آج کی تاریخ

تازہ ترین

پاکستانی ہاکی: ایک قومی ورثے کا زوال

کبھی وہ وقت تھا جب دنیا کے ہاکی میدانوں پر پاکستان کا طوطی بولتا تھا۔ گرین شرٹس کا ذکر کرتے ہی فتح، مہارت، رفتار اور وقار ذہن میں آتے تھے۔ ہاکی نہ صرف پاکستان کا قومی کھیل تھا، بلکہ ایک ایسا شعبہ تھا جس میں ہم دنیا کے بہترین سمجھے جاتے تھے۔ لیکن آج، یہ کھیل ایک ایسے المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کی داستان بدنظمی، مالی بحران، اور بے اعتنائی سے بھری پڑی ہے۔پاکستانی ہاکی کی موجودہ حالت، محض ایک کھیل کے زوال کی کہانی نہیں بلکہ ایک قومی ورثے کے بکھرنے کا منظرنامہ ہے۔ وہ کھیل جس نے ملک کو تین مرتبہ اولمپک گولڈ، چار مرتبہ ورلڈ کپ اور متعدد عالمی اعزازات دلائے، آج نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پس منظر میں جا چکا ہے بلکہ مالی بدحالی کا شکار ہو کر اپنے کھلاڑیوں کو بنیادی سہولیات دینے سے بھی قاصر ہے۔کھلاڑیوں کی تنخواہیں واجب الادا ہیں، تربیتی کیمپ وسائل کے بغیر ادھورے ہیں، اور سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن (PHF) کے پاس اتنے بھی وسائل نہیں کہ وہ اپنی قومی ٹیم کو عالمی مقابلوں میں شرکت دلوا سکے۔ حالیہ صورتحال میں پرو لیگ جیسا اہم عالمی ٹورنامنٹ، جس میں شرکت کسی بھی ٹیم کی عالمی شناخت اور معیار کی علامت سمجھی جاتی ہے، ہمارے لیے ایک خواب بنتا جا رہا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے فیلڈ میں یہ مقام حاصل نہیں کیا۔ پرو لیگ میں شرکت کا موقع دراصل نیوزی لینڈ کی دستبرداری کے بعد ہمارے حصے آیا۔ یعنی ہم نے اپنی کارکردگی سے یہ اعزاز حاصل نہیں کیا بلکہ ایک خالی نشست پُر کرنے کی خاطر ہمیں بلایا گیا۔ یہ حقیقت ہی ہماری موجودہ حالت کی تلخ عکاسی کرتی ہے۔دوسری طرف، فیڈریشن حکام حکومت سے 350 کروڑ روپے کی خطیر رقم کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ اس لیگ میں شرکت ممکن بنائی جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس ادارے کی مالی شفافیت پر سوالیہ نشان ہو، کیا اسے بلا شرط اتنی بڑی رقم دی جا سکتی ہے؟ پاکستان اسپورٹس بورڈ پی ایس بی بارہا مطالبہ کر چکا ہے کہ فیڈریشن اپنے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دے، اور سابقہ گرانٹس کے خرچ کی شفاف رپورٹ پیش کرے۔ یہ مطالبہ کوئی غیر منطقی نہیں بلکہ ایک لازمی تقاضا ہے، تاکہ عوام کا پیسہ درست جگہ پر صرف ہو۔یہاں حکومت ایک مشکل دو راہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف پی ایچ ایف کی غیرشفاف تاریخ، بدانتظامی، اور بداعتمادی ہے، تو دوسری طرف قومی ٹیم کے لیے ایک نادر موقع — دنیا کی بہترین ٹیموں کے خلاف مسلسل کھیل کر نہ صرف اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا امکان، بلکہ قومی وقار کی بحالی کا بھی ایک ذریعہ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو مکمل طور پر رد نہ کرے۔ اس ٹورنامنٹ میں شرکت نہ صرف کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کرے گی بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس شرکت کو سخت شرائط کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ سب سے پہلے، کھلاڑیوں کے واجبات فوری ادا کیے جائیں۔ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت تمام مالی رقوم کی نگرانی ہو، اور کسی بھی بدعنوانی کی گنجائش نہ رہے۔فیڈریشن کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی گورننس کے ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرے۔ ایسے افراد کو فیصلہ سازی سے دور رکھا جائے جنہوں نے ماضی میں ادارے کو نقصان پہنچایا ہو۔ تمام مالی معاملات کو شفاف بنانے کے لیے بیرونی آڈٹ کو لازمی قرار دیا جائے، اور اس کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی جائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ ہاکی کے بنیادی ڈھانچے پر ازسرنو توجہ دی جائے۔ اسکول، کالج، اور کلب سطح پر ہاکی کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ جب تک نچلی سطح پر ٹیلنٹ پیدا نہیں ہوگا، قومی ٹیم میں بہتری کی امید کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ ہاکی کو محض قومی کھیل کا درجہ دے دینا کافی نہیں، بلکہ اسے عملی طور پر قومی ترجیح بنانا ہوگا۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا صرف مالی امداد ہی ہاکی کی بحالی کا حل ہے؟ یا ہمیں اس کھیل کو ایک مکمل پالیسی فریم ورک کے تحت ترقی دینے کی ضرورت ہے؟ دنیا کے دیگر ممالک میں کھیل کو ایک صنعت، ایک سسٹم، اور ایک قومی سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں بھی ہاکی کو صرف فخر کی پرانی داستان کے بجائے، ایک زندہ حقیقت بنانے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دینا ہو گی۔۔ہاکی صرف ایک کھیل نہیں، پاکستان کی شناخت کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس کے زوال کا مطلب صرف میدان میں شکست نہیں، بلکہ ایک قومی خواب کا بکھر جانا ہے۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، اگر اصلاحات اور احتساب کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو شاید آنے والے دنوں میں ہماری نئی نسل صرف کتابوں میں پڑھے گی کہ کبھی پاکستان ہاکی کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم، بطور ادارے اور بطور حکومت، اس کھیل کو وہ مقام واپس دلانے کی سنجیدہ کوشش کریں، جو کبھی دنیا بھر میں ہماری پہچان تھا۔پاکستان ہاکی کی موجودہ حالت محض ایک کھیل کی ناکامی نہیں، بلکہ پورے اسپورٹس سسٹم کے بوسیدہ ڈھانچے کی علامت ہے۔ اگر ہم کھلے دل سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کرکٹ کے سوا تمام کھیل، چاہے وہ ہاکی ہو، اسکواش، ایتھلیٹکس، باکسنگ، کبڈی، یا فٹبال—ہر ایک زوال، بدانتظامی اور نظراندازی کا شکار ہے۔کرکٹ کو ملک میں ایک جنون کی حد تک اہمیت دی گئی ہے، جس کی اپنی جگہ پر معقول وجوہات بھی ہیں، کیونکہ اس میں قومی ٹیم کی کامیابیاں اور تجارتی امکانات موجود ہیں۔ لیکن کیا ایک ملک کی اسپورٹس پالیسی صرف ایک کھیل کے گرد گھومنی چاہیے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب آج بھی کوئی ادارہ دینے کو تیار نہیں۔ملک بھر میں کھیلوں کے میدان ویران پڑے ہیں۔ ایتھلیٹکس کے کھلاڑی مناسب ٹریک اور سہولیات سے محروم ہیں۔ اسکواش، جس میں ہم نے جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے عظیم کھلاڑی پیدا کیے، اب گمنامی کی دھند میں گم ہو چکا ہے۔ باکسنگ اور ریسلنگ جیسے کھیلوں میں باصلاحیت نوجوان یا تو ترکِ کھیل پر مجبور ہو چکے ہیں یا بیرونِ ملک قسمت آزمانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔پاکستان اسپورٹس بورڈ اور متعلقہ فیڈریشنز کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ بجٹ کی تقسیم انتہائی غیر متوازن ہے؛ کرکٹ کے لیے اربوں روپے کے منصوبے اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جب کہ باقی کھیلوں کو محض علامتی فنڈز دیے جاتے ہیں، وہ بھی اکثر بدعنوانی یا بدانتظامی کی نذر ہو جاتے ہیں۔حکومت، کارپوریٹ سیکٹر اور میڈیا—تینوں کی توجہ صرف کرکٹ پر مرکوز ہے۔ اشتہارات، اسپانسرشپ، اور کوریج—سب کچھ کرکٹ کے گرد گھومتا ہے۔ ایک فٹبالر، ہاکی پلیئر، یا اتھلیٹ کی کامیابی کو نہ صرف کوریج نہیں ملتی بلکہ ان کے لیے مواقع بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل کھیلوں کو بطور کیریئر دیکھنے سے گریزاں ہے۔ملکی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے مقابلے تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ اسکول اور کالج لیول پر کھیل کبھی ٹیلنٹ کی نرسری ہوا کرتے تھے، آج وہاں کھیلوں کا بجٹ صفر کے برابر ہے۔ گراس روٹ لیول سے کھلاڑیوں کی نشوونما کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے گلی کوچوں میں کھیلنے والے بچے اگر مواقع پائیں تو عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے نہ تربیت کا کوئی نظام ہے، نہ مالی معاونت، نہ ہی کسی فیڈریشن کی توجہ۔ وہ اگر جیت بھی جائیں تو ان کی کامیابی کا جشن چند لمحوں کا ہوتا ہے، اور پھر وہ واپس اسی گمنامی میں چلے جاتے ہیں جہاں سے نکلے تھے۔اس سنگین صورتِ حال کو سدھارنے کے لیے ایک جامع اسپورٹس پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی پالیسی جو ہر کھیل کو مساوی اہمیت دے، جس میں بجٹ کی منصفانہ تقسیم ہو، فیڈریشنز کو جواب دہ بنایا جائے، اور کھلاڑیوں کی فلاح کو مرکز میں رکھا جائے۔ اس کے علاوہ، اسپورٹس انفراسٹرکچر کو ازسرِ نو تعمیر کرنا ہوگا—نہ صرف بڑے شہروں میں، بلکہ دیہی علاقوں میں بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک “نیشنل اسپورٹس وژن” ترتیب دے، جس کے تحت:
ہر ضلعی سطح پر کھیلوں کی اکیڈمیز بنائی جائیں
باصلاحیت کھلاڑیوں کو اسکالرشپ اور مالی سپورٹ دی جائے
اسکول اور کالج کی سطح پر کھیلوں کو لازمی نصاب کا حصہ بنایا جائے
ہر کھیل کی فیڈریشن کو آڈٹ، شفافیت اور کارکردگی کی بنیاد پر فنڈز دیے جائیں
میڈیا اور پرائیویٹ سیکٹر کو دیگر کھیلوں کی سرپرستی کی ترغیب دی جائے
اگر ہم اب بھی خاموش رہے، اور کھیلوں کی ترقی کو محض کرکٹ کے گرد محدود رکھا، تو ہم نہ صرف ہزاروں نوجوانوں کے خواب توڑیں گے، بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت مزید محدود کر لیں گے۔پاکستان کو صرف کرکٹ نہیں، ہر میدان میں چیمپیئن بننے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ممکن تب ہے جب ہم کھیلوں کو بطور قومی ترجیح اپنائیں، نہ کہ صرف ایک تجارتی تماشہ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں