ملتان(عوامی رپورٹر)پروفیسر ڈاکٹر واجد خان نے انسٹیٹیوٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز کے زیر اہتمام بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں منعقدہ تیسری انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ریسرچ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہےکہ تنازعات میں سب سے پہلا شکار سچائی ہوتی ہے۔ موجودہ پاک انڈیا تنازع میں بھی بھارتی میڈیا نے فیک خبروں اور ویڈیوز کےذریعے جنگی جنون پیدا کرنے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔دوسری طرف پاکستانی میڈیا نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کے منفی اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا موثر جواب دے کر اپنی قومی ذمہ داری نبھائی۔انہوں نے مزید کہا کہ یو این او کے کنونشن کے تحت میڈیا کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے اور اس کو سلب کرنا بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی ہے تاہم کوئی بھی آزادی مادر پدرنہیں ہوتی اور میڈیا کی اظہار رائے کی آزادی سماجی ذمہ داری اور ضابطہ اخلاقیات اور قوانین سے جڑی ہوئی ہے جس کی پابندی کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔اس پابندی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان میں اےپی این ایس، سی پی این ای، پاکستان پریس کونسل اور پیمرا جیسے ادارے مو جود ہیں۔میڈیا کو کنٹرول کیلئے غیر جمہوری قوانین بنانے اور اقدامات کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ڈاکٹر واجد خان نے کہا فروری 2025 کی شماریات کے مطابق اس وقت پاکستان میں ٹک ٹاک یوزرز کی تعداد سب سے ذیادہ 66.9 ملین ہے جو کہ ہماری ابادی کا 26.4 فیصد بنتی ہے جبکہ یوٹیوب کے صارفین کی تعداد9 .55 ملین ہے جو کے ہماری آبادی کا 22.1 فیصد بنتی ہے تیسرے نمبر فیس بک یوزرز 49.4 ملین ہیں جو کہ ہماری آبادی کا 5 .19 فیصد بنتے ہیں۔ لہذا حکومت کو ڈیجیٹل میڈیا اور آرٹیفشل انٹیلیجنس سے خوفزدہ ہوکر اس پر غیر ضروری پابندیاں لگانے کے بجائے نوجوانوں اور دیگر متعلقہ اہلکاروں کو اس کے تعمیری استعمال کیلئے اس جدید ٹیکنالوجی کی مہارتوں سے بہرہ مند کرنے کیلئے ضروری اقدامات کرنے چاہئے تاکہ اس میڈیا ٹیکنالوجی کو موثر طور پر ملکی ترقی کیلئے استعمال کیا جاسکے اور دشمن کی طرف سے مسلط کی جانے والی ہائبرڈ وار فئیر کا بھی موثر جواب دیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے اقوام متحدہ کو ایک یونیفارم ضابطہ اخلاق وقوانین جاری کرنا چاہئے۔جسکی پابندی دنیا بھر میں یو این او کے کنونشن کے تحت لازمی قرار دی جائے۔کانفرنس کے پینل ڈسکشن سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے سپین اور سعودی عرب میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی سفیرخیام اکبر، پروفیسر ڈاکٹر ثاقب ریاض، پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر بلوچ اور پروفیسر ڈاکٹر عامر محمود نے کہا کہ سوشل میڈیا نے صحافت اور صحافتی اخلاقیات کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ سٹیزن جرنلزم نے جہاں ہر فرد کو معلومات تک رسائی دے دی وہیں ایڈیٹوریل چیک نہ ہونے کی کے باعث اب کسی بھی مواد کو تصدیق کئے بغیر سوشل میڈیا پر مشتہر کیا جاسکتا ہے۔اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی ،مذہبی، سیاسی، لسانی اور علاقائی تعصبات پر مبنی غیر حقیقی و غیر ذمہ دارانہ مواد کی بھرمار ہے۔اس سلسلے کو روکنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمیں اپنی قوم بلخصوص نوجوانوں کو اور جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس کو اس سلسلے میں اصول و ضوابط اور اخلاقیات پر پابندی کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا۔اور ملکی قوانین کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنا ہوگا ۔تاہم اس حوالے یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ذمہ دارانہ آذادی اظہار رائے کا حق متاثر نہ ہو۔اس پینل ڈسکشن کی ہوسٹ ڈاکٹر ذوہا قیصر تھیں۔
