آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

پاک – سعودی دفاعی معاہدہ: امکانات، خدشات اور خطے کی نئی حقیقتیں

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا تازہ دفاعی معاہدہ محض ایک کاغذی اعلان نہیں بلکہ خطے کی اس بدلتی ہوئی سیاست کا حصہ ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا دونوں میں طاقت کے توازن کو نئی سمت دی ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں اس معاہدے کا اعلان ہوا، جس کے تحت یہ طے پایا کہ کسی ایک ملک پر ہونے والا حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس شق نے معاہدے کو محض فوجی تعاون سے بڑھا کر اجتماعی دفاع کی شکل دے دی ہے۔ یہ دراصل ایک “مشترکہ سلامتی معاہدہ” ہے، جس کی بازگشت عالمی سطح پر بھی سنی جا رہی ہے۔یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کر کے پورے خطے کو ہلا دیا ہے۔ امریکہ کی طویل عرصے تک قائم رہنے والی “سکیورٹی گارنٹی” مشکوک ہو چکی ہے، اور عرب دنیا کو پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ واشنگٹن پر اندھا اعتماد شاید ان کے لیے مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہی پس منظر تھا جس نے سعودی عرب کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اسے خطے میں اپنی سلامتی کے لیے کسی ایسے شراکت دار کی ضرورت ہے جو نہ صرف عسکری اعتبار سے مضبوط ہو بلکہ عالمی سطح پر بھی قابلِ بھروسہ ہو۔ پاکستان اس تناظر میں قدرتی انتخاب تھا، کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی رشتے میں بندھے ہیں بلکہ دہائیوں پر محیط فوجی اور دفاعی تعاون کی تاریخ رکھتے ہیں۔ماضی میں پاکستانی فوجی مشیروں نے سعودی عرب میں خدمات انجام دیں، ہزاروں پاکستانی فوجی سعودی سرزمین پر تعینات رہے اور آج بھی عسکری تربیت کے کئی شعبے مشترکہ ہیں۔ تاہم، یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک نے باضابطہ طور پر ایک ایسا دفاعی معاہدہ کیا ہے جو نیٹو طرز کے اجتماعی دفاعی معاہدوں کی جھلک دیتا ہے۔معروف سفارت کار ملیحہ لودھی نے بجا طور پر کہا کہ اس معاہدے نے پاکستان کو صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کا “سکیورٹی فراہم کنندہ” بنا دیا ہے۔ یہ جملہ پاکستان کے اس نئے کردار کی جانب اشارہ کرتا ہے جو خطے میں نہ صرف اس کی ساکھ کو بڑھا سکتا ہے بلکہ اس کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی جہت بھی دے سکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان، جو خود معاشی مشکلات، دہشت گردی کے خطرات اور داخلی سیاسی انتشار سے دوچار ہے، اتنی بڑی ذمہ داری نبھانے کی پوزیشن میں ہے؟اس معاہدے کے اثرات براہِ راست بھارت اور اسرائیل تک جاتے ہیں۔ بھارت اس وقت خطے میں سعودی عرب کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات بڑھانے میں مصروف ہے، مگر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس دفاعی معاہدے نے نئی صف بندی پیدا کر دی ہے۔ مشاہد حسین سید نے بجا طور پر کہا کہ “بھارت شاک کی کیفیت میں ہے”، کیونکہ یہ معاہدہ اس کی اس حکمتِ عملی کو کمزور کرتا ہے جس کے تحت وہ سعودی عرب کو اپنے قریب کر کے پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسرائیل کے لیے بھی یہ پیش رفت پریشان کن ہے، کیونکہ پاکستان کی عسکری صلاحیت اور سعودی عرب کی اقتصادی طاقت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر ایک ایسا دفاعی دائرہ بناتے ہیں جو اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے کافی ہے۔حسین حقانی نے اس معاہدے میں “اسٹریٹجک” لفظ کے استعمال پر توجہ دلائی اور کہا کہ یہ دراصل ایٹمی اور میزائل دفاعی تعاون کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ معاہدے کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے غیر علانیہ “سایہ دار تحفظ” کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اس پہلو کو بعض تجزیہ کار “ڈی فیکٹو نیوکلیئر امبریلا” کہتے ہیں۔ یہ نکتہ اسرائیل اور بھارت دونوں کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے، مگر ساتھ ہی عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکہ اور یورپ، کو بھی بے چین کر سکتا ہے۔اس معاہدے کے پاکستان کے اندرونی حالات پر بھی اثرات ہوں گے۔ معاشی بحران سے دوچار پاکستان کو اگر سعودی عرب سے بڑے پیمانے پر دفاعی سرمایہ کاری، جدید اسلحہ کی خریداری کے لیے مالی معاونت، یا تیل کی سہولتیں ملتی ہیں تو یہ اس کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دے سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگر پاکستان سعودی عرب کو سلامتی کا تحفظ فراہم کرنے والا ملک ثابت ہوتا ہے تو یہ اسلام آباد کے لیے ایک بڑی سفارتی فتح ہوگی۔تاہم، خطرات بھی کم نہیں ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ پاکستان کو خطے کی اُن کشیدگیوں میں الجھا سکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل، ایران اور دیگر طاقتوں کے درمیان جاری ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوبارہ کوئی کشیدگی جنم لیتی ہے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا پاکستان سعودی عرب کی خاطر ایران کے ساتھ تعلقات مزید خراب کرے گا؟ اور اگر اسرائیل نے سعودی عرب پر کوئی نئی کارروائی کی، تو کیا پاکستان کو براہِ راست مداخلت کرنی پڑے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آنے والے دنوں میں اس معاہدے کی حقیقت کو واضح کریں گے۔پاکستان کی عسکری تاریخ میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اس نے عرب دنیا میں کلیدی کردار ادا کیا ہو۔ ماضی میں بھی یمن، بحرین اور خلیج کی سلامتی کے تناظر میں پاکستانی فوجی دستے تعینات ہوئے۔ لیکن اس بار معاملہ محض دستوں کی تعیناتی کا نہیں بلکہ ایک ایسے باضابطہ دفاعی معاہدے کا ہے جو کسی بھی مشترکہ دشمن کے خلاف اجتماعی کارروائی کا تقاضا کرتا ہے۔یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی۔ موقع اس لیے کہ یہ اسے خطے میں ایک طاقتور ملک کے طور پر پیش کر سکتا ہے، اس کے دفاعی تعلقات کو وسعت دے سکتا ہے اور اس کی معیشت کو بالواسطہ سہارا دے سکتا ہے۔ لیکن چیلنج اس لیے کہ یہ پاکستان کو خطے کے اُن تنازعات میں الجھا سکتا ہے جن کا بوجھ اس کی اپنی کمزور معیشت اور سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کر سکتا۔لہٰذا، ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس معاہدے کو ایک متوازن اور محتاط حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھائے۔ اسے اپنے اندرونی حالات کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ خطے میں کسی نئی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے وہ سفارتی راستوں کو زیادہ ترجیح دے۔آخرکار، یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ اگر اسے سمجھداری اور حکمت سے استعمال کیا گیا تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک نئی طاقت اور اعتماد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر اسے جذباتی یا غیر متوازن حکمتِ عملی کے ساتھ برتا گیا تو یہ ایک ایسے بھاری بوجھ میں بدل سکتا ہے جو پاکستان جیسے ملک کے کندھوں پر پہلے ہی موجود مسائل کو مزید بڑھا دے۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے معاشی ابتری اور سیاسی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کے ساتھ اس نوعیت کا معاہدہ، جو دفاعی اعتبار سے انتہائی اہم ہے، عوام میں ایک نئے اعتماد کا تاثر پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اگر یہ معاہدہ محض علامتی اعلانات تک محدود رہا اور اس کے ساتھ کوئی معاشی یا سفارتی فوائد نہ جُڑے تو عوامی رائے جلد ہی مایوسی میں بدل سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بار بار اُٹھتا ہے کہ جب ملک خود اپنے بنیادی مسائل — مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم اور صحت — حل کرنے سے قاصر ہے، تو کیا وہ کسی اور ملک کے لیے حقیقی معنوں میں ایک “سکیورٹی فراہم کنندہ” بن سکتا ہے؟سیاسی طور پر یہ معاہدہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس کو اپنے سفارتی ہنر کی مثال کے طور پر اُجاگر کیا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ خارجہ پالیسی کی کامیابیاں اکثر داخلی سیاسی محاذ پر زیادہ دیر عوامی حمایت حاصل نہیں کر پاتیں۔ عوام کی اکثریت کی ترجیحات بجلی کے بل، آٹے کی قیمت اور روزگار کے مواقع سے جُڑی ہوتی ہیں۔ اگر یہ معاہدہ کسی شکل میں عوامی زندگی پر براہِ راست مثبت اثر نہ ڈال سکا تو اس کی حیثیت محض کاغذی رہے گی۔معاشی اعتبار سے یہ امکان موجود ہے کہ سعودی عرب اس دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرے۔ دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے، ہتھیاروں کی تیاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ایسے اقدامات ہیں جن سے پاکستان کی صنعتی بنیاد کو تقویت مل سکتی ہے۔ اسی طرح اگر سعودی عرب تیل کی فراہمی پر رعایت دیتا ہے یا بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ لگاتا ہے تو اس کے اثرات براہِ راست عوام کی زندگی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مضبوط فالو اپ میکنزم قائم کیا جائے۔خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئے کردار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ اب تک پاکستان اکثر غیر جانبداری یا محدود کردار کی پالیسی اختیار کرتا رہا ہے تاکہ ایران اور سعودی عرب جیسے بڑے فریقین کے درمیان توازن قائم رکھا جا سکے۔ لیکن یہ معاہدہ اس توازن کو کسی حد تک توڑ دیتا ہے اور پاکستان کو سعودی بلاک کے زیادہ قریب لے جاتا ہے۔ اس سے ایران کے ساتھ تعلقات مزید نازک ہو سکتے ہیں، جو پہلے ہی بلوچستان اور سرحدی معاملات پر کئی تحفظات رکھتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو انتہائی محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے ساتھ ایران کو بھی مکمل طور پر ناراض نہ کرے۔اس معاہدے کے مذہبی اور عوامی جذباتی پہلو بھی اہم ہیں۔ پاکستان کی اکثریت سعودی عرب کو محض ایک برادر اسلامی ملک ہی نہیں بلکہ حرمین شریفین کی وجہ سے روحانی مرکز کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔ ایسے میں یہ دفاعی معاہدہ عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن مذہبی اور عوامی جذبات پر مبنی یہ حمایت اُس وقت کمزور پڑ سکتی ہے جب عوام کو محسوس ہو کہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل کو نظرانداز کیا ہے یا کسی ایسی جنگ کا حصہ بن گیا ہے جو براہِ راست پاکستان کے مفاد میں نہیں۔یہاں ایک اور نکتہ بھی اہم ہے: کیا پاکستان واقعی طویل مدتی طور پر سعودی عرب کے لیے “سکیورٹی فراہم کنندہ” کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ فوجی اعتبار سے پاکستان ایک مضبوط اور تجربہ کار فوج رکھتا ہے، لیکن اس کی داخلی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، افغانستان سے جُڑے خطرات اور بھارت کے ساتھ مستقل کشیدگی نے پاکستانی فوج کو پہلے ہی کئی محاذوں پر الجھا رکھا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی وسائل مختص کرنا پاکستان کے لیے ایک بھاری بوجھ بن سکتا ہے۔ایک اور پہلو جس پر بات ہونی چاہیے وہ ہے عالمی سیاست۔ امریکہ اور یورپ شاید اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں، خاص طور پر اگر اس میں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا غیر علانیہ ذکر یا اس کے سائے کا حوالہ شامل ہے۔ مغربی دنیا پہلے ہی سعودی عرب کی انسانی حقوق کی پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی ہے، اور پاکستان کے ساتھ اس کا دفاعی اتحاد عالمی سطح پر نئی بحثوں کو جنم دے سکتا ہے۔ چین اس معاہدے کو خوش آئند قرار دے گا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اس کے بڑے اسٹریٹجک بلاک کا حصہ رہیں۔ لیکن بھارت اور اسرائیل کے لیے یہ یقیناً ایک تشویشناک پیش رفت ہے۔پاکستان کے داخلی سیاسی و سماجی ڈھانچے میں یہ معاہدہ ایک اور بحث کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو اسے عالمِ اسلام کی قیادت کی جانب قدم سمجھتا ہے۔ دوسری طرف وہ عناصر ہیں جو یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک ایسا ملک جو خود معاشی بدحالی، سیاسی تقسیم اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہے، وہ دوسروں کے لیے کس طرح سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے؟ یہی تضاد اس معاہدے کے اثرات کو محدود بھی کر سکتا ہے اور اس کی کامیابی کو مشکوک بھی۔پاک–سعودی دفاعی معاہدہ ایک “گیم چینجر” بھی بن سکتا ہے اور ایک “بوجھ” بھی۔ یہ فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ پاکستان اپنی داخلی صف بندی کو کس طرح بہتر بناتا ہے، اپنی معیشت کو کس حد تک مستحکم کرتا ہے، اور اپنی سفارت کاری کو کس قدر متوازن رکھتا ہے۔ اگر یہ تمام پہلو درست سمت میں چلائے گئے تو یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خطے میں نئی قوت کا باعث ہوگا۔ لیکن اگر اسے صرف جذباتی یا علامتی سطح پر استعمال کیا گیا تو یہ پاکستان کے لیے ایک اور آزمائش میں بدل سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں