تحریر : میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر4
پچھلے کالم میں میں نے لکھا کہ اللہ پاک کے سبق دینے اور مدد کرنے کے اربوں طریقے ہیں۔ لاہور کے علاقے ساندہ کے ایک نوجوان کوجو کہ سرکاری ملازم تھا اور غالباً محکمہ ایکسائز کا ملازم تھا۔ اسے ساہیوال جیل میں ایک نوجوان کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ جس قتل میں اسے پھانسی ہوئی وہ اس نے نہیں کیا تھا اور سب جانتے تھے کہ وہ بے گناہ ہے جب اس کے بلیک وارنٹ جاری ہو گئے اور موت کےقرب نے زندگی بچانے کے تمام راستے بند کر دئیے تو وہ بول پڑا کہ جس مقدمے میں اسے سزائے موت دی جا رہی ہے اس کا قتل ہے اس کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ البتہ اس نے ایک بے گناہ کو لاہور ہی میں قتل کیا تھا اور یہ مجھے اس قتل کی سزا مل رہی ہے۔ مقدمہ اور تمام تر فیصلے اور گواہ جھوٹے ہیں مگر میری موت کی سزا درست ہے۔
میرے پاس پولیس اور جملہ سرکاری محکموں کے مظالم کے اتنے واقعات ہیں کہ سال بھر کی اقساط لکھ سکتا ہوں اور انسائیکلو پیڈیا سے دو گنا بڑی کتابیں وجلدیں بن سکتی ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں اور ظلم ڈھانے والے تو خاص طور پر بھول جاتے ہیں مگر نہ ظلم سہنے والا بھولتا ہے اور نہ ہی اللہ کی اعمال لکھنے والی کتاب لکھنے کے چونکتی ہے۔ بہاولنگر کے پولیس والوں کو اللہ نے کسی اور طریقے سے سزا دی اور جنہوں نے پولیس والوں کو ان کے جرم سے بڑھ کر سزا دی وہ کسی اور طریقے سے بھگت لیں گے مگر بھگتنا سب ہی کو ہے کہ یہی قانون قدرت ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دعا کیا کرتے تھے اللہ توں تو معاف کرنے والا ہے ۔ دنیا ہی میں معاف کر دینا کہ اگلی منزل بہت سخت ہے اور اگر تو بدلہ چاہتا ہے تو بھی دنیا ہی میں لے لینا۔ کہا کرتے تھے اللہ میں بہت کمزور ہوں۔ روز محشر کی سختی برداشت نہ کر سکوں گا اور یہ کہتے ہوئے وہ دہاڑیں مار کر رونے لگ جاتے تھے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے دائرہ اختیار اور طے شدہ حدود میں نہیں۔ بہت سال پہلے تک جب کوئی کمانڈو ریٹائرڈ ہوتا تھا تو اس کے کنڈکٹ کے مطابق اس کی تحریری اطلاع اس کے آبائی علاقے میں آبائی تھانے تک پہنچ جاتی تھی۔ میانوالی کے علاقے نمل جہاں عمران خان نے نمل یونیورسٹی بنا کر اس علاقے سے غنڈہ کلچر کا مکمل صفایا کر دیا ہے۔ وہاں 1983 میں ایک ریٹائرڈ کمانڈو احمد نواز نے بربریت مچا رکھی تھی اور اس کی بربریت کی وجہ سے اسے احمد نواز بربری کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے پاکستان کی کریمنل ہسٹری میں پہلی مرتبہ راکٹ لانچر کا استعمال کرکے اپنے مخالفین کا سارا گھرانہ مار دیا تھا۔ میرے علم میں نہیں کہ ابھی تک ریٹائرڈ کمانڈوز بارے انگریز دور کی طرح اس کے متعلقہ پولیس اسٹیشن کو رپورٹ بھیجی جاتی ہے یا کہ وہ سلسلہ بھی معدوم اور ختم ہو چکا ہے۔ چوہدری مشتاق احمد برگٹ جہلم کی گجر برادری سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے کافی عرصہ بطور ایس پی ملتان میں سروس کی اور قلعہ کہنہ پر خود ہی ڈیزائن کرکے پہلا خدمت مرکز بھی قائم کیا تھا جسے بعد ازان پورے پنجاب میں لاگو کیا گیا۔ وہ بطور ڈی پی او چکوال ریٹائرڈ ہوئے اور چند سال قبل ان کا انتقال ہو گیا۔
انہوں نے کلرکلہار میں ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ ضلع چکوال میں ایک ڈاکو نے پولیس کو بہت تنگ کر رکھا تھا۔ وہ ریٹائرڈ کمانڈو تھا اور اس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتا تھا مگر پولیس کے قابو نہیں آ رہا ۔ ہماری آرمی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ بہت سخت تربیت دیتے ہیں اور ان کا انٹرنل اکاؤٹیبیلٹی کا نظام بھی کمال کا ہے دیگر کسی بھی ادارے حتیٰ کہ نیب کا بھی نہیں جہاں آج بھی آزاد کشمیر کی الخیر یونیورسٹی کے جعلی ڈگری ہولڈر اعللی عہدوں پر تعینات ہیں۔ آرمی میں کمانڈوز پر توجہ اور بھی زیادہ ہوتی ہے اور ایم ترین بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تقریباً جوانی میں ہی ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اس لیے اگر وہ ٹریک سے اتر جائیں تو ان کے پاس مجرمانہ زندگی گزارنے کے لیے بھی کئی سال ہوتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح کا ریٹائرڈ کمانڈو تھا جس نے چکوال پولیس کو چکرا کر رکھا ہوا تھا۔ اس نے ایک واردات کی۔ پولیس نے ناکہ بندی کر لی تو وہیں سے ایک شخص بکریوں کا ریورڈ لے کر آسانی سے گزر گیا۔ اسے لنگڑا کر چلتے ہوئے پولیس کو شک ہوا تو اسے بھاگ کر روکا تو اس نے روٹیوں میں بھی زیور لپٹ رکھے تھے اور بکریوں کے تھنوں پر جو کپڑے باندھ رکھے تھے ان میں بھی مال مسروقہ تھا۔ یہ زیورات اس نے تھوڑی دیر پہلے ہی ڈکیتی میں چھینے تھے اس طرح وہ پولیس کی حاضر دماغی سے پکڑا گیا اور دوران تفتیش اس نے تسلیم کیا کہ وہ ہر واردات کے لئے نیا بھیس اختیار کرتا تھا۔
بطور اخبار نویس میرا پولیس اور افواج پاکستان دونوں سے رابطہ رہتا ہے۔ میں ایسی سینکڑوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ پولیس آفیسر قتل منشیات اور سنگین ترین جرائم میں ملوث ہو کر نوکری سے برخاست ہوا اور چند ہی ماہ میں بحال ہو کر اس نے وہی سے سلسلہ پھر سے شروع کردیا جہاں سے نوکری سے برخاست ہو کر اس نے روکا تھا۔
سرگودھا میں تعینات پی ایس پی آفیسر نے گاڑی میں لگا ٹیپ اونچی آواز میں چلانے پر سرکاری پسٹل سے ایک نوجوان کو قتل کر دیا تھا۔ وہ تو اللہ غریق رحمت کرے ڈاکٹر رضوان کو جو کہ اس وقت ڈی پی او سرگودھا تھے انہوں نے فوری طور پر ایس پی کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ ایس پی قتل جیسے سفاک اقدام کے باوجود بحال ہو چکے ہیں اور پوسٹنگ انجوائے کر رہے ہیں۔ کئی مثالیں دے سکتا ہوں کہ منشیات میں گرفتار پولیس افسران بحال ہو کر دوبارہ سے منشیات فروشی کر اور کرا رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی پولیس کی طرف کوئی ایسا سرکلر جاری ہوا کہ ان کا فلاں بندہ فلاں کام کر رہا ہے اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ عوام کو مطلع کیا جاتا ہے دوسری طرف فوج درجنوں اعتراضات کے باوجود کہ وہ بھی اسی سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ اپنی داخلی سخت ترین نگرانی اوراکاونٹیبلٹی کی وجہ سے آج بھی مضبوط اور مستحکم ہے۔ یہ سسٹم ہی ہے کہ فوج کی طرف سے ریٹائرڈ ہونے والے کمانڈوز بارے متعلقہ تھانے کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جاتا تھا۔ آج کل بھی ایسا ہوتا ہے میرے علم میں نہیں مگر فوج میں ایک روایت اور سسٹم بن جائے تو وہ قائم رہتا ہے۔
1999 میں مجھے خان پور ضلع رحیم یارخان سے ایک بیوہ کا خط موصول ہوا جس میں اس نے دو مسائل کی نشاندہی کی تھی۔ ایک تو بہاولپور بورڈ میں اس کی بیٹی کے رزلٹ کارڈ کا مسئلہ تھا اور دوسرا ایک آرمی آفیسر اس سے 30 ہزار روپے لے کر ٹرانسفر کے بعد کوئٹہ شفٹ ہو گیا تھا جبکہ بیوہ کو ادائیگی نہیں ہوئی تھی۔(جاری ہے)