آج کی تاریخ

Let him die in the chair

وقت موجود کا صوفی۔۔( قسط دوئم)

کار جہاں‘ میاں غفار

پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی تمام باتیں درست ثابت ہونے کے باوجود میں نے انہیں اہمیت نہ دی اور اِن کے علم اور بصیرت کو ایک غیر معمولی کی ذہانت ہی گردانتا رہا اور اسی طرح کئی سال بیت گئے۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران ایک دن میں بھارہ کھوہ کے علاقے سے گذر رہا تھا تو مجھے ایک دوست کی فون کال موصول ہوئی کہ مین بازار بھارہ کھوہ میں دن دیہاڑے ایک قتل ہو گیا ہے اور مقتول کوئی اہم آدمی لگتا ہے۔ میں نے اِسی وقت روزنامہ خبریں اسلام آباد کے کرائم رپورٹر نیر وحید راوت کو فون کیا اور خود ڈرائیور سے گاڑی رکوا کر موقع پر چلا گیا۔ مین بازار میں ایک فربہ جسم کی 40 سال سے کم عمر کے ایک شخص کی لاش پڑی تھی جس کے پائوں میں زنجیریں تھیں اور ہاتھ میں ہتھکڑیاں۔ مقتول نے شلوار پہنی ہوئی تھی اور جسم پر قمیض نہ تھی۔ جسم بھرا ہوا، قد درمیانہ، رنگ گورا۔ لوگوں نے اُسے قتل کرنے والوں کو موقع پر ہی آلہ قتل پسٹل سمیت پکڑ لیا تھا۔ دونوں قاتل بمشکل ہی 20 سال کے لگتے تھے۔ بتایا گیا کہ مقتول زنجیروں سمیت مین بازار میں بھاگ رہا تھا۔ سامنے سے آنے والے دونوں لڑکوں نے اُسے گولیاں مار کر وہیں قتل کر دیا۔ اسی شام نیر وحید راوت نے مزید تفصیلات لے کر خبر فائل کی جو اخبار میں شائع ہوئی پھر کئی دن اس کا فالو اپ بھی چلتا رہا کیونکہ وہ لاہور کا ایک مغوی صنعتکار تھا جسے تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس کی رہائی کے عوض 10 کروڑ تاوان مانگا گیا تھا اور تاوان کی اِس رقم کے لیے خلیجی ریاستوں کے ایک ملک سے فون آتے تھے۔ اغوا کار گروہ کے سرغنہ کا تعلق شیخوپورہ کے ایک راجپوت خاندان سے تھا جو کہ مڈل ایسٹ میں بیٹھ کر پاکستان میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کراتا تھا اور اُسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پولیس آفیسر کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ خبر کا فالو اپ کئی دن شائع ہوتا رہا اور پھر معاملہ ختم ہو گیا۔ کئی سال بعد ایک دن میرا چھوٹا بھائی اور میں ملاقات کے لیے سابق چیئرمین ضلع کونسل لاہور اعجاز ڈیال کے ہاں گئے۔ گھنٹوں گپ شپ چلتی رہی اور موضوع گفتگو روحانیت کی طرف چل پڑا تو پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔ اعجاز ڈیال نے مجھے حیران کن واقع سنایا جس کی میں نے فوری تصدیق کر دی کہ میں نے مذکورہ وقوعہ بچشم خود دیکھا تھا اور تمام حالات و واقعات مجھے ازبر تھے۔
اعجاز ڈیال بہت متحرک اور مضبوط رابطوں کی حامل دوست نواز شخصیت ہیں۔ وہ سیاست کے ابتدائی ایام ہی میں ضلع کونسل لاہور کے چیئرمین منتخب ہو گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور سے ان کے ایک دوست کے بھائی کو تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا۔ مغوی کا تعلق بہت مضبوط رابطوں والے ایک صنعتکار گھرانے سے تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس وقت چوہدری محمد یعقوب ڈی آئی جی فیصل آباد تھے۔ پنجاب پولیس مغوی کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی۔ تاوان طلب کیا جا چکا تھا۔ مگر ان ایام میں ٹیکنالوجی اور جی پی ایس سسٹم پاکستان میں آج کی طرح متعارف نہ تھا۔ نہ ہی موبائل لوکیشن اور دیگر سہولیات تھیں جو آج موجود ہیں۔ پھر تاوان کے لیے رقم بھی خلیجی ریاست میں موجود ایک پاکستانی طلب کر رہا تھا۔ تلاش کی اسی تگ و دو کے دوران کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ گوجر خان جا کر پروفیسر احمد رفیق اختر سے مل لیں ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی رہنمائی کر دیں۔ جس پر اعجاز ڈیال مغوی کے بھائی اور غالباً چوہدری محمد یعقوب کے ہمراہ لاہور سے خصوصی طور پر گوجر خان گئے جہاں کسی بااثر دوست نے انکی پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ پروفیسر صاحب کو آمد کا مقصد بتایا تو انہوں نے مغوی کا نام لکھ کر چند قرآنی آیات کا ورد کیا اور بتایا کہ آپ کا مغوی حیات ہے اور سخت مصیبت میں ہے۔ وہ بھارہ کھوہ کے علاقے میں ایک بارونق بازار میں ایک پرانے سے گھر میں بندھا ہوا ہے۔ اس گھر کے سامنے نئی نئی اینٹیں اتری ہیں اور اینٹوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپ جائیں اور اللہ پاک کو منظور ہوا تو کامیابی ہو گی۔ ان کے ساتھ جانے والے ایک صاحب ساری بات سن کر پروفیسر صاحب کے گھر سے باہر نکلتے ہی خفا ہو گئے۔ خاصے تلخ لہجے میں کہنے لگے پھر پولیس ڈیپارٹمنٹ کو تو ختم کریں۔ ساری سائنسی تعلیم بند کریں اور ان بابوں ہی کو تفتیش کی ذمہ داری دے دیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ ہمارا مغوی بھارہ کھوہ کے پرانے سے گھر میں زنجیروں سے بندھا ہوا ہے۔ باہر اینٹیں پڑی ہیں۔
اِس قسم کے قابل اعتراض تاثرات کے بعد بھارہ کھوہ جانے اور پروفیسر احمد رفیق اختر کی باتوں بارے پولیس کو آگاہ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا گیا کہ ایسی بات کرکے اپنا ہی مذاق بنانے والی حرکت بے سود تھی اور اس طرح بات آئی گئی ہو گئی۔ دس روز بعد اس مغوی کی نگرانی پر موجود لڑکے گھر کو باہر سے کنڈی لگا کر حسب معمول دوپہر کا کھانا لینے گئے تو اس مغوی کو جو کہ ایک لکڑی کی کھڑکی کے ساتھ پرانے زمانے کے لکڑی کی چوکاٹھ میں لگے ہوئے آہنی سریوں سے بندھا ہوا تھا، پیشاب کی حاجت ہوئی اور وہ باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے پھسل گیا تو زور کا جھٹکا لگنے سے چوکاٹھ کی لکڑی ٹوٹ گئی۔ اس نے زور زور کے دو چار جھٹکے اور لگائے تو سریا چوکاٹھ سے باہر نکل آیا اور وہ ننگے دھڑ باہر گلی میں بھاگ کھڑا ہوا۔ پوسٹ مارٹم میں اس کا پھسلنا بھی ثابت ہوا اور موقع ملاحظہ سے بھی تصدیق ہو گئی کہ اس نے کس طرح سے خود کو آزاد کیا۔ گرمیوں کے مہینے تھے، مغوی میں قمیض پہنے بغیر ہی گلی میں نکل بھاگا ۔ وہ زنجیروں سے بندھا ہوا گلی میں مشکل سے بھاگ رہا تھا کہ سامنے سے دونوں لڑکے آ گئے اور انہوں نے فوری طور پر فائرنگ کر کے اُسے موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعد میں جب ورثاء پہنچے تو جس طرح کی نشانی تقریباً دس روز قبل ہی پروفیسر احمد رفیق اختر نے کی تھی اس قسم کا پرانا سا گھر تھا اور گھر کے سامنے اینٹیں بھی نئی نئی اتاری گئی تھیں۔ دونوں قاتل اقبال جرم کر چکے تھے اور یہ بھی بتا چکے تھے کہ وہ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے اُسی رانا صاحب کے آدمی ہیں جو خلیجی ریاست میں بیٹھ کر 10 کروڑ تاوان مانگ رہے تھے۔
واردات کی کی تمام کڑیاں مل چکی تھیں اور پروفیسر صاحب نشاندہی بھی تو کر چکے تھے مگر مغوی کی زندگی کی ڈور کٹ چکی تھی لہٰذا نشاندہی کے باوجود ورثاء کی آنکھوں پر پردہ پڑا رہا۔ اعجاز ڈیال کی گفتگو نے میرا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ (جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں