اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو ایران اور غزہ کے ساتھ کھل کر اظہارِ یکجہتی کرنا چاہیے، کیونکہ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے اگلے نشانے پر پاکستان ہو سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایران، لبنان، شام اور عراق پر حملے ہو چکے ہیں، اب اگر ہم نے ہوش نہ کیا تو پاکستان کی باری آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل مسلسل مظالم ڈھا رہا ہے اور عالمی ادارے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ او آئی سی اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی حیثیت صرف دکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے آرمی چیف اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو معلوم نہیں ملاقات میں کیا ہوا، لیکن ممکن ہے ٹرمپ نے کہا ہو کہ بھارت اور پاکستان یا ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے، مگر فلسطین پر ہونے والی بربریت پر کوئی بات نہ کی ہو۔ غیر مسلح فلسطینی عوام، خواتین اور بچے مارے جا رہے ہیں اور کسی کو پروا نہیں۔
مولانا کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اسے امت مسلمہ کی قیادت کرنی چاہیے، لیکن آج ہم دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہیں۔ اگر ایران اسرائیل کو جواب دیتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جاتے ہیں، اگر پاکستان بھارت کو جواب دیتا ہے تو دباؤ آ جاتا ہے، مگر اسرائیل کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی درندے اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکے ہیں اور صرف دو دن میں 1,500 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا اصل ہدف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے، جبکہ بھارت بھی موقع کی تاک میں بیٹھا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کم عمری کی شادی پر قانون سازی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس بل کے ذریعے قرآن و سنت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جائز نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنا رہے ہیں، جو اسلامی ملک کے شایانِ شان نہیں۔
بجٹ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ عوام کا نہیں، بلکہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ ہے۔ حکومت صرف اسے پڑھ کر سنا رہی ہے۔ حکومت تنقید برداشت نہیں کرتی اور جو بات ناگوار گزرے، اسے دبا دیا جاتا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کو ایک انقلابی سوچ کی ضرورت ہے، روایتی سیاست کا دور گزر چکا۔ عوام کو بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ خود اپنے مسائل کا حل نکال سکیں۔ معاشی بہتری صرف انصاف کی فراہمی سے ممکن ہے، طاقت کے استعمال سے نہیں۔
