آج کی تاریخ

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

ویکھی جا مولا دے رنگ

تحریر؛میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر 5

میں نے مذکورہ بیوہ کی بیٹی کا معاملہ بہاولپور میں اپنے محترم دوست اور سینئر صحافی نصیر چوہدری کے سپرد کیا اور پھر اس بیوہ کے خط کو اپنے لیٹر پیڈ پر چند سطریں لکھ کر جی ایچ کیو بھجوا دیا۔ میں نے لکھا کہ اس بیوہ عورت نے دو امور کی نشاندہی کی ہے ۔ ایک بہاولپور تعلیمی بورڈ سے متعلق تھا وہ کام تو ہو گیا دوسرا جی ایچ کیو سے متعلق ہے اس لئے آپ کو بجھوا رہا ہوں میری حیرت کی انتہا تھی کہ 3 ماہ بعد مجھے جی ایچ کیو سے خط ملا جس میں مجھے آگاہ کیا گیا تھا کہ مذکورہ فوجی آفیسر نے کوئٹہ جاتے ہوئے 30 ہزار روپیہ خان پور ہی کے شہری کو دے دیئے تھے کیونکہ خاتون ان دنوں بہاولپور گئی ہوئی تھیں۔ مذکورہ شخص نے بیوہ خاتون کو پیسے نہیں دیئے جو کہ پوچھنے پر اس نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ خاتون کو دے رہے ہیں اور وہ خاتون مطمئن ہو گئی ہیں۔ میرے لئے یہ بلکل ہی نیا اور منفرد تجربہ تھا
میں نے سود خوروں کیخلاف جنوبی پنجاب میں گرینڈ مہم چلائی اور سینکڑوں لوگوں کو سود خوروں کے چنگل سے آزاد کرایا یہ 5 سال پہلے کی بات ہے جبکہ بیوہ خاتون والا معاملہ 24سال پرانا ہے ۔ ایک سود خور کی سفارش کیلئے ایک فوجی آفیسر نے فون کرکے مجھ سے تلخی کی اور حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ دوبارہ تحقیق کریں۔ ایک معزز بزنس مین کو آپ سود خور لکھ رہے ہیں۔ مجھے علم تھا کہ مذکورہ شخص پکا سود خور ہے جس پر میں نے صاف جواب دیا کہ وہ سود خور ہے اور اس کے خلاف مہم جاری رہے گی۔ تلخی بڑھی تو جس فون نمبر سے مجھے کال موصول ہوئی تھی میں نے وہ نمبر اور نام لکھ کر جی ایچ کیو کے ایڈریس پر خط لکھ ڈالا۔ قارئین؛ آپ حیران ہوں گے کہ مذکورہ آفیسر کی انکوائری ہوئی اور انہیں مختلف مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جنرل خالد مقبول گورنر پنجاب تھے ۔ رات 12 بجے میں نے گورنر ہاوس فون کیا اور ملتان میں ہونے والے ایک بہت بڑے فراڈ کی نشاندہی کی ۔ مجھے گورنر ہاؤس کے ٹیلی فون آپریٹر نے کہا کہ گورنر صاحب سو رہے ہیں۔ ہم اخبار والے تو رات دیر تک جاگتے ہیں۔ میں نے بلا سوچے سمجھے کہ دیا کہ جب حکمران مزے کی نیند سوئیں گے تو پھر عوام کو لٹنے سے کون بچائے گا۔ اگلی صبح مجھے ساڑھے 9 بجے جب میں سو رہا تھا مجھے ایڈیشنل سیکرٹری ٹو گورنر کا فون آیا انہوں نے پوری معلومات لیں اور پھر اسی رات پولیس اور انتظامیہ کا بھرپور ایکشن ہو گیا اور بہت سے متاثرہ افراد کو جہاں ان کا حق مل گیا وہیں پر یہ فراڈ بھی رک گیا۔
چند سال پہلے تک جب آئی جی آفس کے نوٹس میں کوئی بات لائی جاتی تھی تو باقائدہ ایکشن ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ اب تو معلوم نہیں کہ زبانی اور تحریری شکایات کا کیا بنتا ہے کہ ایکشن کم ہی دکھائی دیتا ہے ۔ سچ ہے کہ کالی سیاہ رات میں بھی تارے چمک رہے ہوتے ہیں اور تیز دھوپ میں بھی کوئی نہ کوئی بادل روشنی کو ماند کر دیتا ہے۔ اس دنیا میں نہ تو پوری سفیدی ہے نہ مکمل سیاہی بلکہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اس گئے گزرے دور میں بھی جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازیخان اور وہاڑی میں پولیس کے جو ضلعی سربراہ تعینات ہیں وہ دن رات سینکڑوں لوگوں کو ریلیف دے رہے ہیں اور ہزاروں دعائیں سمیٹ رہے ہیں ۔یہ دونوں پولیس کا اجلا، شفاف اور روشن چہرہ ہیں ، پاکستان میں آج بھی پولیس میں ایسے افسران موجود ہیں کہ جن کی ایمانداری مسلمہ ہے مگر ہزاروں کی تعداد میں کرپشن اور سنگین جرائم میں ملوث اہلکاروں نے ان کے اجلے چہروں کی روشنی کو ماند کر رکھا ہے ، بہاولنگر کے ڈی پی او بھی اچھی شہرت کے حامل ضلعی سربراہ ہیں مگر کاری گر ایس ایچ او ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ جھوٹی کہانیوں سے افسران کو بھی اپنی لائن پر لگا لیتے ہیں ، پولیس میں احتساب کا نظام اس قدر بوسیدہ اور کمزور ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث اہلکار بھی نہ صرف آسانی سے بری ہو جاتے ہیں بلکہ انہی تھانوں میں تعینات ہو کر مخالفین کو چنوتی دے رہے ہوتے یں جن تھانوں میں ان پر مقدمہ درج ہوا ہوتا ہے، ملتان پولیس میں جہاں درجنوں ہر طرح کے کاری گر ہیں وہیں پر ڈی ایس پی ممتاز آباد ممتاز لاشاری کی ایمانداری اور انصاف پسندی کی لوگ مثالیں دیتے ہیں ۔میں انہیں نہیں جانتا نہ ان سے کبھی ملا ہوں مگر ہر کسی سے ان کی تعریف ہی سنی ، دوسری طرف اوسط درجے کا ایک ایسا پولیس آفیسر بھی ہے جس نے ملتان میں کروڑوں مالیت کی گاڑیاں اور جائیدادیں بنا رکھی ہیں مگر دوران تعلیم وہ اسی شہر میں جہاں میں بیٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں، کے ایک ہوٹل پر معولی ملازمت کرکے تعلیم کے اخراجات پورے کرتا تھا۔بہاولنگر میں جو بھی ہوا، نہیں ہونا چاہیے تھا ۔مگر گذشتہ دو سال میں پولیس کو جو کھلی چھٹی دی گئی اور جس طرح سے پردہ پوشی کی گئی یہ اس کا نتیجہ ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تھانہ مدرسہ کی پولیس نے ظلم کی انتہا کر دی تھی جو بھی تھا عورتوں کی عزت و تکریم کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا اور ردعمل میں یہ سب ہوا۔ پولیس میں ہزاروں ایسے بھی ہیں جو درد دل رکھتے ہیں اور کسی مظلوم کی مدد میں انتہائی اقدام تک بھی چلے جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک متمول فیملی نے ایک بچی پر تشدد کر کے اسے طلاق دیدی اور سامان چھین کر شیر خوار بچے کے ساتھ رات 12 بجے گھر سے نکال دیا۔ ایک نیک سیرت رکشہ ڈرائیور اسے ہمارے دفتر لے آیا۔ میں نے اس دور کے ایک ایس ایچ او کو صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ خود گاڑی لے کر میرے دفتر آ گئے۔ انہوں نے بچی کی ساری بات سنی گاڑی سے گرم چادر لا کر اس پر ڈالی اور باوجود کوشش وہ اس بچی کی بات سن کر آنسو نہ روک سکے حالانکہ پولیس والے سخت دل ہو چکے ہوتے ہیں اور اس سے قبل میں انہیں بھی بے رحم پولیس والوں میں شمار کرتا تھا۔ پھر نہ کوئی مقدمہ درج ہوا۔ سامان بھی ملا۔ معافیاں بھی مانگیں گئیں اور جب تک وہ خاتون مطمئن نہ ہوئی ایس ایچ او نے اس کے سسرال پر زمین تنگ کئے رکھی۔ اس نے میرے دفتر کے سامنے اس شادی شدہ بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر جو عہد کیا تھا وہ پورا کر دکھایا۔ میں آج بھی اس کا بہت احترام کرتا ہوں، وہ ضعیف ہو چکے ہیں مگر کبھی کبھار جب بھی ان سے ملاقات ہو تو ان کا ہاتھ چومتا ہوں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں