آج کی تاریخ

پاک امریکہ تعلقات: ایک نئے باب کا آغاز

حال ہی میں نائب وزیرِاعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار اور امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ہونے والی ملاقات نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کے آغاز کی امید پیدا کی ہے۔ برسوں پر محیط سرد مہری اور غیر فعال سفارتی روابط کے بعد یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن بالآخر ایک نئے سفارتی زاویے سے باہمی تعلقات کو ازسرِنو ترتیب دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیش رفت کی ایک بڑی جھلک اُس ظہرانے سے بھی جڑی ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اعزاز میں دیا۔ اس ملاقات نے دوطرفہ تعلقات میں جمی برف پگھلانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اب روبیو-ڈار ملاقات نے اسے رسمی شکل دے دی ہے۔
جمعے کے روز ہونے والی اس ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری، انسدادِ دہشت گردی، اہم معدنیات اور حالیہ پاک-بھارت کشیدگی جیسے کئی کلیدی امور زیرِ بحث آئے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس بات کا کریڈٹ لیا کہ اُن کی مداخلت نے خطے کو ایک بڑے تصادم سے بچا لیا۔ اگرچہ کشمیر جیسے دیرینہ مسائل پر پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ اپنا مؤثر کردار ادا کرے، لیکن ڈار صاحب کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ترجیح ایک مضبوط، پائیدار اور اقتصادی بنیادوں پر استوار شراکت داری ہے۔
ڈار نے گفتگو میں اس امر پر زور دیا کہ دونوں ممالک نہ صرف ماضی کی طرح سیکیورٹی معاملات پر تعاون کو جاری رکھیں گے بلکہ اب اس تعلق کو اقتصادی، تجارتی، تکنیکی اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں تک وسعت دینے پر بھی متفق ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ٹرمپ دور میں لگائے گئے بھاری تجارتی محصولات کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک ایک مجوزہ معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، جو آئندہ چند روز میں مکمل ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اقتصادی شراکت داری پر مرکوز یہ نیا رُخ محض وقتی پیش رفت نہیں، بلکہ ایک دور رس تبدیلی کی علامت ہے۔ ماضی میں یہ تعلقات زیادہ تر سیکیورٹی اور اسٹریٹیجک مفادات کے گرد گھومتے رہے، جہاں افغانستان، دہشت گردی، یا بھارت سے جڑی کشیدگی جیسے معاملات ہی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ لیکن موجودہ مکالمہ نہ صرف تجارتی رکاوٹوں کے خاتمے پر مرکوز ہے بلکہ نئی ترجیحات، جیسے کہ مصنوعی ذہانت، آئی ٹی، اہم معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات ہو رہی ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جن میں پاکستان کو ترقی کی شدید ضرورت ہے، اور امریکہ کے ساتھ مضبوط تعاون ایک مثبت فرق ڈال سکتا ہے۔
اس نئی معاشی سمت میں سب سے نمایاں پیش رفت دونوں ممالک کی اس خواہش سے جھلکتی ہے کہ تجارتی معاہدوں کو جلد از جلد حتمی شکل دی جائے۔ اگرچہ امریکی بیانات میں ابھی حتمی وقت کا تعین نہیں کیا گیا، تاہم پاکستانی وزیرِ خارجہ کی جانب سے یہ یقین دہانی کہ یہ معاملہ محض “چند دنوں” کی بات ہے، خاصی حوصلہ افزا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف پاکستان کی برآمدات کو سہارا ملے گا، بلکہ امریکی سرمایہ کاری کو بھی مقامی منڈیوں میں نئی راہیں ملیں گی، جو کہ موجودہ عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال میں کسی نعمت سے کم نہیں۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفادات کے نئے زاویے ابھر رہے ہیں، لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ تعلقات میں پائیداری کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور خطے میں امن و استحکام ناگزیر ہیں۔ اس تناظر میں اسحاق ڈار کی یہ بات اہم ہے کہ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن کے لیے پرعزم ہے بلکہ امریکہ کو بھی ایک ذمہ دار عالمی قوت کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں امریکہ نے ثالثی کر کے کشیدگی کو کم کرنے میں جو کردار ادا کیا، اسے پاکستان نے نہ صرف سراہا بلکہ اسے ایک ’’تاریخی موقع‘‘ قرار دیا۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اپنے خطاب میں ملک کی معاشی بحالی، دہشت گردی کے خلاف اقدامات، نوجوانوں کی ترقی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی جیسے پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا یہ مؤقف کہ پاکستان “طاقت کے ساتھ امن” کے نظریے پر یقین رکھتا ہے، اس نئی شراکت داری کے ممکنہ دائرہ کار کو وسعت دیتا ہے۔
موجودہ عالمی حالات میں جب جغرافیائی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایسی شراکت داری جو صرف وقتی مفادات تک محدود نہ ہو بلکہ مشترکہ مستقبل کی بنیاد بنے، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقتصادی تعاون اس راہ کا پہلا قدم ہے، لیکن اصل کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب دونوں ممالک ایک دوسرے کو محض اتحادی نہیں، بلکہ حقیقی شراکت دار سمجھ کر فیصلے کریں گے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی گرمجوشی اس وقت معنی خیز ثابت ہو سکتی ہے جب یہ محض نمائشی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات میں ڈھلے۔ اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کی حالیہ ملاقات اگرچہ خوش آئند ہے، لیکن اس کا اصل امتحان اس وقت ہو گا جب دونوں ممالک باہمی اعتماد کو ادارہ جاتی ڈھانچے میں تبدیل کریں گے۔ خاص طور پر تجارت اور سرمایہ کاری جیسے شعبے، جن پر اس ملاقات میں زور دیا گیا، تب ہی حقیقی ترقی دیکھ پائیں گے جب معاہدے محض دستاویزات کی حد تک محدود نہ رہیں بلکہ ان پر بروقت عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے۔
امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کی پیشکش اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ واشنگٹن اب پاکستان کے اندرونی اقتصادی ڈھانچے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ ان شعبوں میں شفافیت، استعداد اور پائیدار ترقی کے اصولوں پر عمل کرے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی، ضابطہ جاتی رکاوٹیں اور بعض اوقات سیاسی غیر یقینی کیفیات ان کوششوں کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
اسی طرح، انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کا اعادہ ایک اور اہم پہلو ہے جسے صرف سرکاری بیانات تک محدود رکھنا خطرناک ہو گا۔ خطے میں داعش (ISIS-K) جیسی تنظیموں کی سرگرمیوں کے تناظر میں، یہ ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے سکیورٹی ادارے آپس میں مربوط اور مربوط حکمت عملی اختیار کریں۔ یہ اشتراک اس وقت نتیجہ خیز ہو گا جب دونوں ممالک اپنی انٹیلی جنس شیئرنگ کو مزید مؤثر بنائیں، اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقامی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو مزید مضبوط کریں۔
اس تناظر میں، امریکہ کا کردار محض مشوروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس میں تکنیکی امداد، استعداد کار بڑھانے کی کوششیں، اور مقامی اداروں کے ساتھ قریبی شراکت داری بھی شامل ہونی چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکیورٹی بہتر ہو گی، بلکہ امریکی مفادات بھی محفوظ رہیں گے، خاص طور پر جب جنوبی ایشیا میں غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیاں عالمی سطح پر خدشات کو جنم دے رہی ہیں۔
یقینی طور پر، اگر یہ تعاون متوازن اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے، تو دونوں ممالک ایک ایسے اعتماد کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو ماضی کے اتار چڑھاؤ سے سبق لیتے ہوئے ایک دیرپا تعلقات کی طرف لے جائے گا۔ لیکن اگر یہ صرف وقتی حکمت عملی ثابت ہوئی تو ماضی کی طرح پھر ایک نیا جمود پیدا ہونے کا خطرہ برقرار رہے گا۔
اگرچہ حالیہ پیش رفت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئی جہت کی طرف اشارہ کر رہی ہے، مگر ان تعلقات کو دیرپا بنانے کے لیے محض سفارتی ملاقاتیں کافی نہیں ہوں گی۔ اس وقت دونوں ممالک کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ موجودہ مکالمے کو ایک جامع، طویل المیعاد اور متوازن پالیسی فریم ورک میں ڈھالیں۔ اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو صرف ایک جغرافیائی مقام رکھنے والا اتحادی نہ سمجھے، بلکہ اسے ایک باوقار، خودمختار اور ترقی کے خواہاں شراکت دار کے طور پر تسلیم کرے۔
پاکستان کے لیے بھی یہ وقت ہے کہ وہ عالمی سیاست میں اپنی حیثیت کو صرف اسٹرٹیجک اہمیت تک محدود نہ رکھے، بلکہ خود کو ایک بااعتماد، معاشی طور پر مستحکم اور ادارہ جاتی طور پر قابلِ بھروسہ ریاست کے طور پر پیش کرے۔ اسحاق ڈار کی جانب سے معاشی استحکام اور اصلاحات پر زور دینا اس سمت میں ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن عالمی سرمایہ کاروں اور شراکت داروں کو قائل کرنے کے لیے اس بیانیے کے ساتھ شفاف عمل، دیرپا پالیسی اور سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے۔
اس تناظر میں امریکہ کے لیے بھی یہ ایک موقع ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں اپنی پالیسی کو محض محدود مفادات کی بنیاد پر متعین نہ کرے، بلکہ ایک ایسے خطے کے استحکام میں کردار ادا کرے جو نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے بلکہ آبادی، معیشت اور نوجوان افرادی قوت کے لحاظ سے بھی عالمی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ کشمیر جیسے دیرینہ تنازع پر امریکی قیادت کی دلچسپی بظاہر علامتی لگتی ہے، لیکن اگر واشنگٹن واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے اس مسئلے پر ایک فعال اور غیر جانبدار کردار ادا کرنا ہو گا — وہ بھی اس انداز میں جو صرف سیاسی بیانات تک محدود نہ ہو۔
آخرکار، پاک امریکہ تعلقات کی حقیقی پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب ان کی بنیادیں مشترکہ مفادات، مساوی شراکت داری، اور باہمی عزت و وقار پر استوار ہوں۔ موجودہ سفارتی گرمجوشی ایک امید کی کرن ضرور ہے، مگر یہ کرن اس وقت روشنی میں تبدیل ہو گی جب دونوں ممالک مشکل فیصلے کرنے کے لیے تیار ہوں، اور ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی شروعات کی طرف قدم بڑھائیں۔ اگر یہ سمت برقرار رہی، تو نہ صرف دوطرفہ تعلقات میں استحکام آئے گا بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن و ترقی کا امکان بھی حقیقی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

سماجی دہشت گردی

سماجی دہشت گردی
حکومت پاکستان کی جانب سے حالیہ اقدام — جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو 452 سے زائد اکاؤنٹس بند کرنے کی درخواست کی گئی ہے — بظاہر ایک مثبت اور بروقت فیصلہ ہے۔ ان اکاؤنٹس کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ مختلف دہشت گرد تنظیموں سے منسلک ہیں اور پاکستان میں نسلی و مذہبی بنیادوں پر تشدد کو فروغ دینے، شدت پسند بیانیے کو جواز بخشنے اور دہشت گردی کی حمایت پر مبنی مواد پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ، ریاست کا یہ اقدام اگر خالصتاً قومی سلامتی کے تحفظ اور سوشل میڈیا پر موجود خطرناک مواد کے انسداد کے لیے ہے، تو اسے سراہا جانا چاہیے۔ موجودہ دور میں جب دہشت گرد گروہ جدید ٹیکنالوجی کو بھرتی، پراپیگنڈا اور رقوم جمع کرنے جیسے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، تو ریاستی ردِعمل ناگزیر ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدام واقعتاً صرف دہشت گردی اور شدت پسندی کے انسداد کے لیے ہے، یا اس کے پیچھے وہی پرانا رویہ کارفرما ہے جس میں “قومی سلامتی” کے نام پر اختلاف رائے کو خاموش کرانے کی روایت موجود رہی ہے؟ سابق حکومتوں کا ریکارڈ اس ضمن میں کچھ خاص قابلِ فخر نہیں رہا، اور بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی اسی راستے پر گامزن نظر آتی ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ انٹرنیٹ سنسرشپ کے نام پر ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کیا گیا جو کسی شدت پسند گروہ سے وابستہ نہیں تھے، بلکہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے، یا معاشرتی ناانصافی، مذہبی انتہا پسندی، اور طاقتور طبقات کی جانب سے اقلیتوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو بے نقاب کر رہے تھے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ریاست کی نیت پر سوال اٹھتا ہے۔ اگر ایک طرف شدت پسند مواد پر پابندی عائد کی جاتی ہے، تو دوسری طرف ایسے لکھنے والوں کی آواز بھی دبا دی جاتی ہے جو رجعت پسند سماجی نظریات، مذہبی تعصبات، یا سماجی جمود کے خلاف لکھتے ہیں۔ جب کسی حکومت کی سنسرشپ پالیسی اتنی مبہم ہو جائے کہ ایک سچا، دلیل سے بھرا تنقیدی مکالمہ بھی شدت پسندی کے زمرے میں شمار ہونے لگے، تو نہ صرف جمہوری اقدار مجروح ہوتی ہیں بلکہ ریاست کی ساکھ بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ یہی وہ خطرناک حد ہے جہاں طاقتور آئینی تنقید اور شدت پسند نفرت انگیزی کے درمیان لکیر مٹ جاتی ہے۔
اگر حکومت واقعی دہشت گردی اور پرتشدد بیانیے کے خلاف سنجیدہ ہے تو اُسے اس عمل کو شفاف، آزاد اور قانونی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ ان 452 اکاؤنٹس کی فہرست اور ان پر عائد الزامات کو عوام کے سامنے لانا چاہیے تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔ ساتھ ہی، حکومت کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ یہ فہرست سیاسی اختلاف رکھنے والے شہریوں، صحافیوں یا حقوقِ انسانی کے کارکنان پر مشتمل نہیں۔ جب تک یہ وضاحت اور شفافیت فراہم نہیں کی جاتی، اس اقدام پر شکوک و شبہات قائم رہیں گے اور اسے ایک بار پھر اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کی کوشش سمجھا جائے گا۔
ریاستی اعتماد کی بحالی صرف نیک نیتی کے دعووں سے ممکن نہیں۔ اسے قانون، شفافیت اور جمہوریت سے جُڑی عملی اصلاحات کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، “سماجی دہشت گردی” کے خلاف یہ مہم خود ایک “ریاستی دہشت گردی” کا تاثر دے سکتی ہے — جو کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے خطرناک رجحان ہوگا۔

مستقبل کے سیلابوں کی روک تھام

مون سون کا موجودہ موسم پاکستان کے لیے ایک بار پھر قیامت خیز ثابت ہو رہا ہے۔ جون سے اب تک 265 سے زائد افراد سیلابوں کا شکار ہو چکے ہیں، اور خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ حالیہ سائنسی تحقیق — جو دنیا کے معتبر جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے — نہایت تشویشناک پیش گوئی کرتی ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کو زیادہ شدید اور بار بار آنے والے سیلابوں کا سامنا ہو گا۔ ماہرین نے اس رجحان کو نیا معمول (new normal) قرار دیا ہے — ایک ایسا معمول جو موسمیاتی شدت کے ساتھ ساتھ انسانی مداخلت اور قدرتی ندی نالوں پر بے ہنگم تعمیرات کی پیداوار ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں سیلابوں کی شدت، تعداد اور غیر متوقع نوعیت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جن میں ایک تہائی ملک زیرِ آب آ گیا اور 1700 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اس نئے معمول کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اب بھی سندھ کے دیہی علاقوں میں ہزاروں خاندان ان نقصانات سے پوری طرح نہیں سنبھل سکے۔ حالیہ تحقیق میں 2022 کے سیلابوں کو ایک انتباہ قرار دیا گیا ہے — ایک ایسا اشارہ جو ظاہر کرتا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو یہ آفات نہ صرف معمول بن جائیں گی، بلکہ ان کی شدت بھی مزید بڑھ جائے گی۔
مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اس تحقیق میں تین نہایت اہم تجاویز دی گئی ہیں:
(1) قدرتی ندی نالوں اور سیلابی میدانوں کی بحالی
(2) نکاسیِ آب کے نظام کی بہتری
(3) خطرناک علاقوں میں رہنے والی آبادیوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی
یہ تینوں اقدامات کسی ہنگامی ردِعمل کی بجائے طویل المدتی وژن اور سیاسی عزم کا تقاضا کرتے ہیں — اور بدقسمتی سے یہی وہ شعبے ہیں جہاں ہماری ریاستی منصوبہ بندی ہمیشہ کمزور رہی ہے۔
بے ترتیب اربنائزیشن اور قدرتی گزرگاہوں پر قبضے نے بارش کے پانی کے بہاؤ کو روکا ہے، جس کے باعث زمین کی قدرتی صلاحیت — یعنی پانی جذب کرنے کی استعداد — بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جب تک دریاؤں کو اُن کی اصل راہوں میں آزادانہ بہاؤ کی گنجائش نہیں دی جائے گی، سیلابی تباہی کو روکنا ممکن نہیں۔ اسی طرح، ہمارے شہری علاقوں کے نکاسی نظام، جو اکثر عشروں پرانے، ناقص یا مکمل طور پر غیر فعال ہیں، اب موجودہ اور آئندہ بارشوں کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔
لاہور جیسے چند شہروں میں آزمائی جانے والی قدرتی حل (nature-based solutions) — جیسے رین گارڈنز — مثبت نتائج دے رہے ہیں اور انہیں ملک بھر میں وسعت دی جا سکتی ہے۔ یہ حل نہ صرف سطحی پانی کے بہاؤ کو کم کرتے ہیں بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح کو بھی بحال کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
سب سے مشکل مگر ناگزیر کام ہے ان بستیوں کی منتقلی جو دریاؤں کے کنارے یا سیلابی میدانوں میں آباد ہیں۔ یہ اقدام آسان نہیں، لیکن اگر اسے انسانی ہمدردی، مناسب منصوبہ بندی اور متاثرہ خاندانوں کو متبادل رہائش، روزگار اور بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہوئے انجام دیا جائے، تو نہ صرف جانیں بچائی جا سکتی ہیں بلکہ بار بار کی آفات پر خرچ ہونے والی خطیر رقوم بھی بچائی جا سکتی ہیں۔
یہ کہنا اب محض خبردار کرنے والی بات نہیں رہی کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مستقبل کا خطرہ ہے — وہ آج ہمارے دروازے پر دستک دے چکی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، اور برف پر بارش جیسے مرکب اثرات اب ہمارے دریاؤں کے بہاؤ کو بے قابو کر رہے ہیں۔ ہمیں اب بحران کے بعد کی امدادی کوششوں سے ہٹ کر ایک فعال، سائنسی اور انصاف پر مبنی منصوبہ بندی اختیار کرنی ہوگی۔
سیلاب شاید “نیا معمول” بن جائیں، لیکن انسانی تباہی کو معمول نہیں بننے دینا چاہیے۔ اب وقت عمل کا ہے — اس سے پہلے کہ اگلا سیلاب ہماری غفلتوں کو پھر سے بے نقاب کر دے۔
ملک کے جنوب میں ایک بار پھر قدرتی آفت نے تباہی کی ایسی داستان رقم کی ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ حالیہ طوفانی بارشوں نے جنوبی پنجاب، خصوصاً سرائیکی بیلٹ کے علاقوں میں رودکوہیوں کے نظام کو ایک بار پھر بیدار کر دیا ہے۔ کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے سے اترنے والا سیلابی پانی جب اپنی قدرتی راہوں میں بہنے سے روکا گیا، یا اس کے بہاؤ کی گنجائش غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی نذر ہوئی، تو اس کا نتیجہ تباہ کن صورت میں سامنے آیا۔
ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے اضلاع — بالخصوص تونسہ، راجن پور اور کوہِ سلیمان کے دامن میں بسے گاؤں — ان رودکوہیوں کی زد میں سب سے زیادہ آئے ہیں۔ درجنوں بستیاں زیرِ آب آئیں، مال مویشی بہہ گئے اور سینکڑوں خاندان اپنا سب کچھ چھوڑ کر مظفرگڑھ، لیہ اور ملتان جیسے قریبی اضلاع میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ یہ اندرونِ ملک بے دخلی (internal displacement) ایک المیہ ہے، اور اگر اس پر فوری اور سنجیدہ ردِعمل نہ دیا گیا تو یہ انسانی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر پنجاب حکومت کی ذمہ داری دوہری ہے:
اول، وہ لوگ جو وقتی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں، ان کے لیے فوری، محفوظ اور باعزت عارضی قیام کا بندوبست کیا جائے۔ ان متاثرہ خاندانوں کو خوراک، طبی امداد، صاف پانی، حفظانِ صحت اور دیگر بنیادی ضروریات بلا تاخیر فراہم کی جائیں۔ حکومت کو یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ گزشتہ برس کی طرح متاثرین کو بدانتظامی، بے حسی اور غیر منصوبہ بندی کا شکار نہ ہونا پڑے، جہاں امداد کے نام پر صرف فوٹو سیشن اور بیانات ہوتے رہے، جبکہ حقیقی مدد ناپید رہی۔
دوم، سب سے اہم اور دیرپا ضرورت یہ ہے کہ رودکوہیوں کے پانی کے قدرتی بہاؤ کی مکمل بحالی کا جامع منصوبہ تیار کیا جائے۔ کوہِ سلیمان سے بہنے والے یہ ندی نالے اگر اپنی اصل راہوں میں بہنے دیں جائیں، تو وہ نہ صرف سیلاب کی شدت کو کم کر سکتے ہیں بلکہ زمین کی زرخیزی، پانی کی دستیابی اور مقامی ماحول کے توازن میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن جب ان راستوں پر کچے گھروں، دکانوں یا زرعی زمینوں کی صورت میں غیر قانونی آبادیاں وجود میں آ جاتی ہیں، تو سیلاب صرف پانی نہیں لاتا، بلکہ انسانی جانوں، معیشت اور عزتِ نفس کی تباہی کا پیغام بن جاتا ہے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ رودکوہی کوئی اچانک افتاد نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط قدرتی نظام کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ، دراصل قدرت سے ٹکر لینے کے مترادف ہے — اور اس کا انجام ہم ہر چند برس بعد ایک نئے انسانی سانحے کی شکل میں دیکھتے ہیں۔
لہٰذا، حکومتِ پنجاب کو فوری طور پر ایک شفاف، غیر سیاسی اور سائنسی بنیادوں پر مشتمل منصوبہ بندی کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس میں مقامی لوگوں کی مشاورت، ماحولیاتی ماہرین کی رائے، اور زمینی حقائق کو ملحوظ رکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے کہ کہاں تجاوزات ختم کرنی ہیں، کہاں پشتے مضبوط کرنے ہیں، اور کہاں حفاظتی اقدامات درکار ہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو ہر سال کی بارش ایک نئی آزمائش بن کر آئے گی، اور ہر بار ہمیں پھر انہی باتوں کو دہرانا پڑے گا جنہیں آج اگر اپنایا جائے تو کل کی تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔
سیلاب شاید قدرت کی آزمائش ہوں، لیکن ان کے نتائج اکثر ہماری اپنی کوتاہیوں کا حاصل ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم قدرت سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جینا سیکھیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں