طارق قریشی
پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہ تو ڈھکا چھپا رہا ہے نہ ہی یہ کوئی سٹیٹ سیکرٹ کہ جس کو بیان کرنے پر کوئی پابندی ہے۔ ستر سال میں سے نصف سے زائد عرصے پہ تو خود اسٹیبلشمنٹ کی بذریعہ مارشل لاء حکومت میں رہی باقی نصف عرصے میں اگرچہ حکومتوں کا قیام انتخابات کے ذریعے ہی ہوتا رہا مگر ایک بندوبست کے تحت یہ انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی جیتنے والی سیاسی جماعت اور حکمرانی کی مسند سنبھالنے والے شہسوار کا وقت سے پہلے علم ہو جاتا رہا۔ 1995ء کے غیر جماعتی انتخابات اور 2002ء کے جنرل مشرف کے زیر انتظام ہونے والے انتخابات میں بھی یہ تو علم تھا کہ جیتنے والی جماعت یا افراد کا تعلق جرنیلی گروپ سے ہی ہو گا مگر اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا اس بارے میں کوئی طے نہ تھا۔ قیاس آرائیاں تو بہت تھیں مگر اصل امیدوار کون ہے یہ علم نہ تھا۔ 1985ء کے انتخابات سے قبل سندھ میں MRD کی تحریک نے طاقتور حلقوں کو یہ تو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وزیر اعظم سندھ سے ہی لانا پڑے گا مگر کون اس بارے جنرل ضیا نے بھی کوئی واضح فیصلہ نہ کیا تھا۔ الٰہی بخش سومرو اور محمد خان جونیجو میں فیصلہ پیر پگارا کے وزن نے کیا۔ پیر پگارا کو جنرل ضیاء کے دور میں بادشاہ گرکی حیثیت حاصل تھی سو جب انہوں نے اپنا وزن اپنے مرید خاص محمد خان جونیجو کے پلڑے میں ڈالا تو جنرل ضیاء کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہو گیا۔
محمد خان جونیجو کی واحد قابلیت پیر پگارا کا ووٹ ان کے حق میں آنا ہی تھا۔ محمد خان جونیجو کا پاکستان کے باقی صوبوں میں تو چھوڑیں سندھ میں بھی کوئی نہ ذاتی اثر رسوخ تھا نہ ہی کوئی سیاسی گروپ‘ تاہم وہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے وزیر اعظم کے عہدے پر پہنچ گئے۔ اسمبلی میں سپیکر کے انتخاب کے موقع پر پنجاب کے اراکین قومی اسمبلی نے اکٹھے ہو کر جنرل ضیاء کو اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا۔ سپیکر کیلئے جنرل ضیاء کا انتخاب خواجہ صفدر ( خواجہ آصف وزیر دفا ع ) کے والد تھے مگر پنجاب کے زمیندار گھرانوں سے آئے نوجوان سیاستدانوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے حکومتی امیدوار کی جگہ سید فخر امام کو اپنا سپیکر کا امیدوار بنا ڈالا۔ فخر امام اگرچہ جنرل ضیاء کی کابینہ میں وزیر بلدیات رہ چکے تھے جنرل ضیاء سے ان کا کوئی ذاتی اختلاف بھی نہ تھا مگر بغض معاویہ میں انہیں جنرل ضیاء کے امیدوار کی مخالفت میں سامنے آنا پڑا۔ فخر امام سپیکر تو بن گئے مگر جنرل ضیاء کو اپنی ہار برداشت نہ ہو سکی۔ کچھ عرصے بعد ہی ان کے خلاف عدم اعتماد لائی گئی اور حامد ناصر چٹھہ سپیکر بن گئے۔ محمد خان جونیجو کو دولہا اسٹیبلشمنٹ نے بنایا تھا اب ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ محمد خان جونیجو اپنے اس منصب کو اپنے خالق ادارے کے ساتھ باہمی تعاون سے چلاتے مگر ان کے ارد گرد لوگوں خاص طور پر دو وزیر اوکاڑہ سے رانا نعیم جبکہ خوشاب سے تعلق رکھنے والے نسیم آہیر نے محمد خان جونیجو کو اسمبلی میں اپنی تقاریر کے ذریعے یہ جتلانے کی کوشش جاری رکھی کہ آپ وزیر اعظم ہیں اور آئین کے مطابق اصل حکمران آپ ہی ہیں۔ پہلا اختلاف جنرل ضیاء سے مارشل لاء کے خاتمے کی تاریخ بنا۔
جب محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء کے علم میں لائے بغیر اسمبلی میں مارشل لاء کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان کر دیا اس کے بعد سالانہ بجٹ میں وزیر خزانہ یٰسین وٹو کی جانب سے کفایت شعاری کی مہم کے حوالے سے خاص طور پر یہ اعلان کرنا کہ ہم جرنیلوں کو سوزوکی کاروں پر بٹھائیں گے‘نے اسٹیبلشمنٹ اور محمد خان جونیجو کے درمیان فاصلوں میں اضافہ کر دیا۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے دبائو میں جنیوا معاہدے نے اس خلیج کو اتنا بڑھا دیا کہ جنرل ضیاء نے محمد خان جونیجو کی جگہ نئے وزیر اعظم کے بارے سوچنا شروع کر دیا۔ اوجھڑی کیمپ کے سانحے اور اس کے نتیجے میں فوج کے اعلیٰ افسروں کے خلاف کارروائی پر وزیر اعظم کے اصرار نے محمد خان جونیجو کے بارے آخری فیصلہ کرنے پر جنرل ضیاء کیلئے کوئی راستہ نہ چھوڑا کہ وہ جونیجو سے جان چھڑا لیں۔ اس طرح ایک ایسے حکمران نے جو پاکستان کی گذشتہ 60 سالہ تاریخ میں مثالی ایماندار‘ بہترین منتظم ہونے کے ساتھ سیاسی وضعداری کا انمول نمونہ تھا‘ کو اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑا جبکہ آگے چل کر سیاست میں بھی گمنامی اختیار کرنا پڑی۔ جونیجو کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑوانے والے تین مرکزی کردار رانا نعیم‘ نسیم آہیر اور یٰسین وٹو بھی اپنے اس جرم میں اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
1988ء کے بعد یہ تینوں سیاست کے گم گشتہ کردار بن گئے۔جنرل ضیاء کی وفات کے بعد 1988ء میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جماعتی انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی امیدوار ہی نہ تھا جو انتخابی مہم کی سربراہی کرتا یا اپنے آپ کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرتا۔ عرق ریزی کے ساتھ منصوبہ بنایا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی جیت کو تو روکا نہیں جا سکتا مگر اسمبلی میں ان کی عددی اکثریت کو جتنا مختصر کیا جا سکے‘ کیا جائے۔ آئی جے آئی کے نام پر اتحاد بنا کر جماعت اسلامی کی تنظیمی قوت کی مدد سے کافی حد تک منصوبہ کامیاب رہا۔ اسی بنیاد پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم تو بنا دیا گیا مگر انہیں ایک مجبور و لاچار حکومت کی سربراہی دی گئی۔ کابینہ میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے طاقتور نمائندے داخل کرائے افسر شاہی کے ذریعے حکومتی امور میں ہر قسم کی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ سب سے بڑھ کر راجیو گاندھی کے دورے کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم کیا گیا۔ ملک میں نہ آزاد میڈیا تھا نہ ہی پرنٹ میڈیا مکمل طور پر آزاد خبریں دے سکتا تھا۔ وہی پرانا گھسا پٹا الزام ہندوستان کا ایجنٹ ہونے کا۔ اس زمانے میں حسین حقانی جماعت اسلامی کے کوٹے پر آئی جے آئی کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ سو افواہ سازی کے ساتھ ساتھ ذاتی مخالفت کی مہم ان کے ذمے تھی۔ انہوں نے حکم کی تعمیل میں اپنے تمام تجربات کے ساتھ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف عوام میں ذہن سازی کا عمل مکمل کیا۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ کو اپنا نیا شہسوار بھی مل گیا۔ وہ تھا اس وقت کا پنجاب کا وزیر اعلیٰ نواز شریف۔ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے میں نہ ان کے سیاسی تجربہ کا کوئی عمل دخل تھا نہ ہی صوبہ پنجاب میں ان کی کوئی ذاتی سیاسی گروپ بندی کا عمل دخل‘ بس اسٹیبلشمنٹ کے چند کرداروں کو ان کی خدمات‘ تابعداری اور مہمان نوازی پسند تھی۔ سو فیصلہ ان کے حق میں ہو گیا۔ پانچ سال بطور وزیر اعلیٰ ان کی تابعداری کے ساتھ ساتھ ان کا سیاسی طور پر طاقتور نہ ہونا ہی ان کے حق میں گیا۔ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے سیاست کے بڑے بڑے ناموں کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ صرف 20 ماہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے نے عوام تک یہ پیغام تو پہنچا دیا تھا کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی نہیں ہو سکتی کہ آصف زرداری کے ساتھ پیپلز پارٹی کے چند بڑے نام جیل جا چکے تھے۔ پیغام واضح تھا پیپلز پارٹی مائنس ہو گئی ہے۔ انتخابات کے نتائج بھی ویسے ہی آئے جیسے مطلوب تھے اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔حتیٰ کہ چاروں صوبوں میں ان کی مرضی سے حکومتیں بن گئیں۔