تحریر: میاں غفار (کارجہاں قسط نمبر 6)
میں ایسے بہت سے سرکاری ملازمین کو جانتا ہوں جو اپنی شادی سے پہلے بہت ایماندار اور محدود ضروریات میں زندگی گزارتے تھے مگر شادی کے بعد بتدریج وہ کرپشن کی طرف مائل ہوتے گئے اور جوں جوں ریٹائرمنٹ کے سال قریب آنے لگے انہوں نے حرام خوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ میرے ایک دوست کا بھائی پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوا اور چند سال کی ایمانداری کے بعد اس نے بھی کرپشن کا دھندہ اس وقت اپنایا جب اس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنے بچے کو مہنگے ترین سکول میں داخل کرایا میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہم ٹاٹ کے سکولوں میں پڑھ کر ناکام زندگی گزار رہے ہیں جو بچوں کے لئے اپنی عاقبت خراب کریں اور غیر ضروری بوجھ اُٹھائیں۔ میں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے کئی طلبہ کو فیل ہوتے دیکھا جہاں سارے کے سا رے فرسٹ ڈویژن بلکہ اعلیٰ ترین نمبروں میں پاس ہو کر داخل ہوتے تھے۔اس دور میں لاہور کےایم اے او کالج اور دیال سنگھ میں تھرڈ ڈویژن میٹرک والے بھی داخلہ لے ہی لیتے تھے ۔ ایف ایس سی کے امتحان میں ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج کے طلبہ بھی میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ یونیورسٹیوں ،آرمی اور دیگر اعلیٰ کلاس کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے لئے داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے ۔ اس نے میری بات سے تو اتفاق کیا مگر کہنے لگا تمہاری بھابھی نہیں مانتی، ضد کئے بیٹھی ہے۔امی بھی یہی کہتی ہیں کہ مت اتنا بوجھ اُٹھائو مگر بیگم کی ضد ہے ۔ اس کی بیگم ایک کاری گر قسم کے سرکاری آفیسر کی بیٹی تھی جس نے بچپن ہی سے کھلی دولت دیکھی اور کھلے خرچے کئے ہوئے تھے۔ چند ہی سال میں میرے اس دوست نے کرپشن اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بہت سا بوجھ اس نے اپنی درمیانی عمر ہی سے اُٹھائے رکھا۔ بس اُسے ریٹائرمنٹ نصیب نہ ہوئی اور وہ اعلیٰ سکول کا طالب علم بیٹا پانچ بار کوشش کے باوجود ایف ایس سی اور پھر ایف اے بھی نہ کر سکا۔ آج کل معمولی سے کاروبار کے ساتھ بعض افسران کی ٹائوٹی کر کے “رزق” کماتا ہے۔
میں نے یہ سوال بہت سے سرکاری افسران سے پوچھا جن کے بیک گرائونڈ سے میں بخوبی واقف تھا مگر کسی نے بھی آج تک تسلی بخش جواب نہیں دیا، اکثر نے ٹال مٹول سے کام کیا اور چند ایک نے سرد آہ بھر کر خاموشی اختیار کر لی۔میرا ان سے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ جب آپ لوگوں نے اپنے بل پر دن رات محنت اور محدود وسائل میں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ترین عہدے حاصل کر لئے ہوتے ہیں تو پھر آپ کو بڑے بڑے خاندانوں کی دولت کے نشے میں دھت صاحبزادیوں سے شادی کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ وہ نہ آپ کے ساتھ ایڈجسٹ ہوتی ہیں اور آپ کے والدین بہن بھائیوں سے ایڈجسٹمنٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ایسے افسران کو بھی جانتا
ہوں جو حرام خوری نہیں کرتے مگر ان کی بیگمات براہ راست مہنگے تحائف اور بھاری پیکٹوں والی عیدی وصول کر لیتی ہیں ۔ میرے ایک جاننے والے سی ایس پی آفیسر تھے ۔ بہت خوش مزاج، بہت ذہین مگر جونہی دفتر کا وقت ختم ہوتا ان کا مزاج بدل جاتا۔ وہ اپنی بیوی کا نام نہیں لیا کرتے تھے بلکہ اسے ایک جانور سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ دفتر سے گھر جاتے ہوئے اکثر کہا کرتےکہ اب مجھے اس (جانور کا نام) کی شکل دیکھنی پڑے گی۔ ایک مرتبہ مجھے ان کی بیگم سے ملنے کا اتفاق ہوا تو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ موصوف جو کچھ کہتے ہیں وہ تو بہت کم ہے بلکہ وہ تو خاصی رعایت کرتے ہیں۔
چند سال قبل ڈی پی او ننکانہ جو کہ سی ایس پی آفیسر تھے نے بھی اپنی ڈاکٹر بیوی کے رویے پر اپنی کنپٹی پر سرکاری پسٹل سے فائر کرکے خودکشی کر لی تھی۔ میں ایک ایسے سرکاری آفیسر کو جانتا ہوں جس کی اہلیہ ان کے گھر آنے پر اپنے پالتو کتے کو اپنے پاس بلا لیتی اور کہتی یہ تم سے زیادہ تابعدار اور وفادار ہے ۔ میں چونکہ مذکورہ آفیسر کو جانتا ہوں اس لئے دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ان جیسا نفیس ،وضعدار اور تہجد گزار آفیسر اپنی زندگی میں دیکھا ہی نہیں۔ ہم کبھی بات کرتے تو وہ کہتے کہ شاید یہی میری آزمائش ہے اور خاموش ہو جاتے۔ دوست بتاتے ہیں کہ سابق ڈپٹی کمشنر گوجوانوالہ کی اپنی سرکاری رہائش گاہ پر چند سال قبل خودکشی بھی ان خانگی زندگی ہی کا باعث تھی۔ ان کے بیمار والدین ان کے ساتھ گوجرانوالہ رہتے تھے جبکہ بیگم اور بچے لاہور میں۔مجھے کبھی بھی کسی نے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ آخر اپنے سے کئی گنا بڑے اور بااثر گھرانوں میں انہوں نے شادیاں کرکے اپنی زندگی اجیرن کیوں کر رکھی ہے۔ مجھے صرف ایک آفیسر نے یہ جواب دیا تھا کہ ہم منتخب ہونے کے بعد اکیڈمیوں میں دوران ٹریننگ ہی گھیر لئے جاتے ہیں ہمیں سمجھ ہی تب آتی ہے جب ہم اپنی زندگی اجیرن کر چکے ہوتے ہیں۔ میں کئی ایسے افسران کو بھی جانتا ہوں جس کے سسرالی رشتے دار سرکاری پیٹرول، سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ملازمین انجوائے کرتے ہیں جبکہ یہ جملہ سہولیات ان کے والدین اور بہن بھائیوں کو کم ہی میسر ہوتی ہے۔ زندگی میں صرف تین اعلیٰ آفیسر ایسے دیکھے جن کے والدین ہر جگہ پروٹوکول کے ساتھ ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔
بچپن میں تھانیداروں کو تو ہم کم جانتے تھے مگر اپنی رہائشی سوسائٹی میں تھانیدارنی کا لفظ بہت سن رکھا تھا جسے کئی سال تک ہم کوئی سرکاری عہدہ ہی سمجھتے رہے مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ کوئی عہدہ نہیں بلکہ خاوند کی وجہ سے غیر اعلانیہ اور غیر سرکاری طور پر محلے میں یہ عہدہ اُسے خود بخو د ہی مل جاتا تھا۔ میں ایک ایسے تھانے دار کو بھی جانتا ہوں جو لاہور اور سیالکوٹ کے کئی تھانوں میں ایس ایچ او رہے اور 50 سال قبل انہوں نے قسطوں پر 10 مرلے کا پلاٹ تو لے لیا مگر اس پر دو کمرے بنانے کے پیسے نہ تھے لہٰذا انہوں نے اس کارنر پلاٹ میں سے 5 مرلے فروخت کرکے ملنے والی رقم سے دو کمرے تعمیر کئے جن میں دس افراد پر مشتمل فیملی رہا کرتی تھی۔کیا ہی طیب
انسان تھے۔ سید فضل حسین شاہ ان کا نام تھا ۔ ایسے ہی طیب لوگوں کی وجہ سے تو میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کالی سیاہ رات میں بھی کوئی نہ کوئی ستارہ بہت روشنی دے رہا ہوتا ہے اور روشن دن میں کہیں بادل اندھیرا کر دیتے ہیں۔ (جاری ہے)