پانی بطور ہتھیار اور جنوبی ایشیا کا مستقبل

یہ ایک خطرناک اور غیر معمولی انکشاف ہے کہ بھارت نے کم از کم ایک بار دریاؤں کے بہاؤ کو بطور دباؤ کے ہتھیار استعمال کیا — ایک ایسا عمل جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ کروڑوں انسانوں کی بقا کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی تازہ ماحولیاتی خطرات سے متعلق رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ بھارت نے دریائے سندھ کے پانیوں کے معاہدے کو منسوخ کرنے کے بعد پانی کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا۔یہ معاہدہ، جو 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، برصغیر میں پانی کی تقسیم کا ایک تاریخی ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے جبکہ بیاس، راوی اور ستلج بھارت کو دیے گئے۔ چھ دہائیوں تک یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود ایک پائیدار پل کے طور پر قائم رہا۔ لیکن اب بھارت کی یکطرفہ کارروائیوں نے اس معاہدے کو متنازع بنا دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارت، اگرچہ مکمل طور پر پانی کے بہاؤ کو روکنے یا ان دریاؤں کو مستقل طور پر موڑنے کے قابل نہیں، مگر اس کے پاس ان دریاؤں پر بنائے گئے متعدد رن آف دی ریور ڈیمز کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو وقتی طور پر کم یا زیادہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان ڈیموں کی “فلشنگ” یا “ریزروائر آپریشن” اگر کسی سیاسی یا عسکری مقصد کے لیے کی جائے تو اس کے اثرات پاکستان کی زراعت اور خوراکی سلامتی پر تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔گزشتہ موسم گرما میں بھارت نے چناب پر بیک وقت پانی روکنے اور پھر اچانک چھوڑنے کا عمل کیا، جس سے پہلے دریا کئی دن خشک رہا اور پھر اچانک پانی کا ریلا آنے سے پنجاب کے کئی علاقوں میں نقصان ہوا۔ یہ اقدام نہ صرف تکنیکی بددیانتی تھا بلکہ اخلاقی سطح پر بھی ایک سنگین عمل۔ پانی کسی ملک کی زمین کی طرح محدود اثاثہ نہیں بلکہ انسانیت کی مشترکہ ضرورت ہے۔ اسے ہتھیار بنانا خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔دریائے سندھ کا معاہدہ ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں استحکام کا ذریعہ سمجھا گیا۔ اس معاہدے نے جنگوں اور سفارتی بحرانوں کے باوجود پانی کے مسئلے پر رابطہ قائم رکھنے کی راہ کھلی رکھی۔ لیکن بھارت کا یکطرفہ فیصلہ نہ صرف اس رابطے کو ختم کرتا ہے بلکہ یہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی طاقتور بالا دستی رکھنے والا ملک اب دریا جیسے قدرتی وسائل کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔پاکستان کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہماری زراعت، صنعت اور خوراکی تحفظ کا بیشتر انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ پاکستان کے کسانوں کے لیے یہ دریا زندگی کی رگیں ہیں۔ اگر ان کے بہاؤ میں معمولی بھی تبدیلی ہو تو فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے درمیان پانی کی تقسیم پہلے ہی تنازعات کا شکار ہے، ایسے میں بھارت کی طرف سے کسی بھی دانستہ کمی بیشی سے اندرونی بحران شدید تر ہو سکتا ہے۔پاکستان نے بارہا خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے ہمارے حصے کا پانی روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تو اسے ’’جنگی اقدام‘‘ سمجھا جائے گا۔ اس موقف کی بنیاد جذبات نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ پانی کسی قوم کے لیے زندگی کی ضمانت ہوتا ہے، اور جب زندگی کو ہی خطرہ ہو تو دفاعی ردعمل ناگزیر بن جاتا ہے۔بھارت کی حالیہ پالیسی دراصل ایک وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں وہ ماحولیاتی جغرافیہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو مقبوضہ کشمیر میں دیکھا گیا، جہاں قدرتی وسائل کو مقامی آبادی کے خلاف دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی تسلسل میں دریاؤں کے بہاؤ کو قابو میں رکھ کر پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس خطرے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں، مون سون غیر متوازن ہو رہا ہے، اور بارشوں کے نظام میں تبدیلی سے دریاؤں کے بہاؤ میں غیر یقینی پیدا ہو گئی ہے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی ملک سیاسی بنیادوں پر پانی کو روکنے یا چھوڑنے کا کھیل کھیلتا ہے تو یہ پورے خطے کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی صرف سرحد پار بہنے والا دریا نہیں بلکہ مشترکہ بقاء کا استعارہ ہے۔ ان دریاؤں نے وادی سندھ کی تہذیب کو جنم دیا، گندھارا، موئن جو دڑو اور ہڑپہ جیسے شہروں کو آبادی بخشی۔ یہی دریا آج بھی پاکستان کی زندگی کی بنیاد ہیں۔ اگر ان کی روانی کو روکا گیا تو یہ صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کی موت ہوگی۔عالمی برادری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ بھارت کی طرف سے معاہدہ ختم کرنا بین الاقوامی قانون کی روح کے منافی ہے۔ بین الاقوامی آبی معاہدات کا قانون (انٹرنیشنل واٹر کوورس کنونشن) واضح کرتا ہے کہ ایک ملک مشترکہ دریا پر دوسرے ملک کے حقِ استعمال کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ بھارت کا یہ قدم اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے بھی خلاف ہے جن کے تحت قدرتی وسائل کو امن و ترقی کے لیے مشترکہ طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کی اس ماحولیاتی جارحیت پر عالمی طاقتوں کی خاموشی جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو بڑھا رہی ہے۔ جس طرح دنیا نے مشرقِ وسطیٰ میں تیل کو سیاست کا آلہ بنتے دیکھا، اسی طرح جنوبی ایشیا میں پانی ایک نیا جغرافیائی ہتھیار بننے جا رہا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ تیل کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے، پانی کے بغیر نہیں۔پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں اس مسئلے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک، اور جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم کے فورمز پر بھارت کے اس اقدام کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے اندرونی نظامِ آبپاشی کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ بھارت کی کسی ممکنہ چال سے ہم مکمل انحصار کے شکار نہ رہیں۔ نئے ذخائر، جدید آبپاشی نظام اور بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کی پالیسی وقت کی ضرورت ہے۔بھارت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ پانی کے بہاؤ پر سیاست دراصل آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ دریائے سندھ کے بہاؤ کو روکنا یا اس میں مداخلت کرنا ایک وقتی سیاسی فائدہ تو دے سکتا ہے مگر طویل مدت میں یہ خطے کے امن، زراعت اور ماحولیاتی توازن کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔دریائے سندھ کا معاہدہ کبھی امن کی علامت تھا۔ اب اگر یہ تصادم کی علامت بن جائے تو یہ صرف دو ملکوں کی شکست نہیں ہوگی بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک المیہ ہوگا۔ پانی کو ہتھیار نہیں، پل بننا چاہیے۔ دریا قوموں کو جدا نہیں بلکہ جوڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کی روانی کو روکنے کا مطلب ہے زندگی کی روانی کو روک دینا — اور جب زندگی رُک جائے تو کوئی سرحد محفوظ نہیں رہتی۔یہی وقت ہے کہ بھارت، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک اپنی انا اور دشمنی سے اوپر اٹھ کر اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ پانی کسی کی ملکیت نہیں، یہ قدرت کا عطیہ ہے۔ اگر اسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ دریا اگر بول سکتے تو شاید یہی کہتے کہ انسان نے اپنے دشمن خود تراش لیے — اور سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو پانی کو زہر میں بدل دے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں