ڈاکٹر ظفر چوہدری
1965سے1967کا زمانہ دراصل میرے بچپن اور لڑکپن کے درمیان کا زمانہ سمجھ لیں۔1965کی جب جنگ ہوئی تو میری عمر10/11 سال تھی۔ مجھے یاد ہے ریڈیو پر صدر پاکستان ایوب خان نے بڑی پرجوش تقریر کی تھی مجھے اس وقت تو زیادہ سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن لوگوں میں جوش و خروش بہت زیادہ پایا جاتا تھا والد صاحب کیونکہ ریٹائرڈ صوبیدار تھے اور ر ضا کاروں کو تھانہ روہیلانوالی میں دفاعی تربیت رضا کارانہ طور پر دیا کرتے تھے میں بھی کبھی کبھی ساتھ جاتا تھا انہیں ہوائی حملہ کی صورت میں احتیاطی تدابیر اور پی ٹی کرایا کرتے تھے۔ اس وقت ریڈیو ہی اطلاعات کا واحد معتبر ذریعہ ہوتاتھا۔ کیونکہ اخبارات گائوں میں چند لوگوں کے پاس ہی آتے تھے اگرچہ ریڈیو کی سہولت بھی چند گھرانوں کو میسر تھی جس میں خوش قسمتی سے ایک ہمارا گھر بھی تھا۔ نوجوان اور بزرگ رات کو 8بجے کاخبرنامہ بڑے اشتیاق سے سنتے تھے۔ عام طور پر انور بہزاد اور شکیل انور خبریں پڑھا کرتے تھے۔ رات کو بلیک آئوٹ ہوتا تھا اکثر لوگ مکان کی چھتوں پر سوتے تھے اور خبریں بھی اکثر تمام گھر والے اور محلہ دار اکٹھے ہی سنتے تھے۔ جب پاکستانی فوج کی جنگی کامیابیوں کا بتایا جاتا تو بزرگ سامعین میں خاص چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ ریڈیو پاکستان لاہور اورتراڑ کھل آزاد کشمیر زیادہ سنے جاتے تھے۔ اسی جنگ کے بارے استاد اور علما بتاتے تھے کہ سبز پگڑیوں والے گھڑسوار پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے جنہیں ہندوستانی فوجی نہیں دیکھ سکتے تھے اس کے علاوہ مساجد خاص طور پر بریلوی مکتب فکر کی مساجد میں خطیب بزرگان دین جو کئی سو سال پہلے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے کے بارے میں بتاتے تھے کس طرح انہوں نے ہندوستان کی طرف سے پھینکے جانے والے بمب اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دوبارہ ہندوستان پر پھینک دیئے۔
مجھے اس وقت اتنی سمجھ نہیں تھی ہم ہر بات کو سمجھتے تھے جنگ کے خاتمے پر جو فوجی ہیرو کی بہادری کے قصے ہمیں بتاتے جاتے تھے ان میں میجر عزیز بھٹی نشان حیدر‘ بنگالی پائلٹ ایم ایم عالم کی داستانیں زیادہ مشہور تھیں۔ جب جنگ بند ہوئی اور ہمیں بتایاگیا کہ ہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست فاش دی ہے توعام پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہم نے تو صرف اپنا دفاع کیا تھا اور شاید اسی مناسبت سے ہم 6ستمبر کو یوم دفاع مناتے ہیں۔ یہ جنگ روس کی مداخلت کی وجہ سے بند ہوئی تھی اور معاہدہ تاشقند دونوں ملکوں کے درمیان طے پایا تھا اور تاشقندمیں ہندوستانی وزیراعظم لال بہادر شاستری فوت ہوگیا تھا۔ جو دراصل سردی کی وجہ سے فوت ہوا تھا مگر اسے بھی جنرل ایوب خان کی دہشت کا نتیجہ قرار دیکر عوام میں تاثر پھیلایا گیا اس طرح صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے اپنے آپ کو از خود ہی فیلڈ مارشل کا خطاب بھی عطا فرما دیا۔ سب سے توجہ طلب پہلو یہ تھا کہ ہم1951سے ہی تقریباً امریکی کیمپ کے اثر میں جا چکے تھے اور1958کے بعد تو امریکہ کے بڑے اتحادی مانے جاتے تھے مگر امریکہ نے اس جنگ میں ہماری کوئی مدد نہ کی ۔
حتیٰ کہ جنگی سامان کے پرزہ جات دینے سے بھی انکار کر دیا روس جس کی جاسوسی کے لیے پشاور میں جنرل ایوب نے امریکہ کو اڈا دیا ہوا تھا اس نے پاک انڈیا جنگ بند کروائی تھی میں نے ارشاد حقانی مرحوم کے کالم میں جو وہ جنگ اخبار میں لکھتے تھے پڑھا تھا کہ پاکستان امریکہ کی رکھیل ہے اور ہندوستان امریکہ کی بیوی ہے بعد کے واقعات نے حقانی صاحب کی یہ بات بالکل سچ ثابت کردی۔