بہاولپور (کرائم سیل) پرووائس چانسلر چولستان ویٹرنری یونیورسٹی ڈاکٹر مظہر ایاز کی جعل سازی بے نقاب، دوران سروس جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ترقی اور تعیناتی کی ’’قوم ‘‘کی خبر سچ ثابت ہوگئی ۔یونیورسٹی کی آڈٹ رپورٹ 2025ء میں سنسی خیز انکشافات سامنے آگئے۔ عوامی و سماجی حلقوں کی طرف سےروزنامہ قوم کو خراج تحسین پیش کیاگیا۔تفصیل کے مطابق چولستان ویٹرنری یونیورسٹی کے حالیہ آڈٹ 2025میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جس میں پیرا نمبر 39 کے مطابق:چولستان یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر ، جو کہ اس وقت وائس چانسلر کی عدم تعیناتی کی وجہ سے عرصہ دو سال سےوائس چانسلر کا عہدہ اور دیگر تمام مراعات غیر قانونی طریقہ سے حاصل کر کےیونیورسٹی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔ موصوف 2018 ء میں چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسز بہاول پو ر میں جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پرپروفیسر تعینات ہوئے تھے۔2019 ء میں بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پروفیسر کے عہدے کے لیے نااہل قرار پائے۔ جس کی وجہ جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ 2018 ء میں بھی جعلی سرٹیفکیٹ ہی کی بنیاد پر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسز بہاول پو ر میں بطور پروفیسر تعینات ہوگئے مگر تاحال کیوں کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ موصوف نے مئی2018 ء میں محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کو تجرباتی سرٹیفکیٹ کی استدعا کی جو کہ محکمہ نے اس بنا پر دینے سے انکار کردیا کہ آپ نے محکمہ سے ایک سال کی چھٹی لی تھی او راس دوران بغیر این او سی بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ملازمت اختیار کرلی تھی لہٰذا محکمہ نے آپ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے آپ کو 2009ءسےملازمت سے برخاست کردیا ہےاور اس ایک سال کے دوران لی گئی غیر قانونی تنخواہ جو کہ بیک وقت دونوں ملازمت کی جگہ سے لیتے رہے ہیں ایک سال کی تنخواہ واپس جمع کروائیں باقی مراحل اس کے بعد طے کیے جائیں گے۔جبکہ موصوف نے خود ہی اپریل 2018ء کی تاریخ کے ساتھ جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ بنا کر چولستان یونیورسٹی میں پروفیسر کی اسامی کے لیے جمع کروادیا اور اسی کی بنیاد پر پروفیسر کی اسامی حاصل بھی کرلی جبکہ 2019 ء میں بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اسی جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پروفیسر کے عہدے کے لیے نااہل قرار پائے۔یاد رہے کہ 2020ء میں موصوف نے لاہورہائی کورٹ ملتان بینچ میں رٹ دائر کی کہ محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ مجھے تجرباتی سرٹیفکیٹ جاری کرے اس استدعا پر محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ نے تجرباتی سرٹیفکیٹ تو جاری کر دیا مگر اس میں یہ بھی لکھ دیا کہ موصوف اس سے پہلے جعلی سرٹیفکیٹ کے ذریعہ ملازمت حاصل کر چکے ہیں اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے”۔یعنی اصل تجرباتی سرٹیفکیٹ تو 2020 ء میں جاری ہوا مگر 2018 ء میں پیش کردہ جعلی سرٹیفکیٹ پر کارروائی نہ ہو سکی۔ محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ نے اس کے بعد بھی بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو خط لکھ کر یہ معلوم کرنےکی کوشش کی کہ موصوف کہ خلاف کیا کارروائی عمل لائی گئی ہے مگر بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے جواب دیا کہ موصوف بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان چھوڑ کر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسز بہاول پو ر میں تعینات ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سجاد خان نے جب پہلی دفعہ ڈاکٹر محمد مظہر ایازکی بطور ڈین تعیناتی کے لیے فائل سیکرٹری محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کو بھیجی گئی تو درخواست اس اعتراض کے ساتھ واپس بھیج دی گئی کہ موصوف پر ابھی جعلی سرٹیفکیٹ پیش کرنے سے بابت کاروائی تعطل کا شکار ہے۔ محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ نے چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسز بہاول پو ر کو بھی خط لکھ کر یہ معلوم کرنےکی کوشش کی کہ موصوف کہ خلاف کیا کارروائی عمل لائی گئی ہے مگر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سجاد خان نے اس کا کوئی جواب نہیں دیابلکہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سجاد خان نے محکمانہ تصدیق کے لیے وہ سرٹیفکیٹ بھیج دیاجو اس کے تعیناتی کے دوسال بعد جاری ہوا تھا۔ اور اس دوران ہی ڈاکٹر محمد مظہر ایازکو ڈین بھی بنا دیا اور اس کے بعد پرو وائس چانسلر بھی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس معاملے سے متعلق کارروائی کے لیے یونیورسٹی کے سینئر فیکلٹی ممبران نے گورنر پنجاب/چانسلر پنجاب یونیورسٹیز، سیکرٹری محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ او رریجنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن بہاول پور کو بھی درخواست گزاررکھی ہے۔







