اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد کی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی زندگی کو منظم کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ اسلام میں ہمیں نہ صرف عبادات کی ہدایات ملتی ہیں، بلکہ معاشرتی اخلاق، انسانی حقوق، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں بھی تفصیل سے رہنمائی کی گئی ہے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ان تعلیمات کو محض رسمی عبادات تک محدود کر لیا ہے اور ان احادیث پر عمل کرنے میں اکثر کوتاہی برتی ہے جو کہ ہمارے روزمرہ کے معاشرتی رویوں، تعلقات اور اخلاقی معیار سے متعلق ہیں۔ ان احادیث پر عمل نہ کرنا، ہمارے دعوے کو کہ ہم مسلمان ہیں، کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
اس مضمون میں ہم کچھ اہم احادیث کا ذکر کریں گے جن میں مسلمانی کے لیے ضروری اخلاقی اور معاشرتی رویوں کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بھی کہ ہم ان احادیث کو کس طرح نظرانداز کرتے ہیں، جس سے ہماری معاشرتی حالت میں بگاڑ آ رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص جھوٹ بولے اور ایمانداری سے کام نہ لے، وہ مسلمان نہیں ہے۔(صحیح مسلم)
آج کے دور میں جھوٹ بولنا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ کاروبار سے لے کر ذاتی زندگی تک، لوگ جھوٹ بولنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ سچائی کی اہمیت اور اس کی پیروی کرنے کی بجائے، ہم جھوٹ کو ایک معمولی بات سمجھ کر اسے معمول کی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ سیاستدانوں سے لے کر کاروباری افراد تک، ہر جگہ جھوٹ اور فریب کا چلن بڑھ چکا ہے۔ حتیٰ کہ ہم میں سے اکثر افراد دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو بہتر دکھانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سچائی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اسے ایمان کا جزو سمجھا گیا ہے۔ لیکن ہم نے اس ہدایت کو نظرانداز کر دیا ہے، اور جھوٹ بولنا ہمارے معاشرتی رویوں کا حصہ بن چکا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا مال بغیر حق کے کھائے، وہ گویا اپنے پیٹ میں آگ بھر رہا ہے، اور اللہ اس کے ساتھ قیامت کے دن حساب کرے گا۔(صحیح مسلم)
آج کے معاشرے میں مالی بدعنوانی، رشوت، اور دوسرے کے حقوق کو غصب کرنا ایک عام بات بن چکی ہے۔ حکومتی سطح پر، کاروباری دنیا میں، اور حتیٰ کہ روزمرہ کی زندگی میں بھی ہم اکثر دوسروں کے حقوق کی پامالی کرتے ہیں۔ بینکوں کی فراڈ، سرکاری اداروں میں رشوت، اور کاروباری سودے بازی میں دھوکہ دہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم اسلامی احکام کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ہم اپنے فائدے کے لیے دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ اس کا حساب اللہ کے سامنے ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
غیبت کرنے والا، وہ شخص جو اپنے مسلمان بھائی کی عزت کے بارے میں بُرا کہے، وہ ایمان سے خالی ہے۔(صحیح مسلم)
غیبت، یعنی دوسروں کے پیچھے ان کی برائیوں کا ذکر کرنا، ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک بڑا حصہ بن چکا ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد دوسروں کی زندگیوں میں جھانکتے ہیں اور ان کے بارے میں باتیں کرتے ہیں، خواہ وہ باتیں سچ ہوں یا جھوٹ۔ سوشل میڈیا نے غیبت کو مزید بڑھا دیا ہے، جہاں افراد دوسروں کی ذاتی زندگیوں کو سرعام اور بے تکلفی سے زیر بحث لاتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں غیبت کو شدید گناہ قرار دیا گیا ہے، لیکن ہم اس عمل کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص نماز کو ترک کرتا ہے وہ اسلام سے باہر ہو جاتا ہے۔(ابن ماجہ)
نماز اسلام کے ارکان میں سب سے اہم رکن ہے، مگر ہم میں سے بہت سے لوگ نماز کو اہمیت نہیں دیتے۔ پانچ وقت کی نماز کو چھوڑ دینا یا اسے ٹال دینا ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ نماز ہماری روحانی زندگی کا سنگ بنیاد ہے، اور اس کی ترک کرنا اللہ سے دوری کا باعث بنتا ہے۔ بہت سے مسلمان صرف رمضان کے مہینے میں نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر دیگر مہینوں میں نماز کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ نماز کو وقت پر اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنا نہ صرف ہماری عبادت کی قبولیت کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ ہمارے معاشرتی اخلاق کو بھی بہتر بناتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو مسلمان کسی مسلمان کو قتل کرے، اس کا شمار دوزخیوں میں ہوگا۔(صحیح بخاری)
آج کے دور میں قتل و غارت کا معاملہ بھی تشویش کا باعث ہے۔ جنگوں، فرقہ وارانہ تنازعات، اور دہشت گردی کے واقعات میں مسلمانوں کا قتل عام بڑھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ، کسی بھی شخص کی جان لینا اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، لیکن ہم نے اس حکم کو نظرانداز کیا ہے۔ ہمارے معاشرتی رویے میں تشدد اور انتہاپسندی کا عنصر بڑھ رہا ہے، جس کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان بدامنی اور خونریزی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ قرآن اور حدیث میں انسان کی جان کی حرمت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اور کسی بھی انسان کی جان لینا اللہ کی نظر میں ایک سنگین جرم ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو لوگ دین میں شدت پسندی کرتے ہیں، وہ دین میں سے خارج ہیں۔(صحیح بخاری)
دین میں افراط و تفریط کا رجحان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ دین کو بہت سختی سے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں اتنی شدت پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس سے متنفر کر دیتے ہیں، جبکہ بعض لوگ دین کے اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ اسلام ایک معتدل دین ہے اور اس میں توازن کی اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن ہم نے دین کو اس کے اصل پیغام کے مطابق نہیں اپنایا۔ شدت پسندی اور افراط و تفریط ہمارے معاشرتی رویوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص دین کو مذاق یا تفریح بنا لے، وہ دین میں داخل نہیں رہتا۔(ابن ماجہ)
دین کا مذاق اُڑانا، یا اس کو صرف ایک روایتی معاملہ سمجھنا، ہمارے معاشرتی رویے کی ایک بری عادت بن چکی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ دین کی اہمیت کو کم سمجھتے ہیں اور اسے محض رسمی عبادتوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر عوامی فورمز پر دین سے متعلق مذاق اور تضحیک کرنا ایک عام بات ہو چکی ہے، حالانکہ اسلام ایک پاکیزہ اور اعلیٰ ترین دین ہے جسے ہم نے اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جس میں فرد اور معاشرتی سطح پر اخلاق، روحانیت، اور انصاف کے اصول شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان احادیث پر عمل کرنے سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ ہم معاشرتی طور پر بھی ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہم نے ان اہم اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کیا ہے اور اپنی روزمرہ زندگی میں ان پر عمل کرنے میں کوتاہی برتی ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں میں جھوٹ، بدعنوانی، غیبت، اور انصاف کی کمی بڑھ رہی ہے، جس سے نہ صرف فرد کی روحانیت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی ہم مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔جب ہم ان احادیث میں ذکر کردہ اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں، تو ہم اپنی اسلامی شناخت کو کمزور کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویے اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ ہم نے دین کے اخلاقی معیار کو اپنانا چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم جھوٹ بولتے ہیں یا دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں تو ہم نہ صرف خود کو گمراہ کرتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح غیبت اور دوسروں کی عزت پامال کرنا بھی ایک ایسی عادت ہے جس نے ہماری اخلاقی سطح کو متاثر کیا ہے۔
اسلام میں عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں پر بھی سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان اہم تعلیمات پر عمل کریں تو نہ صرف ہم اپنی روحانی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی تعلقات میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کا ایمان اس کے عمل میں ظاہر ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن رویوں کی طرف متوجہ کیا تھا، ان پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کر سکیں۔آخرکار، ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کو مکمل طور پر اپنانا ہوگا تاکہ ہم اپنے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکیں۔ اگر ہم اپنی روحانیت اور اخلاقی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر سمجھ کر ان پر عمل کریں، تو نہ صرف ہماری فردی زندگی میں سکون آئے گا بلکہ ہم ایک ایسا معاشرتی ماحول تشکیل دے سکیں گے جس میں بھائی چارہ، احترام اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ اسلامی تعلیمات کا حقیقی مقصد انسانوں کو ایک بہتر انسان بنانا ہے، اور اس پر عمل کر کے ہم اللہ کے قریب جا سکتے ہیں۔