طارق قریشی
ملک عزیز گذشتہ چند سالوں سے سیاسی تنائو میں بے حد اضافہ ہوگیا اس تنائو میں بڑھاوا دینے اور عام آدمی تک سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک تبدیل کرنے میں ہماری نام نہاد سیاسی اشرافیہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان سیاستدانوں نے جو چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں عوام کو خودساختہ کہانیاں سناکراس قدر مشتعل کردیا ہے کہ اب سیاست میں نہ شائستگی رہ گئی ہے نہ کوئی وقار جب کہ درون پاکستانی مراعات یافتہ طبقے جس میں سیاست دان ،افسرشاہی ،بزنس ٹائیکو نز،صحافی جج یا جرنیل سب قریبی تعلقات کے بندھنوں میں بندھے ہیں۔ایک زمانے میں گجرات کے چوہدری خا ندان کے حوالے سے یہ بات مشہورتھی کہ ان کے مرد سیاست اور کاروبار کرتے ہیں جبکہ ان کے داماد افسر شاہی سے تعلق رکھتے ہیں اس طرح ایک ہی خاندان کے افرادسیاست ،کاروبار اورافسرشاہی میںنمایاںنظر آتے ہیں آگے چل کر تو پاکستان میں یہ ایک باقاعدہ فارمولہ بنادیاگیا اسی فارمولے کے تحت اب مراعات یافتہ طبقہ آپس میں قریبی رشتہ داروںکے بندھن میں بندھے ہیں جبکہ عوام کو بے وقوف بنانے کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دئیے جارہے ہوتے ہیں اس وقت ٹولے کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ اسی طرح بڑے بڑے کاروباری گروپوں کی نمایاں نظر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت ایک دوسرے سے رشتہ دار ی میں بندھے ہیں ،سندھ ،بلوچستان ،خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب وسطی ہویاجنوبی رشتہ داری کی بنیاد صرف سیاست ہے نہ زبان ایک نہ ثقافت ایک صر ف مفادات مشترکہ ظلم تو یہ ہے کہ پوری قوم کو فرقوں میں تقسیم کرنے والے یہ نام نہادلیڈرآپس میں رشتہ دار کرتے ہوئے نہ فرقہ دیکھتے ہیں نہ ذات پات یہاں تک کہ ان سیاست دانوں نے غیرمسلم اقلیت قراردینے والے قادیانیوں میں بھی رشتے داریاں قائم کی ہوئی ہیں ۔مشترکہ مفادات کے اس کھیل کو قائم رکھنے کیلئے یہ اشرافیہ عوام میں روز ایک نیا نعرہ لگاتے ہیں کبھی چینی چورتو کبھی آٹا چور ناسمجھ او بے خبرعوام یہ نہیں جانتی کہ یہ سارے سیاستدان خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا کسی بھی گروہ سے ہو خیبرپختونخواہ سے لے کر گوادرتک انہی سیاستدانوں کی شوگر ملیں ہیں جبکہ انہی سیاست دانوں کی آٹے کی ملیں ہیں حکومت کسی کی بھی ہوان کی ملیں زیادہ سے زیادہ منافع کماتی رہیں گی راتوں رات اربوں روپیہ منافع بنتارہے گا جبکہ بھوکی اور پریشان عوام آٹا چور اور چینی کے نعرے ہی لگاتے رہیں گے ۔اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر یہ سب خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ عوام کو کیسا بے وقوف بنایا آج کل الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شو کے نام پر رات سات بجے سے گیارہ بجے تک سرکس لگایاجاتا ہے ۔ریٹنگ کے لئے گلی محلوں کو لڑائی میں تبدیل کردیاہے۔ ایک سینئر صحافی جو ایک طویل عرصے سے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کررہے ہیں انہوں نے مجھے خودبتایاکہ یہ پروگرام بنیادی طور پر ڈراموں کی جگہ کیئے جاتے ہیں ایک زمانے میں جب صرف پی ٹی و ی ہوتا تھا یاپھر صرف ایک پرائیویٹ چینل نے کام شروع کیا تھا تو یہ وقت ڈراموں او رفلموں کیلئے مختص ہوتاتھا جب پرائیویٹ چینلز نے کام شروع کیاتھا تو یہ وقت ڈراموںاورفلموں کیلئے مختص ہوتاتھا عرصے سے ٹی وی دیکھنے والی دونسلیں ان اوقات میںڈرامہ دیکھنے کی عادی تھیں وہ کیسے ڈرامے چھوڑ کرسیاست جیسے خشک موضوعات پر بحث کے پروگرام دیکھیں گے بس پھر باقاعدہ منصوبہ بندی سے ان ٹاک شوزکو گلی محلے کی لڑائیوں کی مانند گالیوں طعنوں میں بدل دیا گیا ذاتی حملے وہاںبھی ہوتے تھے مگر یکطرفہ کیونکہ جلسے اورعوامی اجتماعات تو ایک ہی جماعت کے ہوتے تھے سیاست دان مخالف پر زبانی حملے تو ضرور کرتے تھے مگر جواب فوراً نہیںملتا تھا اب ٹاک شوز کی بدولت ذاتی حملوں کے ساتھ گالم گلوچ سے بھرپورلڑائی کے منظر بھی ٹی وی سکرین پر نظر آنے لگے تو مصنوعی کرداروںکے ڈراموں کی بجائے حقیقی دنیا کے کرداروں کے ڈرامے زیادہ مقبون ہونے لگے ۔اب اس میزبان کی قیمت بازار میں زیادہ ٹھہری جو ٹاک شو کے نام پر لڑائی مارکٹائی کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ سے بھرپورڈرامہ پیش کرسکے ۔ ہماری بھولی بھالی عوام یہ بھی نہیںجانتی کہ ٹاک شوکے نام پر ڈرامہ کرنے والے یہ اکثر کردار شام کو ٹی وی چینل پر آنے سے پہلے اپنے رہائشی ٹھکانوں پارلیمنٹری لاجز میں ایک دوسرے سے مشاورت کرکے آتے ہیں ۔زیادہ ترتو یہ سیاست دان پارلیمنٹر ی لا جز سے ایک ہی گاڑی میں اکھتے ہوکر آتے ہیں شو یعنی ڈرامے بازی کی بعد اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں موجو دہوٹلوں میں اکھٹےکھانا کھاتے ہیں شوزیادہ گرما گرم ہوجاتے تو میزبان ٹی وی اینکر بھی کھانے میں شریک ہوکر اپنی مشترکہ کامیابی کا جشن مناتانظر آتا ہے۔یہ سب جشن منارہے ہوتے ہیں جبکہ ان کی زبان سے نکلنے والی آگ پورے معاشرے تک پھیل چکی ہوتی ہے مفادات کے اس کھیل میں اشرافیہ کا یہ طبقہ کتنا ظالم اور غلیظ ہوسکتاہے ایک تازہ ترین واردات اپنے قارئین کو سنانا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے گا یہ اشرافیہ کتنی ظالم اور غلیط چہرے کی مالک ہے 9مئی کے وقعات کے حوالے سے پوراملک جانتا ہے کہ کیاہوا کس نے کیا اورکیوں کیا یہ اب موضوع بحث نہیں رہا۔لاہو رمیںکورکمانڈرکے گھر پر حملہ کرنے اورمنصوبہ بندی کے حوالے سے جن نمایاں خواتین کامیڈیا میں بڑا ذکرکیاگیا اس میں ڈاکٹریاسمین راشد کے ساتھ ساتھ ایک خاتون خدیجہ شاہ کا بھی بڑا ذکر تھا ۔موصوفہ کا تعارف یہ کرایاجاتا تھا کہ وہ سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی جبکہ جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سلیمان شاہ سابق مشیر خزانہ کی بیٹی ہیں مزید یہ کہ دوہری قومیت رکھتی ہیں ایک مشہورفیشن برانڈ کی مالک ہیں ۔اپنی اس پہچان کے بل پر نہ صرف کورکمانڈرکے گھر پر حملے میں شامل تھیں بلکہ کارکناں کو زیادے سے زیادہ توڑپھوڑ پر اکسانے میں بھی شامل تھیںکیمروں کی مدد سے جب موصو فہ کی شناخت کے بعد پرچہ درج ہوگیاتو یہ اپنے گھر سے غائب ہوگئیں۔ پتہ لگا یا گیا کہ یہ موصو فہ ایک بڑے کاروباری شخص عمرشیخ کے گھر میں چھپی ہوئی ہیں پولیس نے چھاپہ ماراتمام میڈیاپر خبرنشرہوئی کہ عمر شیخ نامی کاروباری شخص کے گھر چھاپہ مار اگیا مگر خدیحہ شاہ فرار ہوگئیں اب ملزم کو پناہ دینے پر نہ عمر شیخ کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی نہ گرفتاری نہ ہی میڈیا نے یہ بتایا کہ عمر شیخ جہانگیر ترین کے داماد کی بیٹی مہرین ترین کے شوہر ہیں ،خدیجہ شاہ کی یہاںموجودگی کی محفوظ بنانے کی ذمہ داری جہانگیر ترین نے اپنے پرانے ساتھی اور وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر عو ن چوہدری کی لگائی تھی عون چوہدری نہ صرف خدیجہ شاہ کی حفاظت پر معمورتھے جبکہ وزیراعظم سے خدیجہ شاہ کی معافی اور انہیں ملک سے فرارکرنے کی درخواست بھی کررہے تھے ۔جہانگیر ترین کی آنے والے د نوںمیںسیاسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم بھی سوچ میں پڑ گئے تھے ۔مگر خدیجہ شاہ جن کی اصل ملزم تھی ان کی جانب سے مثبت رد عمل نہ ملنے پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا عون چوہدری نے بعد میں حکومت کی طرف سے یہ ضمانت ضرور دی کہ خدیجہ شاہ کو پو لیس کسٹڈی میں زیادہ دیر نہیں رکھاجائیگا اور نہ ہی ان پر تشدد ہوگا آج اتوار کے دن اشرافیہ کا ایجنٹ میڈیا صبح سے یہ خبرچلا رہا ہے کہ خدیجہ کی جیل میں طبیعت خراب ہوگئی ہے اس کالم کے شائع ہونے تک خدیجہ شاہ ہسپتال کے وی آئی پی کمرے میںمنتقل ہوچکی ہوگی ،دوسری طرف انہی الزامات کے تحت دوسوسے زائد خواتین جیلوں میں بندہیں ان کے بارے نہ میڈیا کو کوئی فکر ہے نہ ہی وزیراعظم کے مشیر کو نہ ہی خود وزیراعظم کو یہ صرف ایک نمونہ ہے اشرافیہ کے گٹھ جوڑ اور مفادات مشترک ہونے کا اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے کس طرح ایک دوسرے کے مفادات کی چوکیداری کرتے ہیں ظلم تو یہ ہے میڈیا بھی اب غلیظ اشتراک میں شامل ہوتا جارہا ہے۔