کار جہاں (قسط اول):تحریر میاں غفار
قسط اول
اس دور کو گزرے سالہا سال بیت گئے جب عید الفطر ہمارے 80 فیصد پاکستانیوں کے لئے خوشیاں لاتی تھی۔ اب کوئی بے چارہ کسی ناکے سے خالی جیب گزرے تو رمضان کے آخری عشرے میں یہ عمل اس کے لئے قابل دست اندازی پولیس جرم بن جاتا ہے۔ جیبں خالی ہو ان دنوں میں حوالات خالی نہیں رہتے ۔ یہ عیدی مہم کتنی منظم انداز میں چلتی ہے اور اس سے ایک اے ایس آئی سے لے اعلی افسران تک سب آگاہ ہیں اور یقینی طور حصہ دار بھی ۔کبھی وہ دن بھی تھے جب طیب نیت اور پاکیزہ شہرت کے حامل پولیس افسران عید سے دس دن قبل ٹریفک پولیس کے لئے چالانوں پر ہر طرح سے پابندی عائد کر دیا کرتے تھے کہ عیدی مہم کو روکا جا سکے۔ اب تو ایسا بھی نہیں ہوتا ۔
سانحہ بہاولنگر پر پولیس کے مظالم کا شکار عوام کو تحسین۔ یہ واقعہ نہیں خدائی مدد اور ان تمام متاثرین سسٹم کی خاموش دعائوں کا اثر ہے جس کے گھروں میں یہ ’’شیر جوان‘‘ رات کے آخری پہر کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ آسمان دنیا پر آ کر اعلان فرماتا ہے ۔ ہے کوئی تہجد کی نماز میں مانگنے والا کہ میں اس کی مراد پوری کروں۔ یہ وہ وقت ہے جب رحمت خدا وندی عروج پر ہوتی ہے مگر پاکستان میں یہی وہ وقت ہے جب سرکاری گاڑیوں پر بھی یونیفارم والے سیڑھیاں لگا کر بے خبری میں سوئے گھر والوں کو جگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں، اپنی اپنی تربیت کے مطابق خواتین کی بے حرمتی کرتے بھی ہیں، بے بس اور کمزور فیملیز کو غلیظ گالیاں دے کر اپنا حسب نسب بتاتے ہیں اور شریف شہریوں کی عزتوں کو تار تار کر کے ’’رزق حلال‘‘ کی تہجد کے وقت میں تلاش کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی بااختیار اور بارسوخ کو اللہ نے اتنی توفیق دی کہ وہ کسی ایسے گھر میں جا کر خوف کی فضا کا از خود جائزہ لے جس سے سالہا سال تک ایسے خاندان نکل ہیں نہیں پائے جن کے گھروں میں سیڑھیاں لگا کر یہ شیر جوان دوسروں کی مائوں کو ذلیل کرتے ہیں۔
میں نے بہاولنگر میں عید کے روز رونما ہونے والے واقعے کی کم از کم سات مختلف ذرائع سے معلومات لیں۔ متعدد سیئر نمائندگان سے بھی رابطہ کیا جن کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے سالہا سال پرانا تعلق ہے ۔ تھانہ مدرسہ کا ایس ایچ او رضوان عباس چند ماہ پہلے ہی اے ایس آئی سے سب انسپکٹر پروموٹ ہوا اور ترقی پاتے ہی مبینہ طور پر صرف 5 لاکھ خدمت کے عوض ایس ایچ او تھانہ مدرسہ تعینات ہوا اور اسی قماش کے تین اور بھی سب انسپکٹر مختلف تھانوں میں ایس ایچ او انہی شرائط پر تعینات ہیں جن کا بھی یہی وطیرہ ہے ۔ بہاولنگر میں ایک جتوئی ڈی ایس پی ہیں جو کم از کم 15 سال سے اسی ضلع میں تعینات ہیں اور جس گائوں میں یہ واقع ہوا وہاں دو گروپوں کے درمیان نوک جھونک رہتی ہے جبکہ جن لوگوں کے گھر یہ ’’ شہر جوان‘‘ داخل ہوئے ان کے مخالفین بھی مذکورہ ڈی ایس پی کے خدمت گزاروں میں شامل ہیں۔ ایس ایچ او رضوان عباس جو لوگوں کو برہنہ کرنے اور بے عزت کرنے کا اچھا خاصا شوقین تھا۔ اس کی مبینہ ڈیل تھی کہ چوہدری انور کے بیٹے ندیم کی عید حوالات میں گزرے گی اور اس ڈیل کے عوض ایس ایچ او نے مبینہ طور پر وصولی بھی کر رکھی تھی۔ چوہدری انور کے دو بیٹے فوج اور اہم دفاعی اداروں میں نچلے درجے کے ملازم ہیں اور ایک بیٹا ندیم سالہاسال سے مخالفین کا دبائو برداشت کرنے کے بعد اب بھائیوں کی وجہ سے تھوڑا ری ایکٹ تو کرنے لگا ہے مگر اس کے خلاف بھی کسی قسم کی کوئی درخواست کسی تھانے یا کسی ادارے میں تاحال تو موجود نہیں البتہ پولیس اگر پچھلی تاریخوں میں کارروائی ڈال دے جس کی اسے دھائیوں پر محیط مہارت ہے تو الگ بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب گذشتہ چند سالوں سے پولیس کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی کہ بغیر سرچ وارنٹ کسی بھی گھر میں داخل ہو جائو اور اعلیٰ پولیس افسران کے اس قسم کے بھی مبینہ احکامات ہوتے تھے کہ توڑ پھوڑ کئے بغیر واپس نہ آنا۔ بعض اوقات تو یہ بھی حکم دیا جاتا تھا کہ توڑ پھوڑ کرنے کی ویڈیو بھی بنائی جائے تاکہ افسران کی انا کی تسکین ہو سکے اور ان کا رعب و دبدبہ قائم رہ سکے۔ ابھی چند ماہ پہلے پنجاب پولیس نے جو ظلم سکول جانے والے طلبہ پر کیا اور جس قسم کی اذیت بھری تحریر معصوم ذہنوں پرہمیشہ کیلئے لکھ ڈالی۔کوئی بھی باشعور ذمہ دار، حساس اور درد دل رکھنے والا ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے سفاکیت کا کوئی دکھری ٹائپ کا درجہ درکار ہوتا ہے۔ مجھے یہ بات ہضم ہی نہیں ہو سکی کہ اعلیٰ افسران نے کس سوچ کے تحت تھانے داروں کو معصوم بچوں پر ظلم کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں چوہدری انور کے گھر توڑ پھوڑ کی گئی۔ لکڑی کے دروازے ٹوٹے پڑے ہیں اور پولیس نے ایسے اس گھر کو برباد کیا جیسے گیدڑ خربوزے کے کھیت کر برباد کرتے ہیں۔ کیا تھانہ مدرسہ بہاولنگر کی پولیس نے کسی دشمن ملک کے شہری کے گھر دھاوا بولا تھا۔ آج پولیس کو بہت تکلیف محسوس ہو رہی ہے، کوئی وردی جلا رہا ہے اور کوئی گالیاں دے رہا ہے لگتا ہے کہ حرمت تو صرف پولیس والوں کی ہے ۔ چوہدری انور کی اہلیہ تو کسی کی ماں نہیں۔ ان کے گھر میں کوئی بہن یا بیٹی نہیں ان کی کوئی چار دیواری اور چادر نہیں سب کو دکھ اس بات کا ہے کہ رضوان نامی ایس ایچ او کو برہنہ کیا گیا۔ جناب یہ وہی چھتر ہے جو اسی تھانے میں لوگوں کو مارنے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ چھتر پولیس والوں کے جسموں پر پڑے ہیں تو انہیں یقینی طور پر احساس ہوا ہو گا کہ وہ کس طرح سالہا سال سے بے گناہ لوگوں کو اس قسم کے چھتر مار رہے ہیں میرا اللہ بڑا کارساز ہے ۔ وہ تو گندے پانی سے کنول جیسا پھول پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے سبق سکھانے کے اپنے ہی انداز ہیں۔ شاید اس واقعے سے پولیس کی نسلوں سے جاری مار اور ڈی جانے والی اذیت میں میں کمی آجائے۔
ابھی تو میں نے حالیہ رمضان میں عوام کے ساتھ پولیس کے تعاون سے چند واقعات لکھنے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی تصدیق کروا کر آئی جی پنجاب ذمہ داروں کو سزا دلوائیں گے اور ہو سکے تو لگے ہاتھوں تھانوں سے چھتر غائب کرا دیں ابھی تو یہ چند کمانڈوز کے ہاتھوں میں آیا ہے تو صوبے بھر کی پولیس صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے اگر کہیں یہ عوام کے ہاتھوں میں آ گیا تو کیا ہوگا اور وہ دن دور نہیں کہ اللہ کے ہاں نہ دیر ہے نہ اندھیر (جاری ہے)