آج کی تاریخ

پاکستان، چین اور دفاعی شراکت داری کا نیا دور

صدر آصف علی زرداری کا حالیہ دورۂ چین اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان نہ صرف شدید معاشی بحران کا شکار ہے بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس کی سلامتی کے خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ صدر کا چین کے ایوی ایشن انڈسٹری کارپوریشن (AVIC) کے مرکزی کمپلیکس کا تاریخی دورہ اور وہاں پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی پیداوار اور ایوی ایشن کے شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کا اعلان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسلام آباد اپنی سلامتی اور دفاعی ضروریات کے لیے بیجنگ پر انحصار کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ یہ تعلقات محض ہتھیاروں کی خرید و فروخت تک محدود نہیں بلکہ اب اسٹریٹجک کوآپریشن، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور مشترکہ پیداوار کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ بن چکے ہیں۔
صدر زرداری نے AVIC کے سائنس دانوں اور انجینئروں سے براہِ راست ملاقات کی اور جدید ٹیکنالوجیز، بالخصوص J-10C لڑاکا طیاروں، JF-17 تھنڈر کی مشترکہ پیداوار، J-20 اسٹیلتھ فائٹر، بغیر پائلٹ کے فضائی جہاز (UAVs) اور جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کے حوالے سے بریفنگ لی۔ یہ محض ایک رسمی دورہ نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد پاکستان کو مستقبل کی جنگی ضروریات کے لیے تیار کرنا ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے لیے J-10 اور JF-17 جیسے جہاز پہلے ہی فیصلہ کن کردار ادا کر چکے ہیں، جیسا کہ مئی 2025 کی جھڑپوں میں ان جہازوں کی افادیت دنیا کے سامنے آ گئی۔ صدر زرداری نے بجا طور پر کہا کہ ان طیاروں نے پاکستان کی فضائی قوت کو غیر معمولی تقویت دی ہے۔
یہ دورہ اس لحاظ سے بھی تاریخی تھا کہ اس سے قبل کسی غیر ملکی سربراہِ مملکت نے AVIC کے مرکزی کمپلیکس کا دورہ نہیں کیا۔ چین نے یہ دروازے کھول کر یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف ایک قریبی اتحادی بلکہ اپنی اسٹریٹجک سکیورٹی اور ٹیکنالوجیکل تعاون کے مستقبل کا حصہ سمجھتا ہے۔ صدر زرداری کے ہمراہ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی موجودگی نے اس دورے کو ایک سیاسی اور علامتی جہت بھی دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکمران جماعت اس تعلق کو اپنی سیاسی وراثت اور قومی سلامتی کی ضمانت دونوں سمجھتی ہے۔
لیکن یہاں کچھ بنیادی سوالات اٹھتے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت قرضوں، مالیاتی خساروں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ایسے میں دفاعی اخراجات میں اضافہ اور جدید اسلحے کی خریداری یا مشترکہ پیداوار کس حد تک پائیدار ہے؟ پاکستان کے پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ دفاعی ضرورتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک معیشت مستحکم نہیں ہوگی، دفاعی طاقت دیرپا بنیادوں پر قائم نہیں رہ سکتی۔ چین کے ساتھ دفاعی تعاون ایک مضبوط ستون ہے، لیکن کیا یہ تعاون پاکستان کے معاشی استحکام میں بھی اسی سطح پر مددگار ثابت ہوگا؟
چین کے ساتھ پاکستان کی اسٹریٹجک شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔ سی پیک (چین-پاکستان اقتصادی راہداری) کے آغاز سے ہی دونوں ممالک نے ’’ہمہ موسمی دوست‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں سی پیک کی رفتار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ بیجنگ اب اس بات پر زیادہ زور دے رہا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں چینی انجینئروں اور منصوبوں کے لیے سکیورٹی کی ضمانت فراہم کرے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑھتے ہوئے حملوں نے چین کو محتاط بنا دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف دفاعی میدان میں بلکہ معاشی اور داخلی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک قابلِ اعتماد شراکت دار ہے۔
پاکستان کی سیاست میں بھی چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اکثر اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، جبکہ چین نے مسلسل پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن عالمی سیاست کی حقیقت یہ ہے کہ اب چین بھی اپنی سرمایہ کاری اور تعاون کو محض دوستی کے جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے اقتصادی اور سلامتی مفادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے۔ پانڈا بانڈز کا اجرا، پانچ سالہ ایکشن پلان، اور دفاعی پیداوار میں تعاون یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ بیجنگ اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو نئے سانچے میں ڈھال رہا ہے۔
صدر زرداری کے اس دورے کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی اور دفاعی حکمت عملی کو چین کے ساتھ مزید ہم آہنگ کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ دفاعی طاقت کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام اور عوامی فلاح بھی ضروری ہے۔ اگر دفاعی تعاون کے ثمرات عوامی زندگی میں بہتری کی صورت میں منتقل نہ ہوئے تو یہ تعلقات محض ریاستی سطح پر رہ جائیں گے اور عوامی سطح پر ان کی پذیرائی محدود ہو جائے گی۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ دفاعی شراکت داری کو معاشی اور سماجی ترقی کے ساتھ کیسے جوڑتے ہیں۔ اگر JF-17 جیسے منصوبے پاکستان میں مقامی صنعت کو مضبوط کرتے ہیں، ہنرمند افرادی قوت کو تربیت دیتے ہیں، اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ذریعے ملکی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں تو یہ شراکت داری دیرپا اور مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ لیکن اگر یہ منصوبے صرف ہتھیاروں کی خریداری تک محدود رہے تو یہ پاکستان کو مزید قرضوں اور انحصار کے جال میں پھنسا دیں گے۔
چین کے ساتھ دفاعی تعاون بلاشبہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے، لیکن یہ بنیاد اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان اپنی داخلی پالیسیوں، حکمرانی کے نظام اور معاشی ڈھانچے کو درست نہ کرے۔ بیجنگ نے بارہا یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد اپنی ’’استطاعت‘‘ کے مطابق کرے گا۔ یہ سفارتی زبان دراصل ایک پیغام ہے کہ اب پاکستان کو اپنی ذمہ داریاں خود پوری کرنی ہوں گی۔
اس لیے صدر زرداری کے دورے کا اصل سبق یہی ہے کہ پاکستان کو اپنی ترجیحات متوازن کرنی ہوں گی۔ دفاعی طاقت اور سلامتی ضروری ہیں، لیکن یہ معیشت کی مضبوطی اور عوامی اعتماد کے بغیر پائیدار نہیں ہو سکتیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کو محض اسلحہ اور جہازوں تک محدود کرنے کے بجائے انہیں تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، اور معاشی ترقی کے شعبوں تک پھیلانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو نہ صرف دفاعی طور پر مضبوط کرے گا بلکہ ایک خوشحال اور پائیدار ریاست میں بھی تبدیل کرے گا۔
صدر زرداری کا یہ دورہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ضرور ہے، لیکن اس باب کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری صرف بیجنگ پر نہیں بلکہ اسلام آباد پر بھی ہے۔ پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو اپنے دوستوں کی سرمایہ کاری اور اعتماد کا حق ادا کر سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، دفاعی شراکت داری کی چمک وقتی ہوگی اور اس کے اثرات دیرپا نہیں ہوں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں