آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

پابندیاں اور ردعمل

تحریر:ڈاکٹر ظفرچوہدری (روداد زندگی)

گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان میں مجھے بوائز ہاسٹل کا پریفکٹ بنا دیا گیا تب پروفیسر شجاع صاحب وارڈن تھے۔ میس کے معاملات بارے میں وارڈن صاحب کو روزانہ بتانا پڑتا تھا۔ ان دنوں جو اخبارات ہاسٹل میں آتے ہیں وہ کامن روم میں پڑھنے کیلئے رکھے ہوتے ہیں اخبار کے فلمی صفحات پر اکثر طلباء میں توں تکرار ہو جاتی ہے اور کئی طلباء فلمی صفحات کو اپنے کمروں میں لے جاتے تھے۔ یہ 1973ء کا زمانہ فلمی صنعت کے عروج کا دور تھا اور طلباء جھوٹی سچی فلمی اداکاروں اور اداکارائوں کے سیکنڈل بہت دلچسپی سے پڑھتے تھے کہ اس دور کے نوجوان طلبہ کی سپورٹس سے ہٹ کر یہی واحد تفریح ہوا کرتی تھی، میں نے پروفیسر شجاع صاحب سے گذارش کی کہ فلمی ہفت روزہ رسالے لگوا دیں۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ طلباء کو اپنی تعلیم پر توجہ دینا چاہیے۔ میں نے عرض کیا سر! طلباء صرف کھانے کے بعد آدھا گھنٹہ پڑھتے ہیں اکثریت فلمیں بھی دیکھتی ہے اگر چند رسالے بھی اخبار کے ساتھ آ جائیں گے تو میرےخیال میں فلمی صفحات کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ وارڈن صاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے مجھے اجازت دے دی اور ساتھ یہ بھی کہ دیا کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو تم ذمہ دار ہوگے۔ میں نے اس دور کے فلمی رسالے تصور، مصور، اور ممتاز ہاسٹل کے طلباء کو لگوا دیئے۔ حیران کن طور پر صرف دو تین ہفتہ بعد ہی اکثر طلباء اخبار کے خبروں والے صفحات کی تلاش کرتے پائے گئے۔ میرے بچپن اور لڑکپن کے دور میں درمیانے درجہ کی خواتین پردہ کرتی تھیں میری والدہ بھی پردہ کرتی تھیں مگر دیہات میں خواتین پردہ نہیں کرتی تھیں برقعہ بھی دو قسم کا ہوتا ایک ٹوپی والا کاٹن اور دوسرا فینسی برقہ ہوتا تھا جو چہرہ اور سر کیلئے علیحدہ بنا ہوتا تھا اور چہرے کو بوقت ضرورت ہٹایا بھی جا سکتا تھا جو کہ عام طور پر ریشمی کپڑے سے بنا ہوا ہوتا تھا۔ گائوں میں راجپوت فیملی اور میواتی خاندان کی عورتیں منہ اور سر چھپا کر رکھتی تھیں۔ اب تو دیہات میں بھی بہت کم خواتین برقعے کا استعمال کرتی ہیں۔ آج کل پردہ دار خواتین کے حوالے سے بشریٰ بی بی زوجہ عمران خان نیازی کا ہی چرچہ باقی رہ گیا ہے کہ انہوں نے وقت کے پہیے کو الٹا گھما دیا ہے۔ کیونکہ سنا ہے وہ اپنی شادی کے شروع میں ایک ماڈرن خاتون تھیں اور پھر مذہبی رجحان کی وجہ سے پردہ دار ہو گئیں۔ پردہ کے حوالے سے 1982ء کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ میرے ایک دوست اور بھائی نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا کہ میری بڑی بہن کا کوئی مسئلہ ہے اور اس کا آپریشن کروانا ہے تم کیا مدد کر سکتے ہو؟ میں اس وقت نشتر میں ہاوس جاب کرتا تھا میں نے کہا آپ باجی کو نشتر ہسپتال بھیج دیں میں پروفیسر صاحب سے مشورہ کے بعد آپ کو بتا دوں گا۔ بہن اپنے شوہر اور والدہ کے ساتھ نشتر ہسپتال آ گئیں تو میں نے پروفیسر ڈاکٹر اکمل سہو سے گذارش کی کہ میری بہن کا مسئلہ ہے تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں بہن کا غالبا پتے کی پتھریوں کا مسئلہ تھا۔ ڈاکٹر سہو صاحب نے انہیں داخل کر دیا اور آپریشن بھی ہو گیا تو میرا دوست اپنی بہن سے ملنے آیا۔ ان کی والدہ بہت شفیق اور مہربان خاتون تھیں مجھے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے طویل زندگی پائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ( آمین )۔
خیر دوست کے جانے کے بعد میں وارڈ میں ہی ہوتا تھا۔ مجھے اماں جی نے بلایا اور کہا بیٹا! تم نے اپنے بھائی کو دیکھا تھا ؟میں نے کہا جی اماں اور اپنی بھابھی کو بھی دیکھا تھا؟ میں نے کہا جی اماں تو انہوں نے کہا کہ جب تمہارا بھائی آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھتا تھا تو بس میں ایک سفر کے دوران اپنے بیٹے سے کہا کہ مجھے پیاس لگی مجھے پانی لا دو تو اس نے جواب دیا اماں آپ کا پردہ خراب ہو جائے گا اس طرح تقریباً دو گھنٹے بعد مجھے پانی ملا۔ اب تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی بیوی یعنی میری بہو نے دوپٹہ بھی سر پر نہیں اوڑھا ہوا اور گلے میں لٹکایا ہوا ہے۔ میں اماں جی کے سامنے تو جی جی کرتا رہا مگر بعد میں محسوس ہوا کہ وہ دوست جس ماحول میں رہتا تھا یاد رہے یہ مذہبی گھرانہ تھا اس کے مطابق ہی اس کا رویہ ہونا تھا۔ اب وہ ایک بڑا سرکاری آفیسر بن چکا ہے۔ اسی طرح سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہی ہیں۔ طبقاتی معاشرے میں مختلف طبقات کی سماجی اور معاشرتی روایات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اوہ میں پھر بھٹک گیا ہوں،،، مجھے یاد آیا فلمی جرائد کے حوالے سے پروفیسر شجاع صاحب کو میں نے جوش ملیح آبادی کی کتاب ’’یادوں کی بارات‘‘ کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے بالا خانوں اور ریڈ لائٹ ایریا پر ایوب حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا تھا کہ مخصوص علاقوں کا گند آپ کے محلوں اور گھروں تک پہنچ جائے گا جس سے یہ پابندیاں مثبت کی بجائے منفی نتائج پیدا کریں گی۔ اسی تناظر میں غور طلب اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی شراب پر پابندی اور ضیاء الحق کی “پارسا” حکمرانی نے دیانت داری، انصاف اور معاشرتی برائیوں، رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں کتنی کمی یا اضافہ کیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا

شیئر کریں

:مزید خبریں