آج کی تاریخ

کچے والوں کی پکے والوں کو چنوتی

ٹک ٹاک ایڈمنسٹریشن

ٹک ٹاک ایڈمنسٹریشن

پاکستان میں اداروں کے درمیان ٹکرائو او ر تنائو بہت بار دیکھنے کو ملا ہے لیکن حال ہی میں بہاول نگر میں ہونے والا اند وہناک سانحہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ۔سانحہ بہاولنگر کو ہر شخص اور ہر مکتبہ فکر کے افراد نے اپنی طرح اپنی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے مختلف تجزیے کئے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ میری نظر میں تمام اداروں کا احترام ضروری ہے اور ہر ادارے کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر ہی کام کرنا چاہئے ۔سانحہ بہاولنگر نے ایک بات تو تمام پنجاب پولیس پر واضح کردی کہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور جو خود کو پنجاب پولیس کا مسیحا ثابت کرنے کی دن رات کوششوں میں جتے ہوئے تھے وہ تو ٹھس ہو گئیں اور وہ بہاولنگر کے واقعے کے بعد بری طرح سے ایکسپوز ہوئے جس سے پولیس فورس پر یہ تو عیاں ہو گیا کہ آئی جی پنجاب صرف اور صرف پتلی تماشہ کے وہ کردار تھے جس کی ڈوریں کوئی اور ہلاتا تھا اور وہ صرف شعبدہ باز کا کردار ادا کرتے تھے ۔سانحہ بہاولنگرکے بعد آج تک پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے کسی قسم کا اقدام اٹھانا تو ایک طرف ان کی جانب سے فورس کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے ایک بیان تک نہ دیا گیا جبکہ فورس کو بیلنس کرنے کیلئے چند روز قبل ایک اور شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس یونیفارم پہنا کر ایک پاسنگ آئوٹ پریڈ میں لا کھڑا کیا جس سے موصوف بچا کھچا بھرم بھی خاک میں ملا بیٹھے ،سوشل میڈیاپر جاری ہونے والی تصویر پر جس قسم کی گفتگو دنیا بھر میں کی گئی ہے پنجاب پولیس جو اس سے قبل عوام میں منفی پہچان رکھتی تھی اس واقعے کے بعد پنجاب پولیس میں تعینات سنجیدہ حلقوں کی نظر میں بھی پنجاب پولیس کی وردی ایک حیرت سنجیدہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلخلافہ لاہور میں آج کل اختیارات کی بھرپور جنگ جاری ہے ۔عام انتخابات کے بعد منتخب کرائی گئی حکومت کی سربراہ محترمہ مریم نواز نے اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے چند روز بعد ہی پنجاب بھر میں محکمہ پولیس سمیت دیگر اداروں میں تبادلوں کی ایک فہرست تیار کرائی جس میں پنجاب پولیس کے سربراہ سمیت پنجاب بھر کے اعلیٰ افسران کے نام شامل تھے لیکن طاقتور حلقوں کی جانب سے اس پر عملدرآمد روک دیا گیا جس کے بعد صوبہ پنجاب کی سربراہ نے کبوتروں کے پر کاٹتے ہوئے ایک چٹھی جاری کی جس کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی جانب سے کی جانیوالی ٹرانسفرز اور پوسٹنگ کے اختیارات سلب کر دئے گئے ہیں ۔بات کی جائے سائوتھ پنجاب کی تو ایڈیشنل آئی جی سائوتھ پنجاب ڈاکٹر کامران خان بھی موجودہ حالات میں بغیر اختیارات کے اپنے دفتر تک ہی محدود نظر آ رہے ہیں ۔جنوبی پنجاب سمیت ملتان ریجن میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ہر تھانے میں منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہ ہے ۔ایڈیشنل آئی جی سائوتھ پنجاب آفس کی جانب سے جاری ہونے والے بہت سے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے ۔جس سے یہ عام تاثر پایا جا رہاہے کہ ایڈیشنل آئی جی سائوتھ پنجاب کا عہدہ صرف اور صرف نمائشی اور خانہ پری ہے ۔ اب بات کرتے ہیں ملتان شہر کی تو ایک عرصے بعد ملتان پولیس کو ایک ایسا افسر میسر آیا ہے جو اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہا ہے ۔ملتان میں حال ہی میں پروموٹ ہو کر ایس ایس پی آپریشنز کے عہدے پر تعینات ہونے والے ارسلان زاہد دن رات شہرکی بڑھتی ہوئی کرائم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوشاں ہیں۔ وہ سزا اور جزا کے فارمولے کے تحت اپنا کام احسن طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں چند روز قبل اچانک ایس ایس پی آپریشنز کے دفتر جانا ہوا جہاں پہلے سے ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر اپنے نمائندے کے ہمراہ موجود تھے اس روز راقم کو ایس ایس پی کے دفتر میں رش ہونے کی وجہ سے کچھ وقت گزارنا پڑا جہاں بیٹھ کر میں آج یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ محکمہ پولیس میں ایسے افسران بھی موجود ہیں جو انصاف اور اصول پر نوکری کر رہے ہیں ،گزشتہ دنوں ارسلان زاہد کی جانب سے ڈولفن فورس کے چار ملازمین کے خلاف تھانہ ممتاز آباد میں اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے مطابق ڈولفن اہلکاروں نے شاہ رکن عالم کے علاقے سے ایک نوجوان کو اسلحہ سمیت قابو کیا پھر ممتاز آباد کے علاقے فاطمہ جناح ٹائون میں اسے دو سے تین گھنٹے گھماتے اور اس کی رہائی کے عوض بھاری رقم کا مطالبہ کرتے رہے۔ وارثان کی جانب سے تاوان کی رقم کے مطالبے کی 15 پر کال چلنے پر متعلقہ پولیس حرکت میں آئی اور پکڑے گئے نوجوان کو رہائی نصیب ہوئی جس کی مکمل انکوائری کے بعد ایس ایس پی آپریشز نے نہ صرف اغوا میں ملوث اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرایا بلکہ انہیں گرفتار کرکے پابند و سلاسل بھی کیا۔ امید کی جاتی ہے ارسلان زاہد کی طرح ملتان میں تعینات دیگر اعلیٰ افسران اپنے عہدے سے وفا کرتے ہوئے عوام کو انصاف فراہم کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں