونوں ممالک کی اسٹریٹجک دوستی کو مزید مستحکم کرتے ہیں۔ یہ تعلقات ایک ایسے وقت میں مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں جب دنیا بھر میں جغرافیائی سیاست اور معاشی حالات مسلسل بدل رہے ہیں۔پاکستان اور چین کی دوستی محض دو ممالک کے درمیان تعلقات کا نام نہیں، بلکہ یہ اعتماد، مشترکہ اقدار اور ایک دوسرے کی مدد پر مبنی ایک مثالی شراکت داری کی عکاسی ہے۔ دفترِ خارجہ کا حالیہ بیان اس امر کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان کسی بھی پروپیگنڈے یا سازش کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں، اور چین کے ساتھ اپنی گہری دوستی کو کسی بھی قیمت پر برقرار رکھے گا۔پاک چین دوستی کی یہ کہانی نہ صرف خطے کے لیے ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ حقیقی شراکت داری وہی ہے جو آزمائش کے وقت مزید مضبوط ہو۔ یہی وہ دوستی ہے جو دونوں ممالک کے عوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کا پیغام لاتی ہے۔
زچہ و بچہ
پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت ایک ایسا موضوع ہے جو نہ صرف خواتین کی جسمانی صحت بلکہ ان کی ذہنی، جذباتی اور سماجی بہبود کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں زچہ و بچہ کی صحت کے مسائل خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ دورانِ حمل، ولادت اور بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کو پیش آنے والے مسائل، بلند شرح اموات، قبل از وقت پیدائش اور مردہ بچوں کی ولادت جیسے مسائل پاکستان میں عام ہیں۔اگرچہ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں زچہ و بچہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں، لیکن دیہی اور شہری علاقوں میں صحت کی سہولیات تک رسائی میں شدید فرق موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل زچہ و بچہ کی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کے نتائج خطرناک حد تک زیادہ ہوتے ہیں۔دیہی علاقوں میں صحت کے مسائل: پاکستان کے دیہی علاقوں میں زچہ و بچہ کی صحت کے مسائل کی بنیادی وجوہات میں غربت، خواتین کی کم عمری کی شادیاں، غذائی قلت، اور صحت کی سہولیات تک محدود رسائی شامل ہیں۔ ان علاقوں میں اکثر خواتین کو ماہر دائیوں یا مناسب طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں غیر محفوظ ماحول میں بچے جنم دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق، پاکستان میں ہر روز تقریباً 700 نوزائیدہ بچے اپنی زندگی کی پہلی مہینے میں ہی فوت ہو جاتے ہیں، جبکہ 665 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔ ان اموات کی بنیادی وجوہات میں قبل از وقت پیدائش اور دوران حمل پیچیدگیاں شامل ہیں۔شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 47 بچوں کی موت فی 1000 زندہ پیدائش ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ بڑھ کر 62 بچوں کی موت فی 1000 زندہ پیدائش ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ غیر محفوظ ولادت، غربت، اور غیر معیاری صحت کی سہولیات ہیں۔پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کا رواج زچہ و بچہ کی صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالتا ہے۔ کم عمر لڑکیوں کو شادی کے فوراً بعد ماں بننے کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ کم عمری میں ماں بننے والی خواتین کو پیچیدگیوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اور ان کے بچوں کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔جنوبی ایشیا، خاص طور پر پاکستان میں، کم عمری کی شادیوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک لڑکی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر لیتی ہے۔ سندھ کے اضلاع جیسے جیکب آباد اور کشمور میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے، جہاں غربت اور صنفی عدم مساوات ان شادیوں کے پیچھے بنیادی عوامل ہیں۔کم عمری کی شادی نہ صرف لڑکیوں کے تعلیمی اور اقتصادی مواقع کو محدود کرتی ہے بلکہ انہیں زچہ و بچہ کی صحت کے مسائل کے دائرے میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ لڑکیاں اکثر اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں اور ایک ایسے چکر میں پھنس جاتی ہیں جہاں وہ جلدی ماں بنتی ہیں، اور ان کی صحت پر مزید دباؤ پڑتا ہے۔دیہی علاقوں میں زچہ و بچہ کی صحت کے مسائل میں ایک بڑی رکاوٹ صحت کی سہولیات تک رسائی کا فقدان ہے۔ غربت، ناکافی نقل و حمل کے ذرائع، اور علاج کے اخراجات غریب خاندانوں کو صحت کے مراکز تک جانے سے روکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، خواتین اکثر گھر میں بچوں کو جنم دیتی ہیں، جو کہ زیادہ خطرے سے خالی نہیں۔علاوہ ازیں، دیہی علاقوں میں خواتین کو سماجی اور ثقافتی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، کئی خاندان خواتین کو مرد ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے وہ مناسب طبی امداد حاصل نہیں کر پاتیں۔ ان مسائل کا حل جامع پالیسیوں اور سماجی رویوں میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔زچہ و بچہ کی صحت پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ خواتین کی صحت پر سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ ملک کے آنے والے نسلیں صحت مند اور مضبوط ہوں گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت، معاشرہ، اور عالمی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں خواتین اور بچوں کو بہتر صحت اور خوشحال زندگی کا حق دیا جا سکے۔یہ ایک لمبا سفر ہے، لیکن درست اقدامات اور مستقل مزاجی کے ساتھ یہ ممکن ہے کہ پاکستان زچہ و بچہ کی صحت کے عالمی معیار تک پہنچ سکے۔ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال صرف ان کی جسمانی ضروریات کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ان کی زندگی کے ہر پہلو کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔
معیشت کا بحران
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ایک تشویشناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جہاں معیشت شدید دباؤ میں ہے اور عوام مہنگائی، بے روزگاری، اور غربت جیسے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں آزاد کشمیر کے بھمبر میں پہلے دانش اسکول سائنس اور ٹیکنالوجی سینٹر آف ایکسیلنس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ لیکن کیا یہ بیان واقعی زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے-اسی دن سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دوہرے خسارے ہیں، یعنی کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارہ۔ انہوں نے ان خساروں پر قابو پانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا اسے بیان کیا جا رہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق موجودہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا، جس کی بڑی وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں 27 فیصد اضافہ ہے۔ ترسیلات زر 9,049 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جو پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں 7,104 ملین ڈالر تھیں۔تاہم، مالی توازن میں بہتری کے باوجود قرضوں پر انحصار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ موجودہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں کل مالی بیلنس 321 ملین ڈالر مثبت رہا، جبکہ پہلی سہ ماہی میں یہ منفی 865 ملین ڈالر تھا۔ لیکن یہ مثبت اعداد و شمار بھی اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتے کہ پاکستان کی معیشت اب بھی بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ستمبر 2024 تک پاکستان کے مجموعی قرضے 133.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کڑے شرائط کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔پاکستان کا بجٹ خسارہ 2018 سے مسلسل 7 فیصد سے زیادہ رہا ہے، جو کہ ایک غیر مستحکم اقتصادی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومتی اخراجات میں بے قابو اضافہ اور غیر پیداواری اخراجات مہنگائی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔حالیہ مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی آئی ہے، لیکن اس کا عام آدمی کی زندگی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ یوٹیلیٹی بلز میں مسلسل اضافہ، نجی شعبے کی اجرتوں میں پانچ سال سے مہنگائی کے مطابق اضافہ نہ ہونا، اور معیشت کی کمزور ترقی وہ عوامل ہیں جو عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔پاکستان کا ٹیکس نظام بھی اس بگڑتی صورتحال کا ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں مجموعی ٹیکس وصولی کا 75 سے 80 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر مشتمل ہے، جن کا بوجھ غریب طبقے پر زیادہ پڑتا ہے۔سن 2023ء کے اختتام سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو کہ قرض کی قسط کی فراہمی کے لیے ضروری ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی 10 اکتوبر 2024 کی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان کی ادائیگی کی صلاحیت “اہم خطرات” سے مشروط ہے۔دوست ممالک جیسے چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے قرضوں کو رول اوور کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید دباؤ کا شکار ہیں اور روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ایسے میں حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ وزیر خزانہ نے اصلاحات کے نفاذ کا وعدہ کیا ہے، لیکن ان وعدوں کی حقیقت کیا ہے، یہ وقت بتائے گا۔پاکستان کی معیشت اس وقت نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسیز کی درجہ بندی کے مطابق، پاکستان کی اقتصادی صورتحال “جنک” کیٹیگری میں ہے، جو کہ سرمایہ کاروں کے لیے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی جانب سے کیے گئے دعوے اصلاحات کی ایک امید ضرور پیدا کرتے ہیں، لیکن عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ وقت محض کمیٹیوں کے قیام یا دھمکیوں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور جامع اصلاحات نہ کیں تو پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ پن کے سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے حکومتی عزم اور شفافیت انتہائی ضروری ہے۔ صرف دعوے نہیں، بلکہ عملی اقدامات ہی پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال سکتے ہیں۔
مالیاتی پالیسی کا استحکام
پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) نے متوقع طور پر کلیدی پالیسی شرح میں مزید 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کرتے ہوئے اسے 12 فیصد پر لا کر ملکی معیشت میں استحکام کی ایک اور کوشش کی ہے۔ یہ جون 2024 سے اب تک مسلسل چھٹی مرتبہ پالیسی شرح میں کمی ہے، جب یہ شرح 22 فیصد پر تھی۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق، دسمبر 2024 میں مہنگائی کی شرح سالانہ بنیاد پر 4.1 فیصد تک کم ہوئی، جو ملک میں کمزور اندرونی طلب اور مناسب سپلائی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ تاہم، کمیٹی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بنیادی مہنگائی ابھی بھی بلند سطح پر ہے، جس کی وجہ سے محتاط مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے۔پاکستان کی معیشت حالیہ مہینوں میں کچھ مثبت اشارے دکھا رہی ہے۔ دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس 582 ملین ڈالر رہا، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 279 ملین ڈالر کے مقابلے میں 109 فیصد زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ، مہنگائی کی شرح میں کمی نے مارکیٹ میں استحکام کا تاثر پیدا کیا ہے، جس کی وجہ سے پالیسی شرح میں مسلسل کمی ممکن ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کئی چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ عالمی تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، مالیاتی آمدنی کے اہداف میں کمی، اور غیر یقینی عالمی معاشی حالات نے معیشت کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اعلان کیا کہ پالیسی شرح میں 1000 بیسس پوائنٹس کی کمی کے اثرات معیشت پر آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ معاشی سرگرمیوں کو مزید سہارا دیں گے۔ تاہم، کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا کہ حقیقی شرح سود کو مثبت رکھا جائے گا تاکہ مہنگائی کو 5-7 فیصد کی ہدف شدہ حد میں مستحکم کیا جا سکے۔مہنگائی میں کمی کے پیچھے چند اہم عوامل ہیں جن میں بجلی کے نرخوں میں کمی، اہم غذائی اشیاء کی مناسب سپلائی، ایکسچینج ریٹ کا استحکام اور سازگار بنیادی اثرات شامل ہیں۔ تاہم، کمیٹی نے خبردار کیا کہ قلیل مدتی مہنگائی غیر مستحکم رہ سکتی ہے اور مالی سال 2025 کے اختتام پر ہدف کی بالائی حد کے قریب پہنچ سکتی ہے۔مالیاتی ماہرین کی اکثریت نے پالیسی شرح میں مزید 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی توقع کی تھی۔ مختلف سروے کے مطابق، تقریباً 75 فیصد تجزیہ کاروں نے 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی پیش گوئی کی تھی، جبکہ کچھ نے 150 سے 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کا امکان ظاہر کیا تھا۔پاکستان کی معیشت کو کئی خطرات کا سامنا ہے، جن میں عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، توانائی کے نرخوں میں ممکنہ اضافے، غیر مستحکم غذائی اشیاء کی قیمتیں اور مالیاتی اہداف پورے کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت شامل ہیں۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کا حالیہ فیصلہ ملکی معیشت کو استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔ مسلسل پالیسی شرح میں کمی نے معاشی سرگرمیوں کو سہارا دیا ہے، لیکن بنیادی مسائل جیسے بجٹ خسارہ، بیرونی قرضوں پر انحصار، اور عالمی معاشی حالات کے دباؤ کا حل تلاش کرنا ابھی بھی ضروری ہے۔پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے، جہاں مالیاتی پالیسی کے اقدامات کو عملی معاشی اصلاحات کے ساتھ منسلک کرنا انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ موجودہ اقدامات مثبت سمت کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن مستقل ترقی اور استحکام کے لیے مزید جامع اقدامات اور دیرپا حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔