پاکستان کی معیشت اس وقت جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اس سے نکلنے کا واحد پائیدار راستہ برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے درست کہا کہ پاکستان کی معاشی استحکام کا انحصار ایکسپورٹ لیڈ گروتھ پر ہے، لیکن محض اعتراف کافی نہیں۔ جب تک عملی حکمتِ عملی اور بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں، یہ ہدف محض کاغذی خواب رہے گا۔ آج برآمدات تقریباً 32 ارب ڈالر کے لگ بھگ جمی ہوئی ہیں، جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سات سے آٹھ برس میں انہیں 100 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔ یہ ہدف یقیناً پرکشش ہے مگر موجودہ حالات میں ایک ’’ایکسپورٹ ایمرجنسی‘‘ کے بغیر ممکن نہیں۔
پاکستان جیسے بڑے آبادی والے ملک کے لیے قرض اور امداد پر انحصار ایک مستقل خطرہ ہے۔ برآمدات میں جمود اس بحران کی جڑ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری پالیسی ساز قیادت اس قابل ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جس میں مقامی صنعتیں اور شعبے عالمی منڈیوں میں مسابقت کرسکیں؟ موجودہ برآمدی ڈھانچہ زیادہ تر اس تصور پر کھڑا ہے کہ جو بھی مقامی ضرورت سے زائد پیدا ہو جائے اسے بیرونِ ملک بیچ دیا جائے۔ یہ سوچ آج کی عالمی معیشت میں کسی بھی صورت کامیابی نہیں دلا سکتی۔ ترقی یافتہ برآمدی معیشتیں وہی ہیں جو منصوبہ بندی کے ساتھ پیداوار کرتی ہیں اور عالمی صارفین کی ضروریات کو سامنے رکھتی ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ اپنی برآمدی حکمت عملی کو مکمل طور پر ازسرِنو مرتب کرے۔ یہ صرف پیداوار بڑھانے کا معاملہ نہیں بلکہ معیار، جدت اور عالمی تقاضوں کے مطابق مصنوعات ڈھالنے کا سوال ہے۔ اس کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری لازمی ہے تاکہ عالمی رجحانات، صارفین کی ترجیحات اور ریگولیٹری تقاضوں کو سمجھا جا سکے۔ بصورتِ دیگر ہم وہی پرانی کم قیمت والی اشیاء بیچتے رہیں گے جن کی عالمی منڈی پہلے ہی بھر چکی ہے، اور ہم نئی، زیادہ قدر پیدا کرنے والی منڈیوں میں قدم نہیں رکھ پائیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک جیسے ویتنام اور تھائی لینڈ، کئی دہائیاں پہلے ہم سے پیچھے تھے لیکن آج وہ برآمدی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے معیار، ٹیکنالوجی، سپلائی چین کی پختگی اور برانڈنگ پر مسلسل توجہ دی۔ اس کے برعکس ہماری صنعت کم قدر اور کم پیداوار والے دائرے میں پھنسی رہی۔ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو ان پہلوؤں پر خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس نے دنیا کی سب سے بڑی برآمدی معیشت بننے کے لیے ہر پہلو پر برتری حاصل کی۔ چاہے وہ قیمت ہو یا معیار، پیمانہ ہو یا ٹیکنالوجی، چین نے اپنی ساحلی پٹی پر انڈسٹریل کلسٹر قائم کر کے لاجسٹکس کی لاگت کم کی اور عالمی منڈیوں میں سبقت حاصل کی۔ پاکستان کے پاس بھی یہ جغرافیائی برتری موجود ہے لیکن ہم نے آج تک کوئی مربوط صنعتی پٹی قائم نہیں کی۔
ہمارے صنعتی شعبے کی سب سے بڑی رکاوٹ توانائی کی بلند قیمتیں ہیں۔ خطے میں سب سے مہنگی بجلی اور گیس ہماری صنعت کی کمر توڑ دیتی ہیں۔ جب تک توانائی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات نہیں ہوں گی، برآمدی صنعتیں مسابقت کے قابل نہیں بن سکتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی علاقوں میں صنعتی بیلٹ کی ترقی ناگزیر ہے۔ مگر کراچی کی مثال سامنے ہے جہاں زمینوں پر قبضہ مافیا اور سٹے بازی نے صنعتی پلاٹس کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں۔ جب زمین ہی سرمایہ کار کو کئی گنا مہنگی پڑے گی تو صنعت کیسے ترقی کرے گی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ زمین کی منڈی کو شفاف بنایا جائے اور ساحلی زمینوں کو منظم منصوبہ بندی کے ساتھ صنعتی استعمال کے لیے مختص کیا جائے۔
یہاں یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ عالمی تجارتی ماحول خود تیزی سے بدل رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پروٹیکشنسٹ پالیسیوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی عالمی بے یقینی نے برآمدی معیشتوں کے لیے نئے چیلنج کھڑے کیے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دوگنی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ وہ اپنی برآمدی بنیاد کو عالمی معیار پر استوار کرے۔ بصورت دیگر، ہمارے اہداف نعرے بن کر رہ جائیں گے۔
پاکستان کے لیے فوری ضرورت یہ ہے کہ وہ درج ذیل اقدامات پر عمل کرے:
اول، توانائی کی قیمتوں کو مسابقتی سطح پر لایا جائے تاکہ صنعت لاگت کے دباؤ سے نکل سکے۔
دوم، تحقیق، ٹیکنالوجی اور جدت پر سرمایہ کاری کر کے مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے۔
سوم، ساحلی صنعتی پٹی قائم کر کے لاجسٹکس لاگت کم کی جائے اور انڈسٹریل کلسٹرز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
چہارم، برآمدات کو مخصوص چند شعبوں تک محدود رکھنے کے بجائے نئی مصنوعات اور نئی منڈیوں میں داخل کیا جائے۔
پنجم، برانڈنگ اور سپلائی چین کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ عالمی خریداروں کا اعتماد حاصل ہو۔
یہ تمام اقدامات محض کاغذی منصوبوں سے نہیں ہوں گے بلکہ ریاست کو سنجیدہ سیاسی عزم، پالیسی تسلسل اور کرپشن سے پاک نظام کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ پاکستان اگر اپنی برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ وقت ہمارے خلاف ہے اور خطے کے ممالک بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب مزید کوتاہی کی گنجائش نہیں۔
پاکستان کو برآمدی معیشت بنانا کوئی خواب نہیں، لیکن اس کے لیے ریاست کو اپنے وسائل، اداروں اور پالیسیوں کو درست سمت میں موڑنا ہوگا۔ بصورت دیگر، قرضوں اور امداد کے چکر میں پھنسی معیشت کبھی خودمختار نہیں بن سکے گی۔ وقت ہے کہ ہم خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں، ورنہ برآمدات کا یہ ’’ایمرجنسی‘‘ نعرہ بھی محض ایک کھوکھلا دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔
