پاکستان کے کھیلوں کے منظرنامے پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو کرکٹ سرفہرست آتی ہے۔ اس کے بعد ہاکی، فٹبال اور کبڈی جیسے کھیل کبھی کبھار توجہ حاصل کر لیتے ہیں، مگر کچھ کھیل ایسے ہیں جو عالمی سطح پر نہ صرف نمایاں حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان میں پاکستان کا نام بھی اجاگر ہو سکتا ہے، اگر ان پر تھوڑی سی توجہ دی جائے۔ بیس بال ایسا ہی ایک کھیل ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے ایشین انڈر-15 بیس بال چیمپئن شپ میں ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ کو شکست دے کر عالمی رینکنگ میں 35ویں سے 32ویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ یہ پیش رفت خوش آئند ہے کیونکہ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ موجود ہے اور اگر اسے سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ کھیل بھی ملک کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ تین سال قبل پاکستان کی رینکنگ 22ویں تھی مگر مالی وسائل کی کمی اور عالمی ایونٹس میں شرکت نہ کر پانے کے باعث یہ مقام ہاتھ سے نکل گیا۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال اٹھاتی ہے: آخر کیوں پاکستان جیسے 24 کروڑ آبادی والے ملک میں بیس بال جیسے کھیل کے لیے مناسب انفراسٹرکچر، کوچنگ اور فنڈنگ کا بندوبست نہیں ہو پاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کے بجٹ کا بیشتر حصہ کرکٹ پر خرچ کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دوسرے کھیل مسلسل زوال کا شکار رہتے ہیں۔ بیس بال کو اسکول اور کالج کی سطح پر متعارف کرانے، مقامی ٹورنامنٹس کے انعقاد اور نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت پر توجہ دی جائے تو یہ کھیل نہ صرف ترقی کر سکتا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر نمایاں مقام بھی دلوا سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بیس بال امریکہ، جاپان، کوریا اور کیوبا جیسے ملکوں میں انتہائی مقبول ہے اور اس کھیل میں اچھی کارکردگی سے پاکستان کے کھلاڑیوں کے لیے بیرون ملک اسکالرشپ اور کیریئر کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ کھیل صرف میدانوں میں جیتنے کا نام نہیں بلکہ یہ معیشت، معاشرت اور سفارتکاری میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اگر بیس بال کو قومی پالیسی کا حصہ بنائے تو یہ کھیل کھیلوں کے ذریعے سفارتکاری (Sports Diplomacy) میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر بیس بال کے لیے اسپانسرشپ اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ مقامی سطح پر اکیڈمیاں قائم ہوں، کوچز کو تربیت دی جائے اور میڈیا پر بھی اس کھیل کو جگہ دی جائے تاکہ عوامی سطح پر بھی اس کی پذیرائی ہو۔
پاکستان کی بیس بال ٹیم کی حالیہ پیش رفت خوش آئند ہے لیکن اسے عارضی کامیابی کے بجائے ایک مستقل رجحان میں بدلنے کے لیے جامع حکمتِ عملی درکار ہے۔ اگر ہم کرکٹ سے ہٹ کر دیگر کھیلوں کو بھی موقع دیں گے تو نہ صرف ہمارے نوجوانوں کو نئے مواقع ملیں گے بلکہ پاکستان کا جھنڈا بھی مزید کھیلوں میں سربلند ہوگا۔
