پاکستان کی معیشت اس وقت بحران کا شکار ہے، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے امداد ملک کی مالی استحکام کے لیے ناگزیر بن چکی ہے۔ اسلام آباد میں حالیہ ملاقات میں آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستانی حکام سے ملاقات کی، جس میں ایف بی آر نے 12.9 کھرب روپے کے ریونیو ہدف کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہ قدم بظاہر آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور جاری مالیاتی مدد کو برقرار رکھنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، مگر اس اعلان کے حقیقی نتائج پر سوالات اٹھتے ہیں۔
ایف بی آر کا یہ ہدف بظاہر بہت بڑا اور پرعزم دکھائی دیتا ہے، لیکن ملکی معاشی حالت کے پیش نظر اس کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان کی کمزور معیشت، کمزور جی ڈی پی نمو، اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے چیلنجز کے ہوتے ہوئے یہ ہدف پورا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ موجودہ معاشی حالات میں معیشت پر بوجھ ڈالے بغیر ٹیکس وصولی میں اضافے کے اقدامات کرنا بڑا چیلنج ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر عام آدمی اور غریب طبقے پر پڑتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور کم آمدنی والے لوگوں پر ٹیکس کا بوجھ ان کی زندگی کے معیار کو کم کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایف بی آر کا ہدف حاصل کرنا نہ صرف مشکل بلکہ عام آدمی کی زندگی پر ایک مزید بوجھ ہوگا۔
آئی ایم ایف کے قرض کے ساتھ آنے والی شرائط بھی پاکستانی معیشت کے لیے چیلنجنگ ثابت ہو رہی ہیں۔ ان شرائط میں مالیاتی خسارے میں کمی، سرکاری اخراجات کو محدود کرنا اور ٹیکس وصولی میں اضافہ شامل ہیں۔ اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے یہ نسخے عمومی طور پر تمام معیشتوں کے لیے یکساں نہیں ہوتے۔ پاکستانی معیشت کی مخصوص ضروریات کو مدنظر رکھے بغیر ان کا اطلاق مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
اس ملاقات میں آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے چیئرمین اور گورنر اسٹیٹ بینک سے ملکی معیشت کے مستقبل پر گفتگو کی، تاہم اس ملاقات کی تفصیلات کو عام نہیں کیا گیا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے تفصیلات ظاہر نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہونے پر ابھی تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا جا سکا۔
ایف بی آر کا یہ ہدف کہ وہ رواں مالی سال میں 12.9 کھرب روپے کی ٹیکس وصولی کرے گا، ممکنہ طور پر پاکستان کی معیشت پر بوجھ بڑھائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دسمبر 2024 کے اختتام تک ایف بی آر کو 230 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبہ کیے گئے سخت مالیاتی اقدامات کی تکمیل مشکل ہو سکتی ہے۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ وہ کسی منی بجٹ یا اضافی ٹیکسیشن کے بغیر اس ہدف کو حاصل کرنے کا عزم رکھتا ہے، مگر ایسے دعوے کتنے حقیقت پسندانہ ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر کو زرعی آمدن پر ٹیکس اور انکم ٹیکس نیٹ میں توسیع جیسے طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے، مگر اس کے لیے اگلے مالی سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کا نفاذ جلدی ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی جی ڈی پی نمو میں کمی، افراط زر میں اضافہ، اور بے روزگاری جیسے عوامل بھی اس ہدف کو مشکل بنا رہے ہیں۔ ایف بی آر کا 12.9 کھرب روپے کا ہدف اس وقت تک ناممکن نظر آتا ہے جب تک کہ موجودہ ٹیکس نیٹ کو وسیع نہ کیا جائے اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو کم کرکے براہ راست ٹیکسوں کا نظام نافذ نہ کیا جائے۔
یہ بھی اہم ہے کہ حکومت موجودہ اخراجات میں کمی کی کوشش کرے، جو کہ 21 فیصد بڑھائے جا چکے ہیں۔ اگر پاکستان اخراجات میں کمی کرکے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرے تو شاید کچھ بہتر شرائط پر بات چیت ممکن ہو سکے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ اقدام ابھی زیر غور نہیں ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مالیاتی پالیسیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور عوام پر اضافی بوجھ ڈالے بغیر ایسے اقدامات کرے جو معیشت کو مستحکم کر سکیں۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ پالیسیوں کو حقیقت پر مبنی اور قابل عمل بنایا جائے، بجائے اس کے کہ عالمی اداروں کی شرائط کو ہی مطلق تصور کر لیا جائے۔
موجودہ صورتحال میں، اگرچہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملکی معیشت کو سنبھالنا مشکل ہوگا، مگر ان شرائط کے تحت عام آدمی کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت اور آئی ایم ایف دونوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی مخصوص اقتصادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی وضع کریں۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں ضروری ہے کہ ایف بی آر اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے اور بڑے کاروباروں اور غیر رجسٹرڈ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ دے۔ تاجروں اور کاروباری طبقے کے لیے تاجردوست اسکیم بھی ایک اچھا قدم ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس کو مزید بہتر اور قابل عمل بنانا ہوگا۔
حکومت اور آئی ایم ایف کو مل کر ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو ملک کی معیشت کو مستحکم بنا سکیں اور عام آدمی کے معیار زندگی کو برقرار رکھ سکیں۔ اگر موجودہ مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں مزید مالیاتی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی مالیاتی مشکلات کا حل محض قرضہ لینا نہیں بلکہ ایسی مالیاتی پالیسیوں کا اطلاق ہے جو ملکی معیشت کو خود انحصاری کی جانب لے جا سکیں۔ ایف بی آر کو بھی اپنے اہداف کو حقیقت پسندانہ بنانا ہوگا اور حکومت کو ملکی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کرنی ہوگی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے مخصوص پالیسی شرائط کو بلا تامل قبول کرنے کے بجائے پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی اقتصادی ضروریات کے مطابق ان میں تبدیلی کی گنجائش پیدا کریں اور عوامی فلاح کو ترجیح دیں۔
ایف بی آر اور دیگر حکومتی ادارے اگر واقعی عوامی فلاح کو ترجیح دیتے ہیں تو انہیں اپنے مالیاتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے تاکہ وہ حقیقی طور پر موثر ثابت ہو سکیں۔ پاکستان میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ایک بنیادی چیلنج ہے، مگر اسے پائیدار انداز میں پورا کرنا ضروری ہے۔ فی الحال ملک میں زیادہ تر ٹیکس بوجھ تنخواہ دار اور غریب طبقے پر ہے، جبکہ بڑے صنعتکار، سرمایہ دار، اور زرعی آمدنی رکھنے والے اکثر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ یہ امتیازی پالیسی معیشت میں ناہمواری کا باعث بنتی ہے اور عوام میں عدم اعتماد کو بڑھاتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حکومتی وفد کو چاہیے کہ وہ پالیسیوں پر غور کرتے وقت قومی مفاد اور عام آدمی کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو مدنظر رکھیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا اگرچہ ضروری ہے، مگر اسے عوامی فلاح و بہبود کے اصولوں کے تحت ہی عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر بنیادی ضروریات پر عائد ٹیکس کو کم کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ یہ وہ اشیاء ہیں جن پر ٹیکسوں کا براہ راست اثر عوام کے معیار زندگی پر پڑتا ہے۔
حکومت کے پاس اس وقت ایک موقع ہے کہ وہ اپنے اخراجات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات کو بہتر بنائے۔ بڑے حکومتی اخراجات کو محدود کرنا، غیر ضروری پروجیکٹس پر خرچ ہونے والے فنڈز کو کم کرنا اور صرف اہم منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ عوام کا اعتماد تب ہی بحال ہو سکتا ہے جب حکومت اپنی کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ کرے اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جو طویل مدتی فوائد فراہم کر سکیں۔
زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا حکومتی عزم ایک مثبت قدم ہے، مگر اس میں تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ملک میں بڑے زرعی زمینوں کے مالکان اور سرمایہ دار طبقے پر ٹیکس کا نفاذ اقتصادی انصاف کا تقاضا ہے۔ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کو آئندہ مالی سال تک مؤخر نہ کیا جائے بلکہ جلد از جلد نافذ کیا جائے۔
علاوہ ازیں، حکومت کو آئی ایم ایف کے مشوروں پر عمل کرنے سے پہلے اپنی پالیسیوں کی مناسب تحقیق اور جائزہ لینا چاہیے۔ اگر حکومت عالمی اداروں کی جانب سے دیے گئے عمومی اقتصادی نسخوں کو اندھا دھند قبول کر لیتی ہے تو اس سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پالیسی سازی کے عمل میں پاکستانی اقتصادی ماہرین، تحقیقی اداروں اور عوامی مفاد کے اداروں کو شامل کیا جائے تاکہ ایسی پالیسیاں بنائی جا سکیں جو ملک کی ضروریات اور عوام کی فلاح و بہبود کے عین مطابق ہوں۔
پاکستان میں موجودہ مالیاتی صورتحال ایک واضح پیغام دے رہی ہے کہ قرضوں پر انحصار سے نکل کر خود انحصاری کی جانب بڑھنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے قرضے وقتی مدد فراہم کرتے ہیں، مگر مستقل معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ملکی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے، پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور برآمدات کو فروغ دیا جائے۔
ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ بڑے تجارتی اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر سے ٹیکس وصولی میں بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ ملک کے بڑے کاروباری ادارے اکثر ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں یا کم ٹیکس دیتے ہیں، جس کی وجہ سے معیشت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ تاجردوست اسکیم کو موثر انداز میں نافذ کر کے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ایک اہم اقدام ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے تمام کاروباری افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے۔
اس وقت ملک میں اقتصادی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ ٹیکس نظام ہے جسے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ نظام بوجھ کا زیادہ تر حصہ عام آدمی اور کم آمدنی والے طبقے پر ڈال رہا ہے، جو کہ غیر منصفانہ ہے۔ اگر حکومت واقعی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے تو اسے ٹیکس نیٹ میں وسعت اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ ساتھ سب پر برابر ٹیکس نافذ کرنے کا عمل اپنانا ہوگا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کو اپنی شرائط پر بھی اصرار کرنا ہوگا تاکہ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نسخوں کو ملکی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ قومی خود مختاری اور اقتصادی استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کی مدد لینا ایک بہترین حکمت عملی ہوگی۔
پاکستان کو درپیش مالیاتی چیلنجز کا حل محض قرضے لینے میں نہیں بلکہ ملکی اقتصادی پالیسیوں کو درست سمت میں لانے میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشی پالیسی سازی کے عمل میں شفافیت، انصاف اور عوامی مفاد کو ترجیح دے۔ اگر اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط کو بہتر انداز میں پورا کر سکتا ہے بلکہ اپنی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار بھی کر سکتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے دیرپا اور پائیدار اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں پاکستان آئی ایم ایف جیسے اداروں کی مدد پر انحصار کم کر سکے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ خود انحصاری کی پالیسی اپنائے اور مقامی وسائل کو بروئے کار لائے۔ اگر ان نکات پر عمل کیا جائے تو پاکستان کو مالیاتی مشکلات سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے اور ایک روشن اقتصادی مستقبل کی جانب بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔
آئینی بنچ کی سماعت: بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب امید افزا قدم
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے 26ویں ترمیم کے بعد پہلی مرتبہ انسانی حقوق سے متعلق 18 مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا ہے، جو یقیناً ایک امید افزا اقدام ہے۔ انسانی حقوق کی بحالی اور آئینی مسائل کے حل کے لیے عدالت کا یہ قدم عوام میں اعتماد بحال کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ 26ویں ترمیم کے بعد کی عدالتی کارروائیاں ایک روشن مستقبل کی علامت ہیں، جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ عدلیہ نہ صرف آئینی معاملات میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کو ترجیح دیتے ہوئے حکومتی اداروں کے سامنے اپنا مضبوط موقف بھی پیش کر رہی ہے۔ خاص طور پر فضائی آلودگی، خواتین کے حقوق اور انصاف کے حصول جیسے اہم معاملات پر عدالت کی توجہ ان مسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ عدلیہ عوام کے حقوق کے تحفظ میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔
آئینی بنچ کا ان کیسز پر توجہ دینا، خصوصاً 26ویں ترمیم کے تناظر میں، اس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت ملک میں طاقت کی تقسیم اور انصاف کے نظام کی بحالی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ ترمیم کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کیسز کو زیر غور لایا ہے جو براہ راست عوامی مفادات سے متعلق ہیں۔ ان کیسز کی سماعت سے نہ صرف عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ امید بھی پیدا ہوگی کہ عدلیہ حکومتی اداروں کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فضائی آلودگی سے متعلق کیسز میں عدالت کا اقدام قابل تحسین ہے، کیونکہ یہ مسئلہ عوام کی صحت اور زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ آلودگی میں اضافے کے سبب صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں، اور صنعتی علاقوں کی بدتر حالت کے باعث عوام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ عدلیہ کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا یقینی بناتا ہے کہ عوامی مفادات کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔
26ویں ترمیم پر بھی غور عدالت کا ایک جرأت مندانہ قدم ہے، جس نے آئین کے اصولوں اور جمہوری اداروں کے تحفظ کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔ عدلیہ کا یہ قدم اس بات کا ضامن ہے کہ اختیارات کا توازن برقرار رکھا جائے گا اور کسی بھی ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
اسی طرح خواتین کے تحفظ کے حوالے سے مقدمات کا سامنا کرنے کا عزم عدالت کے اس عزم کا عکاس ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ عدلیہ کی جانب سے ایسے کیسز پر توجہ دینا ان مظلوم افراد کے لیے بھی ایک امید کی کرن ہے جنہیں اب تک انصاف کی فراہمی نہیں ہو سکی۔
26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا آئینی بنچ کا اس طرح متحرک ہونا ملک میں عدلیہ کی آزادی اور اس کے مضبوط کردار کی گواہی دیتا ہے۔ ان کیسز کی سماعت کا آغاز یہ پیغام دے رہا ہے کہ عدالت قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ عدالت کا یہ اقدام عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
آئینی بنچ کے ان فیصلوں کا اثر طویل المدتی ہوگا۔ عدالت کے ان اقدامات سے عوام میں اعتماد بحال ہوگا کہ ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ایک ادارہ موجود ہے جو کسی بھی غیر قانونی ترمیم یا اقدام کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کی یہ سرگرمی ایک مضبوط جمہوری معاشرے کی تشکیل میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔
آئینی بنچ کی حالیہ سرگرمیوں سے یہ واضح پیغام بھی ملتا ہے کہ عدالت ملکی مفادات کو مقدم رکھنے میں کوشاں ہے اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے عوام کو یقین ہوتا ہے کہ عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق ان کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔
یہ امید افزا آغاز اس بات کا غماز ہے کہ ملک میں عدالتی نظام عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور جمہوریت کی روح کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر اسی جذبے اور عزم کے ساتھ آئینی بنچ مستقبل میں بھی عوامی حقوق اور آئینی معاملات پر توجہ دے تو پاکستان میں نہ صرف جمہوری اداروں کو تقویت ملے گی بلکہ عوام کو بھی بہتر اور منصفانہ نظام کی فراہمی یقینی ہو سکے گی۔
اس وقت سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے اقدامات عوام میں یہ اعتماد پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قانون اور انصاف کے حصول کے لئے ایک مضبوط نظام موجود ہے جو ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تیار ہے۔
آئینی بنچ کی موجودہ سرگرمیوں نے عوام میں یہ یقین پیدا کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ ان کے مسائل کے حل کے لئے پرعزم ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہتی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف عوامی اعتماد کی بحالی میں مددگار ثابت ہو رہا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ عدالت نے اختیارات کے توازن کو بحال رکھنے میں ایک فعال کردار ادا کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کا آئینی بنچ اس وقت جو اقدامات کر رہا ہے وہ نہ صرف آئینی اصولوں کے تحفظ بلکہ عوامی بہبود کے لئے بھی اہم ہیں۔
عدلیہ کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے انسانی حقوق کے کیسز کو ترجیح دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالت معاشرتی انصاف اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سنجیدہ ہے۔ یہ قدم ان لوگوں کے لئے بھی حوصلہ افزائی کا باعث ہے جو انصاف کے منتظر ہیں اور جنہیں حکومتی اداروں سے انصاف نہیں مل پایا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ آئینی بنچ کے اقدامات صرف حقوق کے تحفظ تک محدود نہیں بلکہ یہ ملک میں قانون کی مضبوطی اور جمہوری اداروں کے استحکام کا بھی سبب بنیں گے۔ جب عدلیہ آئینی معاملات پر غور کرتی ہے اور غیر آئینی اقدامات کا سامنا کرنے کا عزم ظاہر کرتی ہے تو یہ اقدام حکومتی اداروں کو بھی پیغام دیتا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی یا غیر آئینی قدم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
عدلیہ کی یہ سرگرمی مستقبل میں حکومتی اداروں کو آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر مجبور کرے گی۔ سپریم کورٹ کا یہ اقدام ملک میں قانون و انصاف کی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ انصاف کے لئے ایک مؤثر اور شفاف نظام کی بنیاد بھی فراہم کر رہا ہے۔ یہ عمل ایک ایسی جمہوری فضا کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوگا جہاں ہر شہری کو اپنے حقوق کی ضمانت مل سکے گی۔
26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اس فعال کردار نے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو مزید تقویت دی ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ دینا اور انسانی حقوق کو محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اپنے آئینی کردار کو پوری طرح سے ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی بنچ کا یہ اقدام ایک امید کی کرن ہے جو نہ صرف موجودہ حالات میں بلکہ مستقبل میں بھی انصاف کے عمل کو تقویت دینے میں مددگار ثابت ہوگا۔ عدلیہ کی جانب سے قانون کے اصولوں پر عملدرآمد اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف قدم اٹھانا ایک صحت مند جمہوری نظام کی بنیاد ثابت ہوگا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، آئینی بنچ کے یہ اقدامات اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ایک ایسا نظام موجود ہے جو ان کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی داد رسی کے لئے پرعزم ہے۔ جب عدلیہ عوامی حقوق کو ترجیح دیتی ہے تو اس سے نہ صرف عام آدمی کو حوصلہ ملتا ہے بلکہ پورے ملک میں ایک بہتر اور مضبوط جمہوری نظام کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں بھی عدالت عوامی حقوق کے تحفظ کے لئے مزید سنجیدہ اور جامع اقدامات کرے گی۔ یہ اقدامات جمہوری اصولوں کی حفاظت کے لئے نہایت اہم ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہر حال میں برقرار رکھی جائے گی۔
سپریم کورٹ کا یہ فعال کردار حکومت کو بھی یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ آئینی تقاضوں اور عوامی مفادات کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس وقت عدلیہ نے جس جذبے کے ساتھ بنیادی حقوق کے کیسز پر توجہ دی ہے، وہ مستقبل میں حکومتوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ آئین کے اصولوں پر عملدرآمد ان کی اولین ذمہ داری ہے۔
عدلیہ کے اس فعال کردار سے نہ صرف عدلیہ اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوگا بلکہ یہ اقدام عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ایک مؤثر اور مضبوط عدالتی نظام کی بھی ضمانت دے گا۔ اس سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے محض کاغذی نہیں بلکہ عملی زندگی میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے مثبت نتائج فراہم کرتے ہیں۔
آئینی بنچ کی جانب سے انسانی حقوق اور دیگر آئینی معاملات پر توجہ دینا اس بات کا غماز ہے کہ عدالت عظمیٰ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت متحرک ہے۔ عوام کو یقین ہو رہا ہے کہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک مضبوط عدالتی نظام موجود ہے۔ اس وقت عوام کو جو امید اور حوصلہ ملا ہے، وہ جمہوریت اور انصاف کی فراہمی کے سفر کو آگے بڑھانے میں نہایت اہم ہے۔
پاکستان میں آئین کے تحت انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے اس عمل کو مضبوط بنانے کے لئے عدلیہ کے اقدامات آئندہ بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ سپریم کورٹ کا آئینی بنچ ملک میں انصاف، مساوات اور حقوق کی ضمانت دینے والے اصولوں کی حفاظت کے لئے پرعزم ہے اور یہ قدم پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری ریاست بنانے کی جانب ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔