پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے درمیان ایک اہم سفارتی پیش رفت میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کو دور کرنے کے مقصد سے بات چیت ہوئی۔ یہ مذاکرات پاکستان میں ایرانی فضائی حملے اور اس کے بعد اسلام آباد کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے تناظر میں ہو رہے ہیں۔ صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں نو پاکستانی مزدور وں کو افسوسناک طور پر ہلاک کر دیا گیا۔ اب جبکہ دونوں ممالک کشیدگی میں کمی کے لیے کام کر رہے ہیں، دو طرفہ تعلقات میں مثبت سمت کو فروغ دینے کے لیے مضبوط بات چیت اور تعاون کی ضرورت واضح ہو گئی ہے۔حالیہ حملوں کا آغاز ایران کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد گروپ جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملوں سے ہوا۔ اس اقدام کی اسلام آباد کی جانب سے مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات میں گراوٹ آئی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا۔ اس کے بعد ہونے والے جانی نقصان کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے کے عزم پر زور دیا گیا۔وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت نے خاص طور پر انسداد دہشت گردی اور باہمی خدشات کو دور کرنے کی کوششوں میں تعاون اور ہم آہنگی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ فریقین نے کشیدگی میں کمی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کھلے مواصلاتی چینلز کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سفیروں کی ان کے متعلقہ دارالحکومتوں میں دوبارہ تعیناتی سفارتی معمول کی بحالی کے لئے ایک مربوط کوشش کا اشارہ ہے، جو مشترکہ سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران تہران کی جانب سے ظاہر کیے گئے جذبات اچھے ہمسایہ اور بھائی چارے کے عزم پر زور دیتے ہیں۔ ایران نے سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لئے موجودہ مواصلاتی ذرائع کو استعمال کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور باہمی احترام کی پالیسی پر زور دیا۔ اس کے بعد وزیر خارجہ جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت نے سفارتی حل کے عزم کو مزید تقویت دی۔سفارتی کوششوں کے باوجود ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں نو پاکستانی کارکنوں پر حالیہ حملے نے صورتحال میں پیچیدگی کی ایک نئی پرت کا اضافہ کر دیا ہے۔ نامعلوم حملہ آوروں نے غیر ایرانیوں کو نشانہ بنایا جس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ تین مسلح افراد ان کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور موقع سے فرار ہونے سے پہلے اندھا دھند فائرنگ کی۔ متاثرین کا تعلق پنجاب خصوصا ملتان، مظفر گڑھ اور بہاولپور سے تھا۔اس گھناؤنے جرم کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ نے فوری طور پر ایرانی حکام سے رابطہ کیا اور اس کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ متاثرین کے اہل خانہ نے اظہار یکجہتی اور انصاف کے مطالبے کے طور پر ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ابھی تک ان نو مزدروں کے جسد خاکی پاکستان نہیں پہنچے ہیں – پاکستانی حکام کی جانب سے نہ ہی مقتول مزدوروں کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان ہوا ہے۔ جبکہ زخمیوں کے لیے بھی ہنگامی فنڈ جاری نہیں ہوئے۔ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو اس سستی کا فی الفور ازالہ کرنا ہوگا ہے۔ایسے میں جب پاکستان اور ایران اس مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، پاکستانی کارکنوں پر حالیہ حملے کی جامع تحقیقات کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ممالک کو علاقائی امن و استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لیے مذاکرات، سفارتکاری اور باہمی احترام کے اپنے عزم کو برقرار رکھنا چاہیے۔ سفیروں کی دوبارہ تعیناتی اور وزرائے خارجہ کے درمیان جاری بات چیت اختلافات پر قابو پانے اور تاریخی تعلقات کو مضبوط بنانے کی مشترکہ خواہش کی نشاندہی کرتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ان کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے اور دونوں ممالک کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ مشترکہ زمین تلاش کریں اور کشیدگی کی بنیادی وجوہات سے نمٹیں، تعاون، افہام و تفہیم اور مشترکہ خوشحالی پر مبنی مستقبل کو فروغ دیں۔
پاکستان پٹرولیم پالیسی 2012 میں ترمیم کا معاملہ
موجودہ نگران حکومت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں منظور کی جانے والی پاکستان پٹرولیم پالیسی 2012 میں ایک ترمیم متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے مطابق دریافت ہونے والی مقامی قدرتی گیس میں سے 50 فیصد کو نجی شعبے کو خریدنے کی اجازت ہوگی۔ اداریے کی یہ سطور جب لکھی جارہی ہیں تو اس وقت تک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں اس ترمیم کی مںطوری لینا بھی شامل ہے۔ سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کمپنی کے زرایع نے اس حوالے سے جو تحفظات حکومت کو بھیجے ہیں ان کا براہ راست تعلق نہ صرف پاکستان کے معاشی استحکام سے ہے جبکہ تجزیہ نگار اسے آئین پاکستان کی ایک شق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔سوئی نادرن گیس پائپ لائن کمپنی لمٹیڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ اگر مقامی دریافت شدہ گیس کا 50 فیصد نجی کمپنیوں کو بیچنے کی اجازت مل گئی تو اس کے بعد سرکاری شعبے کے پاس نہ تو ایکسپورٹ سے جڑی انڈسٹری کو رعایتی گیس دینے کی گنجائش رہے گی نہ ہی کھاد بنانے والے کارخانوں کو رعایتی نرخوں پر گیس فراہم ہوسکے گی اور مقامی گیس صارفین کو بھی رعایتی گیس کی فراہمی ناممکن ہوجائے گی- سوئی نادرن گیس یوٹیلٹی کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا تو سرکاری شعبے میں کام کرنے والی گیس یوٹیلٹی کمپنیاں اپنے صارفین کو گیس کی فراہمی کے لیے مزید آر ایل این جی گیس باہر سے درآمد کرنے کے لیے سسٹم میں شامل کرنا ہوگی اور اس سے پاکستان کا دڑامدی بل مزید بڑھ جائے گا۔پاکستان کی اس وقت بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور میں یوٹیلٹی بلوں میں سفید پوش اور غریب طبقات کو رعایت دینے کے بلند و بانگ دعوے درج کررہی ہیں- اگر نگران حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات کونسل پٹرولیم پالیسی 2012ء کی اہم ترین شق میں ترمیم کی مںطوری دے دیتی ہے جس کے مطابق نجی کمپنیوں کا مقامی گیس میں حصّہ 10 فیصد سے یک مشت بڑھاکر 50 فیصد کردیا گیا ہے تو اس کے بعد وہ کیسے اہم ترین صنعتوں اور مقامی صارفین کو کیسے رعایتی نرخوں پر گیس فراہم کرسکیں گی کیونکہ اس کے بعد صرف ایک راستا ہوگا کہ براہ راست وفاقی بجٹ میں سبسڈی رکھی جائے جس پر پابندی خود پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عالمی مالیاتی فنڈ- آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کی شرائط میں تسلیم کررکھی ہیں- پاکستان کے وہ صارفین جو نجی شعبے سے گیس خرید کرتے ہیں وہ 10 فیصد کوٹا رکھنے والے نجی شعبے کے کئی ایک کھلاڑیوں کی ناجآغز منافع خوری اور مسلسل غیر حقیقتوں کے نفاذ سے تنگ ہیں جب نجی شعبے کے پاس 50 فیصد مقامی گیس بھی ہوگی تو اس سے اندازہ لگانا مسشکل نہیں ہے کہ عام صارف کی مشکلات میں کس قدر آصافہ ہوگا۔
مسافر ٹرینوں کی نجکاری: عوام دشمن فیصلے نہ کیے جا ئیں
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پاکستان ریلوے حکام نے مالی خسارے میں کمی لانے کے لیے 15 ٹرینوں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ٹرینوں میں بولان میل ، کراچی ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، تھل ایکسپریس، موسی پاک ایکسپریس، لاثانی ایکسپریس، سکھر ایکسپریس، کوہاٹ ایکسپریس، چناب ایکسپریس، شاہین پینجر، جنڈ پینجر، سمن سرکار ایکسپریس، اٹک پسنجر، ماروی ایکسپریس اور نارووال پیسنجر شامل ہیں۔خبر کی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ اس سے پہلے پاکستان رلوے حکام 7 ٹرینوں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرچکے ہیں- پاکستان ریلوے حکام کی جانب سے 15 ریلوے ٹرینوں کی نجکاری کرنے کی بنیادی وجہ 60 ہزار حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں جبکہ 1 لاکھ 25 ہزار ریٹائرڈ ملازمین و بیواؤں کو پنشن کی ادائیگی میں پیش آنے والی مشکلات کو قرار دیا ہے۔ ہمارے لیے 15 مسافر ٹرینوں کو پاکستان ریلوے کے مالیاتی بحران کے سبب پرآئیویٹ کرنے کی خبر پریشان کن ہے۔ کیونکہ پاکستان ریلوے حکام نے جنوری کے پہلے ہفتے میں رواں مالی سال 2023-24 کے پہلے 7 مہینوں میں پاکستان ریلوے کی آمدنی کے 41 ارب روپے ہونے کی نوید سنائی تھی جوکہ کزشتہ مالی سال 22-23 میں سارے سال محض 35 ارب روپے تھی- سرکاری شعبے میں جلنے والی مسافر اور مال بردار ٹرینوں کی آمدنی کے جو اعداد و شمار تھے وہ بھی کافی حوصلہ افزا تھے۔ لیکن جنوری کے اخری ہفتے میں ایسا کیا ہوا ہے کہ پاکستان ریلوے حکام نے اچانک سے 15 مزید مسافر ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس وقت نجی شعبے میں چلنے والی 7 مسافر ٹرینوں کے کرائے سرکاری شعبے میں چلنے والی مسافر ٹرینوں سے کہیں زیادہ ہیں اور لامحالہ جو پندرہ مسافر ٹرینیں نجی کمپنیوں کے پاس جائيں گی ان کے کرایوں میں بھی بے انتہا اضافہ ہوگا- جبکہ ان مسافر ٹرینوں کے ایک گھنٹے سے دو گھنٹے کی مےافت پر وافع اسٹشنوں کے کرایے پہلے ہی انتہائی غیر حقیقی طور پر بہت زیادہ ہیں- ملتان سے خانیوال تک کسی بھی سرکاری ٹرین کا کرایہ 550 روپے فی کس ہے جبکہ نجی ٹرانسپورٹ 150-200 روپے وصول کررہی ہے۔ صرف اس فرق سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیسے پاکستان ریلوے کے زریعہ سرکاری شعبے میں سفر کی آسان کرایوں پر سہولت کو ایک منطم طریقے سے ختم کیا جارہا ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان ریلوے نے 10 سال تک فی ٹریک کراسنگ پر ایک لاکھ روپے وصول کیے جب ٹیلی کام آپریٹرز نے فائبر براڈ بینڈ نصب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 2007 میں فائبر براڈ بینڈ کے استعمال میں توسیع کے بعد پانچ سال کے لئے چارجز کو بڑھا کر 27 لاکھ کر دیا گیا تھا۔پاکستان ریلوے کا خسارہ مسافر ٹرینوں کی نجکاری یا پلیٹ فارموں کو نجی شعبے کے حوالے کیے جانے سے ختم نہیں کیا جاسکتا- نہ ہی ٹکٹنگ شعبے کی نجکاری سے یہ مسئلہ حل ہوگا-دنیا بھر میں مسافر ٹرینیں سرکاری شعبے میں کبھی بھی ریلوے کے لیے منافع کمانے کا سبب نہیں ہوا کرتیں بلکہ یہ سماجی خدمت سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دنیا بھر میں فریٹ سروسز، ٹریک کراسنگ سروسز وغیرہ سے آمدن میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ لیکن 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت نے اسے 6 لاکھ روپے لائف ٹائم کے لیے کردیا- جبکہ پاکستان ریلوے کیبل آپریٹر سے کیبل نیٹ ورک نصب کرنے کے 100 روپے سالانہ فیس وصول کررہا ہے جو انتہائی کم ہے۔ اگر براڈبینڈ فائبر آپریٹر سے 6 لاکھ سالانہ کی پالیسی بنائی جائے اور کیبل آپریٹر سے 5000 سالانہ فیس مقرر کی جائے تو پاکستان ریلوے کو مسافر ٹرینوں کی نجکاری کرنے جیسے عوام دشمن فیصلے نہیں کرنے پڑیں گے۔بدقسمتی سے گزشتہ برسوں کے دوران عدم توجہ، ناقص پالیسیوں، بڑھتے ہوئے اخراجات، فنڈز کا غلط استعمال، چوری، اقربا پروری، سیلاب اور ناکافی ٹیکنالوجی اور بدانتظامی نے پاکستان ریلوے کو اربوں روپے کے بڑے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان سب وجوہات کودور کرنے کی بجائے مالی خسارے کو کم کرنے کے نام پر عام مسافروں پر ہی بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ اور پاکستان ریلوے کے مسافر ٹرین اسٹرکچر کو نجی شعبے کے حوالے کیا جارہا ہے یہ اشراف پرست پالیسی ہے جسے عوام دشمن پالیسی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے اداریوں میں کئی بار یہ سوال اٹھا چکے ہیں کہ نگران کابینہ جس کا سب سے بڑا کام انتخابات کرانا ہے وہ دور دس نتآئج کے حامل عوامی اہمیت کے بڑے بڑے فیصلے خود کیوں لے رہی ہے؟ یہ کام آنے والی منتخب حکومت پر چھوڑے جانے چاہئیں – خاص طور پر جب عوام میں یہ تاثر جنم لے رہا ہو کہ ایسے فیصلے منتخب حکومت کی بجائے بابو شاہی کے زریعے اس لیے لیے جارہے ہیں تاکہ انتہائی بااثر کارٹیلز کو عوام کی قیمت پر فائدہ پہنچایا جاسکے۔