آج کی تاریخ

پاکستان کے نئے فیصلہ ساز دماغ

پاکستان کے نئے فیصلہ ساز دماغ

پاکستان کے نئے فیصلہ ساز دماغ
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے معاشی فیصلہ سازی کے ڈھانچے میں کئی اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان میں ایس آئی ایف سی کا قیام، معاشی امور کی مرکزیت اور خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات کا اضافہ شامل ہیں۔ اس تعلقات نے دو طرفہ بات چیت کو امداد و سیکورٹی سے اقتصادی سرمایہ کاری کی طرف موڑا ہے۔
سعودی معاہدوں کے ساتھ ساتھ، نجکاری کے عمل پر بھی بڑھتی ہوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ یہاں بھی حکومت مختلف دلچسپی رکھنے والے فریقوں کو مراعات فراہم کرنے اور سودے کی ساخت ترتیب دینے میں براہ راست ملوث ہے۔ ماضی سے ایک اور سبق یہ ملتا ہے کہ جبکہ یہ حکومتی سپانسر شدہ معاہدے مختصر مدت کی زر مبادلہ کی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں، ان سے مستقبل میں ادائیگی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ معیشت کو اس کی پیداواری کمزوری سے باہر نکالنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
موجودہ ہائبرڈ رجیم قائم شدہ، غیر پیداواری اشرافیہ کو کمزور کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستان کی معیشت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کافی زر مبادلہ حاصل نہیں کر پا رہی، جس کی وجہ سے اکثر بیلنس آف پیمنٹس کے بحرانوں کا سامنا ہوتا ہے اور اقتصادی سست روی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل پیداواریت میں کمی کی علامت ہے۔
زر مبادلہ حاصل کرنے کی خاطر، سول اور فوجی فیصلہ ساز مختلف شعبوں کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کھول رہے ہیں، لیکن یہ کوششیں ریاست کی براہ راست مداخلت پر مبنی ہیں۔ معاہدوں کی شرائط ابھی واضح نہیں ہیں، لیکن توقع ہے کہ یہ فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
نجکاری کے عمل میں بھی حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ حکومت دلچسپی رکھنے والے فریقوں کو مراعات فراہم کرتی ہے اور سودے کی ساخت مرتب کرتی ہے۔ تاہم، ان معاہدوں کے دوران پیدا ہونے والی زر مبادلہ کی مشکلات کا مستقبل میں حل تلاش کرنے کے بجائے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
برانکو میلانووچ نے “سیاسی سرمایہ داری” کو سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے معاشی فوائد حاصل کرنے کے طور پر بیان کیا ہے۔ ریاست اپنی صوابدیدی طاقت کا استعمال کرے گی، جیسے کہ مراعات اور انعامات دینا، ضوابط کو نظر انداز کرنا، اور نئے ضوابط و ڈھانچے تشکیل دینا۔
پاکستان میں سیاسی سرمایہ داری کی کامیابی کم ہے کیونکہ یہاں کمزور بیوروکریسی، کم خودخدمت قابلیت اور کمزور خود مختاری ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے معیشت کو پیداواری کمزوری سے نکالنے کے بجائے رینٹ-سیکنگ کے مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں۔
کرپشن اور نیب کی سیاسی انجینئرنگ
پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ اور نیب کی سیاسی انجنئرنگ کے الزامات ایک عرصے سے زیر بحث ہیں۔ حالیہ پیش رفت میں، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا جس پر وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہو رہی ہے، جس میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ، اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل ہیں۔
وفاقی و پنجاب حکومت کے وکلاء نے نیب ترامیم کی حمایت میں دلائل دیے، جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے ترامیم کی مخالفت کی۔ عدالت نے بانیٔ پی ٹی آئی کی ویڈیولنک پر حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا، جس سے اس کیس کی اہمیت اور پیچیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نیب کے ذریعہ سیاسی انجینئرنگ کے الزامات اس کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ کے مطابق، نیب کو ماضی میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے، جو کہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
عدالت کے فیصلے میں ترامیم کے مواد کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے صدر کی جانب سے وجوہات کی ضرورت پر زور دیا۔ اس معاملے کی گہرائی میں جائیں تو یہ نہ صرف نیب کی کارکردگی بلکہ پورے قانونی نظام کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔
کرپشن کے خلاف جنگ میں نیب کی ناکامی اور سیاسی استعمال پاکستان کے لئے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ کا یہ کہنا کہ نیب مکمل ناکام ہو چکا ہے، ایک سنگین الزام ہے۔ اس سے نیب کے آپریشنل اصولوں اور اس کے قانونی فریم ورک پر دوبارہ غور کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس پس منظر میں، عدالتی نظام کو مزید مضبوط بنانے اور نیب کو حقیقی معنوں میں خود مختار اور شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ صرف نیب کی ساکھ بلکہ پورے ملک کی معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی استحکام پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔
یہ ضروری ہے کہ نیب کے قوانین میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے تاکہ مستقبل میں اس کے ذریعہ سیاسی انجینئرنگ کے الزامات کو روکا جا سکے۔ کرپشن کے خلاف ایک مؤثر، آزاد، اور شفاف ادارہ ہی پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتا ہے اور حقیقی معنوں میں قانون کی حکمرانی قائم کر سکتا ہے۔
آزاد کشمیر میں عوامی احتجاجی تحریک کی کامیابی
حال ہی میں آزاد کشمیر میں عوامی احتجاجی تحریک نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے اہم پیشرفت حاصل کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دیتے ہوئے، عوام کے مسائل کے حل کے لئے کمر کس لی۔ یہ فیصلہ آزاد کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کی گئی احتجاجی مہم کا نتیجہ تھا جس نے حکومت کو ان مطالبات پر غور کرنے پر مجبور کیا۔
احتجاج کا مرکزی نکتہ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ تھا۔ حکومت نے اس پر مثبت ردعمل دکھاتے ہوئے آٹے کی قیمت میں فی من 1100 روپے کی سبسڈی دی، جس سے آٹے کا ریٹ 3100 سے گھٹ کر 2000 روپے من ہو گیا۔ اس کے علاوہ، بجلی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی کی گئی، جہاں گھریلو استعمال کے لئے 100 یونٹ تک کی بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ، 100 سے 300 یونٹ تک 5 روپے فی یونٹ اور 300 یونٹ سے زائد استعمال پر 6 روپے فی یونٹ مقرر کی گئی۔
یہ فیصلے آزاد کشمیر کے عوام کے لیے ایک بڑی راحت کا باعث بنے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ قدم نہ صرف عوامی مطالبات کی تسلیم شدگی کا عکاس ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ جمہوری حکومتیں عوامی آواز کو کس قدر اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی جانب سے یہ اعلان کہ یہ ریلیف مستقل بنیادوں پر ہوگا، اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حکومت معاشی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہے۔
اس کامیابی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور اسٹیبلشمنٹ کی ذاتی دلچسپی بھی کلیدی رہی۔ ان کی مداخلت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ حکومتی اقدامات میں تاخیر نہ ہو اور عوامی مطالبات کو فوری توجہ دی جائے۔ اس طرح کی حمایت نے عوامی احتجاج کو مزید موثر بنانے میں مدد دی اور حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے۔
آزاد کشمیر کی حکومت کی جانب سے اجلاس کا انعقاد اور فیصلہ سازی کا عمل بھی لائق تحسین ہے۔ اس اجلاس میں آزاد حکومت کے وزراء اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی موجودگی نے یہ ثابت کیا کہ حکومتی سطح پر مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس فورم کا استعمال کرکے، آزاد کشمیر کی قیادت نے عوامی مطالبات کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان پر عملدرآمد کا میکانزم بھی وضع کیا، جو کہ جمہوریت کے لئے ایک صحت مند علامت ہے۔
یہ پیش رفت آزاد کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتی ہے، جہاں حکومتی اقدامات عوامی مفادات کی نمائندگی کرتے ہوئے، زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہوں۔ ان اقدامات سے نہ صرف آزاد کشمیر کے عوام کو فوری راحت ملے گی بلکہ یہ مستقبل کے لئے ایک مثبت مثال بھی قائم کرے گا۔ اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ آزاد کشمیر میں عوامی ترقی کے مزید دروازے کھلیں گے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے نئے راستے ہموار ہوں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں