تحریر : طارق قریشی
امریکہ کے دبائو پر محترمہ بے نظیر بھٹو سے کئے جانے والے معاہدے میں پرویز مشرف نے اپنے مستقبل بارے یقین دہانی امریکی حکام کے ساتھ ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی حاصل کر لی تھی۔ اسی یقین دہانی کے تحت پرویز مشرف نے ایک بار پھر پاکستانی آئین کی من مانی تشریح کے تحت اپنی مدت پوری کر لینے والی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو پانچ سال کے لیے صدر منتخب کروا لیا۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور ہم نوا ججوں کا راج تھا۔ اس طرح یہ سب آئینی ہی قرار پایا۔ پرویز مشرف صدر تو منتخب ہو گئے مگر بغیر وردی ان کی حالت اس سانپ جیسی تھی جس کے نہ دانت تھے اور نہ ہی اس کے پاس زہر کی تھیلی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اچانک معاہدے سے ہٹ کر نواز شریف کو بھی واپس آنے کی اجازت دینے کی شرط رکھ دی۔ پرویز مشرف کے پاس انکار کی گنجائش نہ تھی۔ اس طرح پرویز مشرف کی دس سال کی تمام محنت ناکام ہو گئی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان واپس بھی آ گئے ان کی جماعتیں بھی موجود تھیں ووٹ بنک بھی۔ دونوں رہنمائوں کی واپسی کے ساتھ ہی سٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ ہائبرڈ نظام تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔ سندھ میں الیکٹیبلز کی منزل پیپلزپارٹی تھی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اس طرح چند ہفتوں کے اندر ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ سندھ میں مشرف گروپ منظر سے غائب ہو گیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی واپسی کے موقع پر ان کے استقبالی جلوس میں بم دھماکے کے ذریعے انہیں یہ پیغام دیا گیا کہ ابھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تمام تر دھمکیوں اور خطرات کے باوجود ملک میں الیکشن مہم کا آغاز ہو گیا تھا تمام شہروں میں جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے تھے۔ انتخابی مہم کے اختتامی ایام میں لیاقت باغ راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے واپسی کے وقت بے نظیر بھٹو پر خود کش قاتلانہ حملہ کیا گیا نتیجے میں محترمہ کی شہادت کے ساتھ ہی ملک بھر میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ حملہ کس نے کرایا منصوبہ بندی کہاں کی گئی یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اس حملے کے بعد ہونے والے رد عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پرویز مشرف نے ملک میں انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کرانے اور اپنی مرضی کی نگران حکومت میں توسیع کی منصوبہ بندی بارے سوچ بچار شروع کر دی تھی۔ اس ساری منصوبہ بندی میں پرویز مشرف بھول گئے کہ فوج اب ان کے کنٹرول میں نہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل اشفاق احمد کیانی کی اپنی ترجیحات تھیں۔ آصف زرداری نے بھی کمال عقل مندی سے محترمہ کے قتل کے بعد شدید رد عمل کو اپنی سیاسی بصیرت اور ہنر مندی سے کنٹرول کر لیا۔ اس تمام تر غیر یقینی صورتحال میں 2008ء میں عام انتخابات منعقد ہو گئے ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے عین مطابق نتائج وہی آئے جس کے بارے پہلے ہی اندازے لگائے جا چکے تھے۔ مرکز میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن خیبر پختونخواہ میں اے این پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت جبکہ بلوچستان میں وسیع البنیاد اتحادی حکومت، پرویز مشرف صدارتی محل میں تنہائی کا شکار ہو گئے۔ ان کی خود ساختہ جماعت مسلم لیگ ق اور شیخ رشید جیسے درباری بھی اب ان سے تعلق بارے زیادہ پر جوش نہیں رہے تھے۔ آصف زرداری کی نظر صدارت کے عہدے پر تھی وزیراعظم کے لیے انتخاب پنجاب سے ہی ہونا تھا۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے لیے ان کا انتخاب لڑے۔ مرکزی حکومت میں آصف زرداری نے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر مسلم لیگ ن کو بھی حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی کو پنجاب کی حکومت میں حصہ مل گیا۔ اس ساری صورتحال میں ایسا لگتا تھا کہ پرویز مشرف ہی ناکام نہیں ہوئے پاکستانی سٹیبلشمنٹ بھی ناکام ہو گئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنمائوں نے ٹھوکریں کھا کر تاریخ سے کچھ سبق حاصل کر لیا ہے۔ اب وہ سٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے تیار نہ ہو نگے۔ مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہی یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا۔ آصف زرداری کو بھی اس صورتحال کا اندازہ تھا اس لیے انہوں نے تیزی کے ساتھ آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ مشرف سے مکمل جان خلاصی کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ اٹھارویں ترمیم بھی پاس ہو گئی۔ مشرف کو بھی مزید رسوائی سے بچنے کی خاطر استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔ اب صدارت کا منصب آصف زرداری کا انتظار کر رہا تھا۔ ای دوران افتخار چوہدری اور دیگر ججوں کی بحالی کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کا آغاز ہو گیا۔ اختلافات کچھ اصولی تھے تو کچھ تقسیم کرو اور فائدہ اٹھائو کے اصول کے مطابق پاکستان میں مستقل فیض یاب رہنے والے بھائی لوگوں کے پیدا کردہ بھی تھے۔ آصف زرداری صدارت کے منصب پر پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں ایک بار پھر سیاسی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ افواہ ساز فیکٹریاں حرکت میں آ گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے لیے بے چین ہو گئی۔ پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ سے آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کو بڑا دھچکہ لگا۔ اس کے بعد تقسیم کرنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ اس ساری لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی بحال ہو گئی۔ افتخار چوہدری و دیگر جج بھی بحال ہو کر عدالتوں میں پہنچ گئے۔ سیاست دان اپنی جماعتوں سے جیتی ہوئی بازی ہار گئے۔ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر پوری طاقت سے معاملات میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی۔ افتخار چوہدری کی صورت میں اب عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی مدد گار تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ایک طرف سے عدلیہ کے ہاتھوںزچ ہو رہی تھی تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کیری لوگر بل کے نام پر مشکلات میں گرفتار ہو گئی تھی۔ پہلا وار عدلیہ کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرا کر کیا گیا۔ پاکستانی عدلیہ کی اس نئی جادوگری نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک نیا ہتھیار مہیا کر دیا جس کے ذریعے وہ جب چاہیں جس کی حکومت گھر بھیج سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی نے جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر اپنی حکومت کی مدت تو پوری کر لی مگر سیاسی طور پر اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 2013ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی پہلے ہی سے سب کو معلوم تھے سب جانتے تھے کہ حکومت نواز شریف کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی لڑائی کے دوران ہی اسٹیبلشمنٹ کچھ اور منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ اس منصوبے کے تحت نواز شریف کو حکومت تو دے دی جائے مگر اس کو حکومت کرنے نہ دی جائے۔ اس کے لیے پراجیکٹ عمران کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ پراجیکٹ عمران کو رسمی طور پر تو 1996ء میں چند ریٹائرڈ جرنیلوں نے جنرل حمید گل کی زیر نگرانی کیا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں عمران خان کی طرف رونمائی کرائی گئی تھی۔ 2002ء میں عمران خان کو میانوالی سے ایک نشست دلوا کر اسے میڈیا کے ذریعے مارکیٹ کر دیا گیا تھا۔ اب جب پیپلزپارٹی اپنے غلط فیصلوں سے خود کو سیاسی میدان میں نقصان پہنچا چکی تھی۔ نواز شریف کے سامنے نئے اور اصل حریف کو سامنے لانے کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ نواز شریف کے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی جنرل پاشا نے سیاسی ہانکہ شروع کر دیا تھا۔ بڑے بڑے کاروباری گروپوں سے بھاری رقوم اکٹھی کر کے 2011ء میں لاہور میں پراجیکٹ عمران کی افتتاحی تقریب کے ساتھ ہی اس سارے عمل میں تیزی آ گئی۔ نواز شریف نے مرکز اور پنجاب میں حکومت قائم کر لی سندھ پیپلزپارٹی کے پاس ہی رہا۔ جبکہ عمران خان کو سیاسی جنگ میں پیش قدمی کے لیے خیبر پختونخواہ میں حکومت دے دی گئی۔ نواز شریف کے گرد گھیرا مکمل تھا۔ حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی انتخابات میں دھاندلی کے نام پر عمران کی زیر قیادت طبل جنگ بجا دیا گیا۔ کینیڈا سے طاہر القادری، اسٹیبلشمنٹ کے قدیمی و قابل بھروسہ چوہدری برادران عمران کے حلیف بنا دیئے گئے۔ اس ساری صورتحال میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ پر ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔ مسلم لیگ ن میں اگرچہ اس حوالے سے تحفظات تھے۔ مگر نواز شریف نے جنگ کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔