آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

پاکستانی عملے کا بحفاظت رہا ہونا اور خطے کی بڑھتی ہوئی کشیدگی

یمن کے ساحلی علاقے راس عیسیٰ پر کھڑے ایک مائع پیٹرولیم گیس (ایل۔پی۔جی) ٹینکر پر اسرائیلی ڈرون حملہ اور اس کے بعد عملے کو حوثی گروہ کی جانب سے یرغمال بنائے جانے کا واقعہ نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ یہ خطے کی پیچیدہ اور خطرناک صورتحال کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کے مطابق جہاز پر ۲۷ افراد موجود تھے جن میں ۲۴ پاکستانی شامل تھے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ عملہ بہ حفاظت رہا ہو گیا اور اب وہ یمنی پانیوں سے نکل چکا ہے۔ اس موقع پر پاکستانی وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور سفارتی اداروں کی بروقت کوششیں اور غیر معمولی حالات میں سکیورٹی ایجنسیوں کی محنت قابلِ ستائش ہیں، جن کی بدولت ایک بڑی انسانی سانحے سے بچاؤ ممکن ہوا۔
یہ واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ غزہ کی جنگ کے اثرات کس طرح پورے خطے میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے یمن میں حوثی اہداف پر حملے اس تنازع کو مزید وسعت دے رہے ہیں، جب کہ حوثی ملیشیا کی کارروائیاں بحیرہ احمر اور خطے کی سمندری گزرگاہوں کو غیر محفوظ بنا رہی ہیں۔ یہ صورتحال عالمی تجارت اور توانائی کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اور ایسے حالات میں غیر مسلح تجارتی جہازوں کا نشانہ بننا نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی جانوں کو براہِ راست خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ واقعہ کئی اسباق رکھتا ہے۔ سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی جغرافیائی اور عسکری صورتحال میں اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جامع حکمتِ عملی اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ دوسرے، پاکستان کو اپنی بحری سلامتی کی پالیسی پر ازسرِنو غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے کسی بھی ہنگامی واقعے میں بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وزارت خارجہ اور سفارتی مشینری نے جس طرح اس واقعے پر فوری ردِعمل دکھایا، اس طرزِ عمل کو مستقل بنیادوں پر اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ بیرون ملک پاکستانی شہری ہر لمحے محفوظ رہ سکیں۔
خطے کی مجموعی صورتحال اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور حوثیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے حملے نہ صرف خطے کی امن و امان کی صورتحال کو داؤ پر لگا رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر توانائی کی ترسیل کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ سمندری راستوں کی حفاظت اور غیر جانب دار ممالک کے شہریوں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستانی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس واقعے کو ایک انتباہ سمجھے اور نہ صرف خطے میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے بلکہ عالمی سطح پر ایسے واقعات کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے میں بھی فعال کردار ادا کرے۔ انسانی جان سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور کسی بھی جغرافیائی یا عسکری مہم جوئی کی بھینٹ نہیں چڑھنی چاہیے۔

پاکستان، فلسطین اور عالمی ضمیر

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات اور اس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کی اپیل ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطین کا المیہ اپنی سنگین ترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی عام سانحے کی نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی قیادت کا عالمی اداروں اور بالخصوص اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو متحرک کرنے کی کوشش نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔
یہ ملاقات اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ہوئی جس کا پورا منظرنامہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے تنازعات اور امن و امان کے بگڑتے ہوئے حالات سے جڑا ہوا ہے۔ اسرائیل صرف غزہ تک محدود نہیں رہا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک پر بھی فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔ دوسری جانب دنیا کے مختلف خطوں میں جنگوں، خانہ جنگیوں اور معاشی بحرانوں نے انسانی المیوں کو دوچند کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں پاکستان کی جانب سے جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے آواز بلند کرنا عالمی انصاف کے مطالبے کو تقویت دیتا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب اور ملاقات میں بالکل درست کہا کہ فلسطینی عوام گزشتہ 80 برس سے اسرائیل کے وحشیانہ قبضے اور مظالم کو سہتے آ رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں روزانہ غیر قانونی بستیاں تعمیر ہو رہی ہیں اور قابض فوج کی سرپرستی میں آبادکار نہتے فلسطینیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ غزہ میں تو صورتحال اس سے بھی بدتر ہے، جہاں بچوں اور عورتوں کو وحشیانہ بمباری اور اندھا دھند حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ٹھیک ہی کہا کہ یہ تاریخ کا سب سے تاریک باب ہے جسے انسانی ضمیر کبھی معاف نہیں کرے گا۔
پاکستان نے ایک بار پھر اپنے دیرینہ اور اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر ایک جائز اور ناگزیر مطالبہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی طاقتور ریاستیں بالخصوص امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے کر اس ظلم کو جاری رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔
یہاں ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملاقات میں نہ صرف فلسطین کے مسئلے پر بات کی بلکہ پاکستان کے دوسرے بڑے چیلنجز، جیسے موسمیاتی تبدیلی اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر بھی روشنی ڈالی۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں حالانکہ اس کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب اور حالیہ مون سون میں لاکھوں ایکڑ زمین کی تباہی اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی انصاف ایک زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اضافی مالی وسائل فراہم کرے تاکہ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک ان نقصانات کا مقابلہ کر سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کی امن کے لیے کوششوں اور موسمیاتی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی جدوجہد کو سراہا۔ یہ اعتراف اپنی جگہ اہم ہے لیکن دنیا اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتی کہ جب تک بڑے طاقتور ممالک اقوامِ متحدہ کے نظام کو اپنی مرضی کے تابع رکھتے ہیں، تب تک یہ ادارہ محض قراردادوں اور بیانات تک محدود رہے گا۔ فلسطین کے مسئلے پر دہائیوں کی ناکامی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے نہ صرف فلسطین بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو بھی ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان دراصل بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان اپنے عوام کے پانی کے حقوق پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تین بڑے نکات اس ملاقات میں نمایاں ہوئے: اول، فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ تنازعات پر اصولی اور اخلاقی موقف۔ دوم، موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات پر عالمی مالی امداد کا مطالبہ۔ سوم، خطے اور دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے اقوامِ متحدہ کے کردار کی بحالی۔ یہ تینوں نکات نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
اداریے کے اس مقام پر یہ سوال بھی اٹھانا ضروری ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ واقعی اس قابل ہے کہ وہ غزہ میں قتل عام روک سکے؟ اس کا جواب بدقسمتی سے منفی ہے جب تک کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اپنے ویٹو کے ہتھیار کو ظلم کی پشت پناہی کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان جیسے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے رہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مظلوم اپنی آواز کو مسلسل بلند کرتے ہیں تو بالآخر دنیا کو سننا پڑتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو متحرک کرنے کی یہ کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ اقدام محض سفارتی ضرورت نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ دنیا کے 65 ہزار شہید فلسطینی بچوں اور عورتوں کی روحیں عالمی برادری سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا انصاف محض طاقتوروں کے لیے ہے یا کمزوروں کے لیے بھی کوئی امید باقی ہے؟
پاکستان کا یہ موقف کہ ’’فلسطین اب مزید اسرائیلی زنجیروں میں قید نہیں رہ سکتا‘‘ ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ایک دن ضرور پوری ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کب تک اس ناانصافی کو برداشت کرتی رہے گی اور کب انصاف کی جیت کا دن آئے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر اور سیکرٹری جنرل سے ملاقات اس بات کا اظہار بھی ہے کہ پاکستان اپنی عالمی حیثیت کو محض علاقائی تنازعات تک محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ دنیا کے بڑے مسائل پر ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنی رائے پیش کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقاریر اکثر رسمی نوعیت کی سمجھی جاتی ہیں، لیکن پاکستان نے اس پلیٹ فارم سے نہ صرف اپنی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے پہلو اجاگر کیے بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ غزہ کا المیہ محض ایک خطے کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتیں جب تک اپنے مفادات کے حصار میں قید رہیں گی، تب تک اقوامِ متحدہ جیسا ادارہ انصاف فراہم کرنے کے بجائے بے بسی کی تصویر دکھاتا رہے گا۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک اگر مسلسل اصولی مؤقف اپنائیں اور دیگر ترقی پذیر اور مسلم ریاستوں کو ساتھ ملا کر ایک متحدہ لائحہ عمل پیش کریں تو یقیناً اس عالمی ادارے کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف عرب دنیا کا نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کا اور درحقیقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اگر دنیا کو امن عزیز ہے تو غزہ میں فوری جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم نے بجا طور پر یہ بھی کہا کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے لیکن اب امن جیتنا ہے۔ یہ جملہ نہ صرف پاکستان کے اپنے حالات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ خطے اور دنیا کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ طاقت کے استعمال سے وقتی طور پر فتح حاصل کی جا سکتی ہے مگر پائیدار امن کے لیے انصاف، مکالمہ اور مساوات لازم ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران بھی اپنی دفاعی صلاحیت دکھائی، مگر ساتھ ہی امن اور مذاکرات کی دعوت دی۔ یہی رویہ دنیا کے لیے بھی ایک ماڈل ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ امن کی خواہش اور سیاسی تدبر بھی ضروری ہے۔
اس ملاقات کا ایک اور اہم پہلو ماحولیاتی تبدیلیوں پر زور دینا تھا۔ پاکستان بار بار یہ واضح کر رہا ہے کہ اس کا کاربن اخراج دنیا میں ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک ہر سال اربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا رہا ہے۔ 2022ء کے سیلاب نے 34 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا جبکہ رواں برس پھر لاکھوں لوگ بے گھر اور ہزاروں زندگیاں ختم ہو گئیں۔ وزیر اعظم کا مطالبہ کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے خصوصی موسمیاتی فنڈز فراہم کیے جائیں، بالکل درست اور وقت کی پکار ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو پاکستان جیسے ممالک مزید تباہی کی لپیٹ میں آتے رہیں گے۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں ہمیشہ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کی ہے۔ چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ ہو، افغانستان کی صورتِ حال، یا فلسطین کا المیہ۔ اس مرتبہ بھی وزیر اعظم نے کشمیر کے مظلوم عوام کو یاد دلایا اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے غیر قانونی اقدام کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ یہ نہ صرف ایک دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی پامالی ہے۔ اس پر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ فلسطین اور کشمیر دونوں خطے ایسے ہیں جہاں انصاف کو دہائیوں سے پامال کیا جا رہا ہے۔ اگر عالمی برادری نے ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو خطے میں امن ایک خواب ہی رہے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر اور ملاقات دراصل اسی خطرے کی گھنٹی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اپنی آنکھیں کھولے۔
اداریے کے اس حصے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا یہ اصولی مؤقف محض جذبات پر مبنی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر کھڑا ہے۔ فلسطینی ریاست کا مطالبہ ہو یا کشمیری عوام کا حقِ خود ارادیت، یہ سب طے شدہ اصول ہیں جنہیں طاقتور ممالک اپنی مرضی سے روند نہیں سکتے۔ پاکستان کا یہ موقف عالمی انصاف کی اس بنیاد کو مضبوط کرتا ہے جو وقت کے ساتھ کمزور ہو رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا سننے کو تیار ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ محض قراردادوں اور بیانات تک محدود رہے گا یا عملی اقدامات کرے گا؟ وزیر اعظم نے درست کہا کہ سب سے چھوٹی لاشیں سب سے بھاری ہوتی ہیں۔ یہ الفاظ غزہ کے معصوم بچوں کی قبروں پر کھڑے ہر انسان کے دل سے اٹھنے والی چیخ ہیں۔ اگر عالمی برادری اب بھی خاموش رہی تو آنے والی نسلیں اس بے حسی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو یاد دلایا ہے کہ دنیا کو جنگ نہیں، امن چاہیے۔ اور امن اسی وقت ممکن ہے جب انصاف ہوگا، فلسطین آزاد ہوگا، کشمیر کا فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق ہوگا اور ماحولیاتی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ یہ اداریہ اس بات پر ختم کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے ایک بار پھر تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہو کر دنیا کو آئینہ دکھایا ہے۔ اب فیصلہ دنیا کا ہے کہ وہ اس آئینے میں اپنی شکل پہچانتی ہے یا نہیں۔

مہنگائی کی اصل کہانی اور وقتی ریلیف کا فریب

پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 18 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں حساس قیمتوں کے اشاریے (ایس پی آئی ) میں 1.34 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاغذ پر یہ کمی وقتی ریلیف کا تاثر دیتی ہے، لیکن اس ریلیف کا بنیادی سہارا عارضی عوامل ہیں جیسے ٹماٹر اور مرغی کی قیمتوں میں کمی یا بجلی کے نرخوں میں وقتی رد و بدل۔ دوسری طرف وہ اشیائے ضروریہ جن پر عام گھرانوں کے اخراجات کا انحصار ہے — جیسے گندم کا آٹا، چینی، گھی، چاول اور ڈیزل — ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اصل مسئلہ برقرار ہے۔ ایک ہفتے کے ٹماٹر سستے ہونے سے عوام کے باورچی خانے میں آسانی نہیں آتی جب کہ آٹے، چینی اور ایندھن کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہوں۔ سال بہ سال موازنہ کیا جائے تو ایس پی آئی اب بھی 4.17 فیصد بلند ہے، اور غریب طبقے پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے کیونکہ ان کا بجٹ بنیادی طور پر خوراک اور ایندھن پر خرچ ہوتا ہے۔
پالیسی ساز اکثر ایس پی آئی کو شور شرابے والا اشاریہ سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اشیائے ضروریہ صارف قیمت اشاریے-سی پی آئی کا تقریباً 45 فیصد حصہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایس پی آئی میں بڑھنے والا دباؤ لازمی طور پر سی پی آئی میں منتقل ہوتا ہے، اور یہی سی پی آئی افراطِ زر کے ہدف کو متاثر کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے سات فیصد درمیانی مدت کا ہدف رکھا ہے، مگر موجودہ رجحانات کے مطابق یہ ہدف برقرار رکھنا مشکل نظر آ رہا ہے۔
مزید خطرہ یہ ہے کہ حالیہ سیلاب نے سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی رسد کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزی اور قلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ گندم کی درآمد اور خریداری کے حوالے سے شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے بھی غیر یقینی صورتحال قائم ہے۔ چینی کی منڈی پہلے ہی بگڑی ہوئی ہے اور پیٹرولیم لیوی حکومت کے مالیاتی ڈھانچے کا سہارا بن چکی ہے، ایسے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ مستقبل کی مہنگائی کو مزید غیر یقینی بنا دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کے لیے ریلیف اعداد و شمار کی رپورٹوں میں نہیں بلکہ روزمرہ کی زندگی میں ہونا چاہیے۔ جب آٹے کی قیمت کم نہیں ہوتی، گیس اور بجلی کے بلوں میں فرق نہیں پڑتا اور ایندھن مہنگا ہوتا ہے تو ایس پی آئی میں ایک ہفتے کی کمی محض کاغذی ریلیف بن کر رہ جاتی ہے۔
اگر حکومت مہنگائی کو واقعی قابو میں لانا چاہتی ہے تو اسے وقتی اعلانات سے ہٹ کر ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر توجہ دینا ہوگی۔ اس میں سب سے اہم زرعی منڈیوں میں شفافیت، اشیائے خورونوش کے ذخیرہ اور رسد کے نظام کو بہتر بنانا، توانائی کی قیمتوں کو مستقل بنیادوں پر منصفانہ طریقے سے طے کرنا اور سب سے بڑھ کر پالیسی میں تسلسل پیدا کرنا شامل ہے۔
جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، عوام کے لیے مہنگائی کی اذیت ختم نہیں ہوگی اور ہر ہفتے آنے والی رپورٹ میں کمی یا اضافہ محض ایک سرکاری خبر ہی بنے گا، زمینی حقیقت نہیں۔ مہنگائی کے ڈھانچہ جاتی اسباب پر قابو پائے بغیر کوئی بھی شرحِ سود میں کمی یا وقتی ریلیف پائیدار ثابت نہیں ہوگا۔ عوام اور منڈیوں کا اعتماد اسی وقت بحال ہوگا جب ریاست یہ دکھائے کہ وہ قیمتوں کے بنیادی محرکات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے، نہ کہ صرف وقتی اعداد و شمار کے ذریعے ریلیف کا تاثر دینے پر اکتفا کرتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں