آج کی تاریخ

ایک سو ایک سالہ سالہ سلائی مشین اور ہجرت

“ویکھی جا مولا دے رنگ”

تحریر: میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر3

سابقہ ضلع شیخوپورہ اور موجودہ ضلع ننکانہ میں جڑانوالہ روڈ پر ایک قصبہ منڈی فیض آباد ہے جس کا پرانا نام دھوکہ منڈی ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے لوگ بہت پُرامن اور کاروباری ہیں اور تعلیم میں بھی کسی سے کم نہیں۔ یہ قصبہ کسی بھی طور پر ضلع شیخوپورہ کے رنگ میں نہیں ڈھل سکا۔ وہاں 30 سال قبل منشیات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا اور نہ ہی کسی بھی قسم کی وادردات ، کبھی کبھار چوری کی شکایت ہوتی تھی۔ پھر فیصلہ ہوا کہ وہاں پولیس چوکی قائم کر دی جائے۔ پر سکون قصبہ تھا پولیس چوکی کے ملازمین بھوکے مرنے لگے پھر وہ شیخوپورہ سے دو منشیات فروش لے کر آئے اور پولیس چوکی کے لیے ’’رزق ‘‘ کا چند ہی ماہ میں اچھا خاصا انتظام ہو گیا اور اب تو وہاں پولیس کے لئے بہت سا سامان موجود رہتا ہے
پرانی بات ہے ملتان میں ڈکیتی کی واردات میں چور تین لاکھ روپے اور 9 تولے سونا لے گئے۔ جہاں واردات ہوئی وہ لوگ میرے جاننے والے تھے۔ پولیس کا سب انسپکٹر جائے وقوعہ پر آیا اور گھر میں موجود دو کالج کی طالبات بیٹیوں کو دیکھ کر ان کی موجودگی میں ’’گوہر افشانی‘‘ کرنے لگا کہ آپ کا کوئی دیا ہوا کام آ گیا ورنہ آج کل ملتان میں ایک گروہ واردات بھی کرتا ہے اور گھر میں موجود خواتین کی عزت بھی لوٹتا ہے۔ آپ کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا کیونکہ مجھے یہ طریقہ واردات اسی گروہ کا لگتا ہے ۔ آپ درخواست دے دیں ہم ریکارڈ پر رکھ لیتے ہیں اور مقدمہ درج نہیں کرتے۔ یہ کانسٹیبل سے توقیر پا کر تھانے دار بننے والے تفتیشی اکثر اوقات عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں کہ عزت دار گھرانے ان سوالات کی تاب نہیں لا سکتے۔ تفتیشی کہنے لگا آئے روز گروہ پکڑ ے جاتے ہیں جو بھی پہلی برآمدگی ہوئی ہم آپ کی ریکوری کرا دیں گے۔ وہ گھرانہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ میرے بار بار کہنے کے باوجود بھی انہوں نے مقدمہ درج نہ کرایا اور عزت بچنے پر شکر ادا کرنے میں لگ گئے الٹا مجھے کہنے لگے آپ غلط مشورہ نہ دیں۔ جو نقصان ہوا وہ شاید قسمت میں لکھا تھا۔ دو سال بھی نہ گزرے ۔ گینگ بھی پکڑا گیا۔ انہوں نے گھر کی نشاندہی بھی کر دی مگر مقدمہ درج نہ تھا ۔لہٰذا ریکوری حسب روایت پولیس والوں ہی کے نصیب میں لکھی گئی ۔ تین سال بعد پھر اسی گھر میں دوبارہ واردات ہوئی ۔ اسی طرح سے مین دروازہ کھلا۔ اسی طرح سے تین لوگ آئے مگر گھر والے محتاط تھے ۔ لہٰذا صرف 72 ہزار روپیہ ،لیپ ٹاپ اور موبائل بھی ہاتھ سے گئے مگر مقدمہ پھر بھی درج نہ کرایا۔
مزدوری کے پیسے نہ ملنے پر نوجوان نے مالک کیموٹر سائیکل مانگ کر بیج دی اور اپنے پیسے پور کر لیے، پکڑا گیا۔ اس کی جوان بیوی تھانے منت کرنے آئی اور تفتیشی کو بھا گئی۔ خاوند پر پہلے سختی پھر دوستی اور آئندہ کے لئے اسے مزدوری کی بجائے دوسرے کام پر لگا دیا۔ اب وہ منشیات فروشی کرتا ہے۔ جنرل بس سٹینڈ اس کی ’’بیٹ‘‘ ہے اور دوسرے شہر سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے نکا تھانیدار تھانے کی بجائے تین سال سے اسی کے تین کمروں کے گھر میں اوپر والے پورش میں قیام پذیر ہے اور اسے روٹی پانی صابن تولیہ مل جاتا ہے۔ تینوں راضی خوشی رہ رہے ہیں کہ ناراضگی کیا نتیجہ طویل قید کی صورت میں نکلے گا۔ایک سابق سی پی او ملتان کے پاس یہ شکایت آئی جس پر معلومات لی گئیں جو حرف بحرف درست ثابت ہوئیں مگر اسے نکے تھانیدار کا ذاتی فعل قرار دے کر ایک سیاسی مداخلت معاملہ تھپ ہو گیا۔ تا دم تحریر مذکورہ نکے تھانیدار کا قیام و طعام جاری ہے۔ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے صوبے بھر میں ایسے واقعات کی تعداد سینکڑوں میں ہو گی۔
جس شہر یعنی بہاولنگر میں عید کے دن والا واقعہ ہوا ہے ۔ اس شہر میں تعینات ایک ڈی ایس پی کا پسندیدہ مشغلہ یہ ہے کہ وہ خوبصورت اور مظلوم سائلہ کا ہر سال دو سال بعد چنائو کرتا ہے مدد سے شروع ہونے والا سلسلہ ایسے نکاح پر ختم ہوتا ہے جس کا کسی بھی جگہ اندراج نہیں ہوتا۔ اس نے مبینہ طور پر نکاح نامے کی پرتیں کہیں سے حاصل کر رکھی ہیں۔ نکاح میں پراپرٹی اور نقد رقم کے علاوہ ماہوارخرچہ بھی لکھ دیتا ہے مگر وہ نکاح کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتا کہ نکاح خواں اور گواہان وہ اپنے ہی ساتھ لے کر آتا ہے۔ وہ چند ماہ میں ہی اکتا بھی جاتا ہے اور بس چھوڑ دیتا ہے۔ میرے علم میں کم ازکم 4 ایسی خوبرو خواتین تو ہیں جو اس کے اعتماد کے چھانسے میں آ کر فرضی نکاح کے ذریعے اپنی زندگیاں برباد کرچکی ہیں۔ آر پی او بہاول پور کے نوٹس میں بھی ہے مگر دوسرے اداروں پر اپنے ساتھیوں کا تحفظ کرنے کے حوالے سے چیخ و پکار کرنےوالے خود تو اس سے کہیں بڑھ کر پردہ دفاع حتہ کہ شراکت داری تک کرتے ہیں۔
بہاولنگر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر نظر سے گزری جس میں تشدد کا شکار ایس ایچ او رو رو کر کہہ رہا ہے کہ اسے بہت مارا، ننگا کیا پھر نہ جانے کون سا انجکشن لگایا۔ وہ اپنے زخم دکھا رہا تھا۔ جو بھی ہوا بہت برا ہوا مگر جو یہ موصوف عوام کئی سال سے بہاولنگر کی غریب عوام کے ساتھ کرتے رہے ہیں ان کے ظلم کی گواہی پورا ضلع بہاولنگر دیتا ہے۔ جن کو یہ برہنہ کرکے چھتر مارتے تھے۔ کڑا اور منجی لگاتے تھے۔ بے گناہ لوگوں کی چیخیں سن کر بھی رحم نہیں کھاتے تھے تو وہ چیخیں اگر اللہ نے سن لی ہیں اور تھوڑا سا سبق دے کر اصلاح کا بھرپور موقع فراہم کر ہی دیا ہے تو رونا کس بات کا ہے۔ اللہ نے کمزور کی سن لی اور طاقت والوں کو بھیج دیا۔ کبھی اللہ مزید سن لے گا اور طاقت والے تجاوز کریں گے تو ان طاقت والوں کی باری بھی آ جائے گی کہ طاقت کا سرچشمہ تو صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے اور اس کے سبق دینے کے انداز بھی نرالے ہیں۔ ہم اگر نہیں سمجھ پاتے تو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیا کریں۔(جاری)

شیئر کریں

:مزید خبریں