پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں گرین پاکستان انیشیٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک اہم بیان دیا کہ “آج کے دور میں مکمل آزادی کا حصول بغیر معاشی استحکام کے ممکن نہیں۔” ان کے اس بیان نے اس بات کی وضاحت کی کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ معیشت کی مضبوطی سے گزرتا ہے۔
گرین پاکستان انیشیٹو کا مقصد ملک بھر میں 4.4 ملین ایکڑ زمین پر جدید زراعت کو فروغ دینا ہے، جس سے آئندہ پانچ سالوں میں تقریباً 40 بلین ڈالر کی آمدنی کی توقع ہے اور اس کے ذریعے چار ملین نوکریاں پیدا ہونے کی امید ہے۔ اس پہل کے ذریعے نہ صرف زراعت کے شعبے میں انقلاب آئے گا بلکہ یہ ملک کی معیشت کو بھی استحکام بخشے گا۔
جنرل منیر نے ملک کے عوام اور سٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ وہ “منفی قوتوں” کو مسترد کریں اور ملک کی ترقی و استحکام کی راہ پر توجہ مرکوز رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ منفی پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا ٹرولز ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ ان کا یہ بیان نہ صرف حوصلہ افزائی کا باعث بنا بلکہ یہ بھی دکھایا کہ قیادت ملک کے مفادات کو کس طرح سے ترجیح دے رہی ہے۔
معاشی استحکام کی طرف یہ قدم انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ اس کے مثبت اثرات پورے ے ہے۔ معیشت کی مضبوطی ایک خود مختار قوم کی نشانی ہے اور اس کے لیے جدید زراعت کو فروغ دینا ایک مثبت قدم ہے۔
جنرل منیر کے اس بیان کے ذریعے فوج کی جانب سے گرین پاکستان انیشیٹو کی مکمل حمایت کی گئی ہے، جو کہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس پہل کو متعدد دوست ممالک کے تعاون سے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے، جس سے پاکستان کی زراعت کے شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔
اس اقدام سے نہ صرف معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ ملک میں خوراک کی سیکیورٹی کے مسائل کو بھی حل کرنے میں مدد ملے گی۔ فوڈ سیکیورٹی اور زراعت پر قومی سیمینار کے دوران اس پروگرام کا آغاز ہوا، جس میں جنرل منیر نے ملکی خوراک کی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔
یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام اور اہم ادارے مل کر اس پہل کو کامیاب بنائیں۔ ہر فرد کو اس مہم میں حصہ لینا چاہیے تاکہ ملکی ترقی کے لیے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔ زراعت کے علاوہ، معاشی استحکام کے لیے دیگر شعبوں میں بھی جدت طرازی کی ضرورت ہے، جیسے کہ صنعت، تعلیم، اور ٹیکنالوجی۔
معاشی استحکام اور آزادی کے درمیان گہرا تعلق ہے، اور اس کے لیے ملک میں سیاسی و سماجی استحکام بھی ضروری ہے۔ منفی عناصر اور پروپیگنڈا جو ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت سوچ کے ملک پر مرتب ہوں گے۔ معاشی استحکام سے ملکی سلامتی اور آزادی کو بھی تقویت ملتی ہ اور عزم کی ضرورت ہے۔ جنرل منیر کی طرف سے منفی قوتوں کو مسترد کرنے کی اپیل اس بات کی علامت ہے کہ قوم کو متحد ہوکر مشکلات کا سامنا کرنا چاہیے۔
ملک کے ترقیاتی سفر میں استحکام اور ترقی دونوں کو برقرار رکھنا اہم ہے۔ یہ صرف زراعت کی ترقی سے ممکن نہیں بلکہ ہر شعبے کی بہتری اور ان کے درمیان موثر تعاون سے وابستہ ہے۔ پاکستان کو ایک مضبوط معاشی قوت بنانے کے لیے جامع پالیسیوں کی ضرورت ہے جو کہ معاشی اور سماجی دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھیں۔
اس کے علاوہ، معیشت کی مضبوطی کے لیے تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی اہم ہے۔ تعلیم یافتہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، زراعت سمیت تمام شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ معاشی استحکام کی راہ میں جتنی بھی رکاوٹیں آئیں، ان کا حل تعاون، محنت اور جدت طرازی کے ذریعہ ممکن ہے۔ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے ہر فرد کی شمولیت ضروری ہے۔
اس پہلو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملک کے تمام اداروں کا یکجہتی اور مثبت رویہ نہایت اہم ہے۔ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ملکی معیشت نہ صرف مضبوط ہو بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بھی بڑھے۔ جنرل منیر کی قیادت میں، معاشی استحکام کی جانب یہ سفر نہ صرف امید بخش ہے بلکہ اس کے مثبت نتائج کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔
معیشت میں مثبت اشارے
مارچ 2024 میں619 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ سال مارچ میں 537 ملین ڈالر تھا۔ جس کی وجہ رمضان/عید کے دوران سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر کی زیادہ آمد اور کم تجارتی خسارہ ہے۔
اگرچہ ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ ترسیلات زر کی زیادہ آمد مسلسل بلند افراط زر کی شرح کی وجہ سے ہو سکتی ہے،کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے خاندانوں کے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن درحقیقت کرنٹ اکائونٹ کے سرپلس ہونے کی تعریف کی جانی چاہیے ۔ ہوسکتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر سرکاری اور غیر قانونی ہنڈی/حوالہ سسٹم کے ذریعے رقم بھجوانے کی ترجیح کا خاتمہ ہوگیا ہو۔ اکتوبر 2022 سے جون 2023 کے درمیان روپے اور ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش نے ڈالر کی قدر کے سرکاری اور غیر سرکاری فرق کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں حوالہ سسٹم ڈالر کے 10 روپے زیادہ ادا کرتا تھا۔
روایتی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس درآمدات پر پابندیوں کے نیتجے میں کم تجارتی خسارے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت دیگر ان پابندیوں کی مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ مارکیٹ کو تباہ کرتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں یہ پابندیاں پیداواری صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں کیونکہ بہتر حالات میں خام مال کی درآمدات سست ہوجاتی ہیں اور بدترین حالات میں میں مکمل طور پر بند ہوجاتی ہیں۔ آج بھی زرمبادلہ کی کچھ پابندیاں برقرار ہیں (بشمول ایندھن کی درآمدات کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو منافع کی واپسی سے متعلق)،آئی ایم ایف کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پرگزشتہ برس پہلی جائزہ دستاویزات میں ایک حقیقت بیان کی گئی ہے جس میں فنڈ کے عملے نے نوٹ کیا ہے کہ“کاروباری لوگوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان بینکوں کے ذریعے زرمبادلہ تک ناکافی رسائی کے بارے میں کچھ شکایات برقرار ہیں۔“۔ اہم بات یہ ہے کہ کہ نگراں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ جاری آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام تک تمام زرمبادلہ کی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ پہلی جائزہ دستاویزات میں نوٹ کیا گیا کہ: “جولائی سے نومبر 2023 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر 1.2 ارب ڈالر رہ گیا جو مالی سال 23 کی اسی مدت میں جون میں درآمدی ترجیحی ہدایات کے خاتمے کے باوجود 3.3 ارب ڈالر تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں تین دیگر اہم اجزاء ہوتے ہیں جن کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، جولائی تا مارچ 2024 کے درمیان براہ راست سرمایہ کاری منفی 980 ملین ڈالر ریکارڑ کی گئی جوگزشتہ برس کے مقابلے میں منفی 267 ملین ڈالر تھی۔ ایسے میں جب تمام اسٹیک ہولڈرز پوری طرح دوست ممالک سے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کررہے ہیں تو انہیں ابتک صرف دلکش وعدے ہی ملے ہیں، پھر بھی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس شیٹ اس کی عکاسی تب ہی کرے گی جب انفلوز کا ادراک ہو جائے گا۔ دوسرا، اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں تیزی کے باوجود پورٹ فولیو سرمایہ کاری جولائی تا مارچ 2023 کے دوران 1013 ملین ڈالر سے کم ہو کر منفی 168 ملین ڈالر رہ گئی۔ یہ بھی ملک کو درپیش موجودہ معاشی صورتحال کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی آمد کے لیے اچھا نہیں ہے حالانکہ یہی منطق دوست ممالک سے آنے والی رقوم پر لاگو نہیں ہو سکتی۔ اور آخری اہم بات کہ بجٹ خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 2023 میں منفی 946 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں تشویشناک مثبت 3,197 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
اگرچہ کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس بہتری کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن یہ اضافہ مکمل طور پر زرمبادلہ کی وجہ سے جیسے ترسیلات زر اور تجارت کی وجہ سے ہونا چاہیے نا کہ قرض میں اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو۔
