آج کی تاریخ

پاکستان کی معیشت کی اصلاح مگر کیسے ؟

پاکستان کی معیشت کی اصلاح مگر کیسے ؟

پاکستان کی معیشت کو صرف آئی ایم ایف پروگرام کا حصول ہی بدتر حالت سے نہیں نکالے گا بلکہ اس کے لیے اسے اس سے آکے جاکر معاشی اصلاحات کرنے ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ لینے کی جیسے عادت پڑ گئی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں اب یہ تاثر عام ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے لگائی جانے والی شرائط کو پوری کرکے اور کامیاب جائزوں سے شاید پاکستان کی بیمارمعیشت تندرست ہوجآئے گی اور اس میں سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ اصلاحات بھی شامل ہیں جن کو کیے جانے کی اشد ضرورت سمجھی جا رہی ہے۔ اس عام تاثر کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت بڑا مغالطہ اور غلط فہمی ہے ۔ اس لیے حکومت پاکستان اور سرکاری معاشی ٹیم کے اراکین کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اس مغالطے کو دور کریں اور صاف صاف عوام کو بتائیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے پروگرام کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دنیا کو ہم یقین دلائیں کہ پاکستان نے عالمی سطح پر جو مالیاتی وعدے کر رکھے ہیں وہ ان کو پورا کرنے میں سنجیدہ اور اس کا اہل بھی ہےجبکہ معاشی اصلاحات اور شرح نمو کو بڑھانا آئی ایم ایف کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پاکستان کو مسلسل جاری معاشی بحران سے باہر آنے کے لیے خود اپنا تیار کردہ حل اختیار کرنا ہوگا۔پاکستان کی معیشت کی ایک ایسی اصلاح پاکستان ادارہ ترقی معاشیات – پی ائی ڈی ای نے پیش کی ہے۔ جس میں حکومت کو بیورو کریسی کے سرخ فیتے والی مشینری سے بدل کر مارکیٹ لبرلائزیشن کی بنیاد پر چلانے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہی پی آئی ڈی کی طرف سے پیش کیے جانے والے نئے تحقیقی مقالے کا بنیادی خیال ہے۔ پی ائی ڈی کی تجویز ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں اور مختلف قسم کی منظوریوں کے نظام کو انتہائی سادہ بنایا جائے اور وہ سرمایہ باہر آسکے جو مختلف شعبوں ميں جامد بے کار پڑا ہے جن میں سے زیادہ تر ‘مردہ سرمایہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں پھنسا ہوا ہے۔ پی ائی ڈی ان تھنک ٹینک میں سے ہے جو پاکستان کی معیشت میں چھپے امکانات کو باہر لانے کے لیے مکمل “ڈی ریگولیشن” کے زبردست حامی ہیں۔ان کے نزدیک ریگولیشن پالیسیز اور ضابطے پاکستانی معشیت کے لیے کلوٹین کا کام کر رہے ہیں۔حکومت اگر کاروبار کرنے کے لیے قواعد و ضوابط اور ريکولیٹری شرائط کو بہت کم اور سادہ رکھتی ہے تو حکومت اور اس کے پالیسی ساز جھوٹے اور درمیانے پیمانے کے کاروباروں کو زیادہ پھلنے پھولنے دے سکتے ہیں ان کا وقت بے جا فواعد و ضوابط کو پورا کرنے اور منطوریاں لینے میں نہیں صرف ہوگا اور سکون سے اپنے کاروبار کی ترقی پر توجہ دیں گے۔ بہت سارے ٹیکس مراحل (پروسیجرز) اور ٹیکس کی بلند ترین شرحیں ہیں جو کاروباریوں کو اپنی سیل کا بہت بڑا حصّہ اپنے کھاتوں سے باہر رکھتی ہے اور غیر رسمی طور پر ان کی گردش ہوتی ہے۔ یہ بری روش ٹیکس پراسس کو آسان بناکر تمام شعبوں میں یکساں شرح ٹیکس لگاکر ختم کی جاسکتی ہے۔ تاہم سب سے بڑا مسئلہ جو ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی معاشی اصلاحات کی جاتی ہیں تو تاثر یہ ہے کہ وہ اصلاحات سیاسی جماعتیں بروئے کار لاتی ہیں اور وہ ان اصلاحات کو ہنگامی ضرورت کے تحت درکار مسائل کے لیے اصلاحات کو محدود کرتی ہیں جن کا مقصد وہ ‘سخت ترین فیصلے بتاتی ہیں- جیسے توانائی کے شعبے میں گردشی قرض کا خاتمہ کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے کرنے کی کوشش – یہ تو معاشی اصلاحات نہیں ہیں بلکہ بجلی و تیل کے یونٹس کی کل لاگت کی وصولی ہے۔ آئی ایم ایف جب تیل گیس کی فل ریکوری کی طرف زور دیتا ہے تو اس کا مقصد حزانے پر پڑنے والے دباؤ سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ توانائی کے شعبے میں اصلاح کا مطلب اگر ہوسکتا ہے تو وہ اس شعبے کی نااہلی ، نقائص اور غفلت کا مکمل خاتمہ ہے جس میں یہ ناکام ہے تو مخض بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک دوسری مثال ٹیکس دائرے میں موجود ٹیکس دہندگان پر ہی بلند ترین ٹیکسوں کا اطلاق کیے جاتے رہنے کی پالیسی ہے۔ جبکہ اس دائرے سے جو باہر ہیں انہیں دائرے میں لانے کی کوئی بڑی اور نظر آنے والی کوشش حکومت کی طرف سے نہیں کی جا رہی – غریب اور سفید پوش طبقے پر بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کل ٹیکسوں کے مقابلے میں 75 فیصد ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائظ کو پورا کرنے سے معشیت کو درپیش خطرات ختم نہیں ہوں گے اور اسی خیال کو واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل فنانس انسٹی ٹیوٹ – آئی آئی ایف نے بھی پیش کیا ہے – اس کا بھی کہنا ہے کہ کرنسی کی شرح مبادلہ میں بدلاؤ، شرح سود کو بمطابق حالات بنانا ، توانائی کے شعبے میں رعایات کا خاتمہ کرنا اور سرکاری شعبے میں چلنے والے انٹرپرائز میں اصلاحات پر پیش رفت پاکستان کو طویل المعیاد ائی ایم ایف پروگرام کو حاصل کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے لیکن چیلنجز تو اس سے کہیں بڑے ہیں- پاکستان کو جن بنیادی معاشی اصلاحات کو بروئے کار لانا ہے ان میں سے سب سے پلے اور ضروری مالیاتی استحکام ہے۔ مالیاتی استحکام نہ ہونے سے گردشی قرضے کا جال بار بار بڑھتا جاتا ہے۔ اور مالیاتی استحکام کے لیے سب سے ضروری اور بنیادی چیز سیاسی استحکام ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت جس قسم کی ٹسل اپوزیشن اور فوجی جنتا میں چل رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے سیاسی استحکام این خیال است و محال است و جنوںکے زمرے میں ہی؛ رہے گا اور اگر ایسا رہے گا تو سیاسی استحکام یکے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی نسیا منسیا ہی سمجھیے۔ اسی مالیاتی عدم استحکام ہمیں آئی ایم ایف کی طرف لے گیا ہے۔ ابھی تک تو امکانات یہی ہیں کہ پیچیدہ قواعد و ضوابط ہٹائے جانے، آمدن پر یکساں ٹیکسز کے نفاذ کے زریعے سے مالیاتی استحکام خواب ہی رہے گا اور معیشت یونہی ستت شرح نمو کے جال میں پھڑ پھراتی رہے گی تاوقتیکہ سیاسی استحکام میسر نہ آ جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول ملک کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کو وقت ضایع کیے بغیر اعلی سطح پر مذاکرات کرنے ہوں گے۔

امتحانی مراکز میں نقل کی وبا

حالیہ برسوں میں، پاکستان کے تعلیمی منظرنامے کو نقل کے اسکینڈلوں کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے، جس نے ہمارے امتحانی نظام کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے کہ ایک خاص نگہبان طالب علموں کو دوسرے کی کاپی میں جھانکنے دیتا ہے یا امتحان کے ہال میں اسمگل کی جانے والی دھوکہ دہی کی شیٹوں میں جھانکنے دیتا ہے۔ لیکن اب، ہر چند دن بعد، کسی نہ کسی امتحان میں دھوکہ دہی کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔پچھلے سال ایم ڈی کیٹ سے لے کر پنجاب سے نویں جماعت کے امتحانات میں دھوکہ دہی کی تازہ ترین رپورٹس تک۔ یہ ایک منافع بخش ریکیٹ ہے جس میں مبینہ طور پر ہاتھ بدلنے والے دسیوں ہزار میں رقم ہے۔ مسئلہ کے مرکز میں کسی بھی قیمت پر کامیاب ہونے کے لیے نظامی دباؤ ہے۔ امتحانات سے جڑے اونچے داؤ کے ساتھ ساتھ اسکول کی ناکافی تعلیم اور نظام کی منصفانہ تیاری اور اعتماد دونوں کی کمی، طلباء کو بے ایمانی کی طرف دھکیلتی ہے۔ مزید برآں، امتحانی عملے کی ملی بھگت اس سالمیت کی خلاف ورزی میں سہولت فراہم کرتی ہے۔حکومت کا ردعمل تیز ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے، امتحانی نظام کو مزید محفوظ اور شفاف بنانے کے لیے اس کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ امتحانی مراکز میں کمپیوٹر پر مبنی ٹیسٹنگ اور نگرانی کے کیمروں جیسے تکنیکی حلوں کا تعارف رکاوٹ کا کام کر سکتا ہے۔ مزید برآں، نصاب پر نظر ثانی کی جانی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ روٹ لرننگ پر تصورات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس مایوسی کو کم کرتا ہے جو دھوکہ دہی کا باعث بنتا ہے۔ دوم، ایک اخلاقی تعلیمی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے جو محض نتائج کی بجائے دیانت اور محنت کی قدر کرے۔ آخر میں، ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، دھوکہ دہی کے سہولت کاروں کے لیے واضح سزاؤں کے ساتھ۔ پنجاب میں حکومت کا فیصلہ کن اقدام، جس میں اہلکاروں اور تفتیش کاروں کی برطرفی اور تحقیقات کے لیے کابینہ کمیٹی کی تشکیل شامل ہے، درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن اسے ایک وسیع، مستقل کوشش کا حصہ ہونا چاہیے۔ دھوکہ دہی کی وبا کو ختم کرنے کے لیے صرف انتظامی اقدامات سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے جو تعلیم کو فکری اور اخلاقی ترقی کے سفر کے طور پر تبدیل کرے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں