ویمن یونیورسٹی: جعلی وی سی اختیارات، انکریمنٹ فیصلے، معاملہ کمشنر چیئرمین بورڈ تک پہنچ گیا

ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر آفس کے اہم ترین ذرائع کے مطابق کمشنرملتان و چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (BISE) ملتان نے خواتین یونیورسٹی ملتان کے سینڈیکیٹ ممبر کے طور پر وائس چانسلر سے ایڈوانسڈ اور پری میچور انکریمنٹس کی بندش اور ریکوری سے متعلق بحران پر فوری طور پر وضاحت طلب کرلی ہےجب کہ کمشنر ملتان ڈویژن اور چیئرمین بی آئی ایس ای کی جانب سے جاری ہدایات میں وائس چانسلر خواتین یونیورسٹی ملتان کو 15 دسمبر 2025 تک تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب ویمن یونیورسٹی کے ریگولر و کنفرمڈ ملازمین کی درخواست پاکستان پوسٹ کے ذریعے چیئرمین ملتان بورڈ کو موصول ہوئی جس میں ملازمین نے براہِ راست یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے تمام ممبران کو پرانی تاریخ 14 نومبر 2025 کے حکم نامے نمبر WUM/VC/25-88/D کو منسوخ کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہ حکم نامہ 7 دن میں سینڈیکیٹ ممبران کو بھیجنا ضروری تھا مگر 12 دن بعد قانون کے بر خلاف بھیجا گیا۔ ملازمین کا موقف ہے کہ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے انکریمنٹس روکنے اور ریکوری کے احکامات جاری کرنا غیر قانونی عمل ہے کیونکہ ان کے پاس ایسے طویل المدتی یا مالی نوعیت کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں۔ اس سلسلے میں کمشنر/چیئرمین بی آئی ایس ای کی جانب سے وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ سے دریافت کیا گیا ہے کہ کیا پرو وائس چانسلر نے ویمن یونیورسٹی ملتان ایکٹ 2010 کی دفعات 12(3) اور 12(3a) کے تحت اپنے اختیارات درست طور پر استعمال کیے؟جبکہ صورتحال یہ ہے کہ حکومتِ پنجاب کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے دو اہم نوٹیفکیشنز اس کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ پہلا نوٹیفکیشن 28 جون 2024 کا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ کوئی بھی قائم مقام یا پرو وائس چانسلر اپنی تعیناتی کے دوران کسی قسم کی طویل المدتی پالیسی یا مالی فیصلہ سازی نہیں کرسکتا۔ دوسرا نوٹیفکیشن 25 جولائی 2025 کا ہےجس کے مطابق ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو محض روزمرہ کے امور چلانے کا اختیار دیا گیا تھا، نہ کہ مالی یا انتظامی نوعیت کے بڑے فیصلوں کا۔ سرکاری سطح پر سامنے آنے والے ان دستاویزات کے بعد چیئرمین بی آئی ایس ای ملتان نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملازمین کی درخواست کا تفصیلی جائزہ لے، حکومتی نوٹیفکیشنز کی روشنی میں اپنی قانونی پوزیشن واضح کرے اور یہ ثابت کرے کہ آیا موجودہ حکم نامہ اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے جاری کیا گیا یا نہیں۔ بی آئی ایس ای نے مزید واضح کیا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں کمشنر ملتان ڈویژن معاملے پر مزید کارروائی کریں گے۔ مراسلے کی کاپی یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے تمام ارکان، ایڈیشنل سیکرٹری یونیورسٹیز، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب، کمشنر ملتان ڈویژن اور چیئرمین بی آئی ایس ای کو بھی ارسال کر دی گئی ہےجس سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ معاملہ اب اعلیٰ سطح پر پہنچ چکا ہے اور اس میں کسی قسم کی انتظامی یا قانونی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ واضح رہے کہ ویمن یونیورسٹی ملتان میں گزشتہ کئی ماہ سے انکریمنٹس، اختیارات اور گورننس کے حوالے سے تنازعات شدت اختیار کرچکے ہیںجن کے باعث متعدد ملازمین سخت ذہنی دباؤ اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ انکریمنٹس کی بندش ایک غیر آئینی اور ناانصافی پر مبنی اقدام ہے جسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اگر یونیورسٹی کی جانب سے دی جانے والی رپورٹ تسلی بخش نہ ہوئی تو معاملہ مزید سخت کارروائی کی طرف بڑھ سکتا ہےجس میں حکم نامے کی معطلی، انکوائری یا دیگر قانونی کارروائیاں شامل ہوسکتی ہیں۔ اس سارے معاملے نے ایک بار پھر سرکاری یونیورسٹیوں میں جعلی عبوری قیادت کے اختیارات اور شفافیت کے نظام پر سنگین سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے دھوکہ دہی سے 1982 میں کی گئی میٹرک کو اچانک یاد آنے پر 32 سال بعد 2014 میں گورنمنٹ جاب کی جوائننگ کے بعد میٹرک کی سند پر اپنی تاریخ پیدائش تبدیل کروائی اور ملتان بورڈ کو جعلی بیان حلفی جمع کروایا کہ وہ کوئی گورنمنٹ ملازمت نہیں کر رہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جعلی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کا تعلق اسلامیات ڈیپارٹمنٹ سے ہے اور انہوں نے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے موصول ہونے والے لیٹر کے مطابق پرائیویٹ کالج کے جعلی تجربے کا سرٹیفکیٹ بھی جمع کروایا ہےجو کہ پروفیسر کے لیے مطلوبہ تجربے کے لیے قابل قبول نہ تھا۔حیران کن طور پر یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر کو متعدد شکایات بھیجی گئیں مگر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے بقول ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور گورنر آفس میں ان کے اچھے تعلقات ہیں اسی لیے ان کے خلاف کوئی بھی انکوائری شروع نہیں ہو سکی۔ ایک اور امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے زیر اہتمام 43 ویں سینڈیکیٹ بھی شدید ترین دھوکہ دہی کے باعث غیر قانونی قرار دی جا چکی ہےاور اس بابت بھی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بھی جعلی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے سکا۔ ڈاکٹر کلثوم پراچہ گرینڈ گالہ کے نام پر بھی لاکھوں روپے ڈکار چکی ہیں جس کا کوئی حساب کتاب یونیورسٹی اکاؤنٹس میں موجود نہ ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں