آج کی تاریخ

تازہ ترین

پاکستان کب سرمایہ کاری کے لیے سازگار ملک بنے گا؟

پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے بیرونی سرمایہ کاری کے فقدان کا شکار رہی ہے۔ 2023-24 مالی سال میں سرمایہ کاری اور جی ڈی پی کا تناسب پچاس برس کی کم ترین سطح پر آ گیا تھا۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کو ایک غیر یقینی اور مشکل ماحول سمجھتے ہیں، جہاں ٹیکس تنازعات، پالیسیوں میں عدم تسلسل اور سکیورٹی کے خدشات سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں کچھ مثبت اشارے ضرور ملے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق جولائی 2025 میں غیر ملکی سرمایہ کاری 208 ملین ڈالر رہی جو گزشتہ برس جولائی کے مقابلے میں زیادہ ہے، اور مجموعی طور پر مالی سال 2025 میں ایف ڈی آئی میں 110 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ زیادہ تر چین کے سرمائے کی بدولت ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف چین پر انحصار کافی ہے؟ یقیناً نہیں۔ پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے واقعی سازگار ملک بننے کے لیے گہرے اور دیرپا اقدامات کرنا ہوں گے۔
حالیہ دنوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ٹیکس تنازعات حل کرے گی۔ بظاہر یہ قدم ایک مثبت پیش رفت ہے کیونکہ طویل عرصے سے ٹیکس حکام کا رویہ معاونت کے بجائے رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ادارہ جاتی سطح پر سپورٹ فراہم کی جائے، ریفنڈز کے اجرا میں تاخیر ختم ہو، ٹیکس قوانین کی تشریح میں وضاحت ہو، اور ودہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ جیسے مسائل کا بروقت حل نکلے۔ اگر یہ کمیٹی سنجیدگی اور شفافیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتی ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایف ڈی آئی کسی بھی ملک کی معاشی استحکام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ سرمایہ کاری نہ صرف سرمایہ لاتی ہے بلکہ ٹیکنالوجی، مہارت اور روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ ویتنام، ملائیشیا اور بھارت جیسے ممالک نے اپنی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو مضبوط بنانے کے لیے صرف برآمدات اور ترسیلاتِ زر پر نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ایف ڈی آئی پر بھی انحصار کیا۔ پاکستان بھی اسی ماڈل سے سبق سیکھ سکتا ہے کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے برآمدات، ترسیلات اور ایف ڈی آئی تینوں کا توازن ناگزیر ہے۔
مگر محض ایک کمیٹی کا قیام سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کافی نہیں۔ سرمایہ کار صرف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ کوئی نئی سہولت دی گئی ہے یا نہیں، بلکہ وہ یہ بھی جانچتے ہیں کہ موجودہ سرمایہ کاروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر غیر ملکی سرمایہ کار شکایت کرتے رہے ہیں کہ ریگولیٹری اداروں کے ساتھ ان کے تعلقات غیر یقینی اور پیچیدہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس نظام کی شفافیت اور تیز رفتاری سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنا سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر چیلنجز بھی حل طلب ہیں:
سب سے پہلا چیلنج سکیورٹی ہے۔ دہشت گردی اور اندرونی بدامنی کے خدشات سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔
دوسرا چیلنج پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ ایک حکومت جو فیصلے کرتی ہے، اگلی حکومت ان پر عملدرآمد روک دیتی ہے۔ اس سے سرمایہ کاروں کو طویل المدتی منصوبہ بندی مشکل ہو جاتی ہے۔
تیسرا چیلنج گورننس کی کمزوری ہے۔ بدعنوانی، بیوروکریٹک رکاوٹیں اور پیچیدہ ریگولیشنز سرمایہ کاروں کے لیے ماحول کو ناقابلِ برداشت بنا دیتی ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ سرمایہ کاری کے سازگار ماحول کے لیے اصلاحات کا دائرہ محض ایف بی آر تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں ادارہ جاتی اصلاحات، پالیسیوں میں تسلسل، اور سیاسی و معاشی استحکام شامل ہو۔
یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مالی سال 2025 میں ایف ڈی آئی میں 110 فیصد اضافہ ہوا، لیکن اس کا زیادہ تر دارومدار چین پر رہا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے سرمایہ کاری کے ذرائع کو متنوع بنائے۔ خلیجی ممالک، یورپی یونین، امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ نہ صرف بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنے ہوں گے بلکہ تجارتی قوانین اور سرمایہ کاری کے قواعد کو بھی عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اندرونی سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ اگر مقامی سرمایہ کار اپنے ملک میں اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ نہیں تو بیرونی سرمایہ کار کیسے مطمئن ہوں گے؟ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت سب سے پہلے اپنے تاجر اور صنعت کار کو سہولت فراہم کرے۔ جب اندرونی سرمایہ کاری بڑھے گی تو بیرونی سرمایہ کار بھی اعتماد کے ساتھ سرمایہ لائیں گے۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری کے فیصلے عالمی مالیاتی اداروں کی ریٹنگز، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹوں اور سیاسی استحکام کی سطح کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ جب تک پاکستان اپنی معیشت میں شفافیت، سیاسی عمل میں تسلسل اور سلامتی میں بہتری نہیں لاتا، سرمایہ کاروں کا اعتماد وقتی ریلیف سے آگے نہیں بڑھے گا۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایف بی آر کی کمیٹی سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے سفر کی ایک اہم کڑی ہے، لیکن یہ سفر طویل اور مشکل ہے۔ پاکستان کب سرمایہ کاری کے لیے واقعی سازگار ملک بنے گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں میں تسلسل پیدا کریں، ادارہ جاتی اصلاحات کریں، گورننس بہتر بنائیں اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔ اگر یہ سب اقدامات سنجیدگی سے کیے گئے تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے بڑے سرمایہ کاری مراکز میں شمار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اقدامات ادھورے رہے تو وقتی ریلیف کے باوجود سرمایہ کاری کے خواب محض خواب ہی رہیں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں