آج کی تاریخ

Let him die in the chair

“وقت موجود کا صوفی”

” کارجہاں۔ میاں غفار احمد (قسط اول)

منفرد اسلوب اور پختہ رائے کے حامل کالم نگار جناب ہارون الرشید جنہیں مجھ سمیت سینکڑوں لکھنے والے استاد گرامی کا درجہ دیتے ہیں، آج سے 20 سال قبل روزنامہ خبریں کے لئے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں ان دنوں خبریں اسلام آباد کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھا۔ یہ 21 سال پرانی یادیں ہیں جو میں آج ضبط تحریر میں لا رہا ہوں۔ ہارون الرشید صاحب ان دنوں تبدیلی کے اندرونی مراحل سے گزر رہے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک موٹی تسبیح اور طبیعت میں کافی ٹھہراو آ رہا تھا چونکہ میں نے لاہور میں ان کا جلال دیکھ رکھا تھا کہ ان ایام میں در گذر ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ وہ جملہ ضائع نہ کرتے بندہ ضائع کر لیتے تھے۔ طبیعت میں بہت زیادہ لاابالی پن تھا اور غلط بات کی برداشت سے ان کا کم سے واسطہ رہتا تھا مگر اسلام آباد قیام کے دوران میں تیزی سے تبدیل ہوتا ایک ہارون الرشید دیکھ رہا تھا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ، کل تیار رہنا ہم نے گوجر خان جانا ہے۔ تمہاری ملاقات پروفیسر صاحب سے کرانی ہے۔ اسلام آباد سے راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے کہ رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگلے روز ہم گوجر خان میں پروفیسراحمد رفیق اختر صاحب کے روبرو تھے۔ رش زیادہ تھا مگر ہمیں بہت خصوصی وقت درکار تھا لہٰذا تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران ہارون الرشید صاحب مسلسل تسبیح کے دانوں کو پھیر رہے تھے اور کچھ پڑھتے جا رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ پروفیسر صاحب نے انہیں اللہ پاک کے ناموں کا ورد بتایا ہے اور مجھے یاد ہے کہ وہ یا سلام، یا مومن، یا اللہ کا ورد کر رہے تھے۔ وہ اِسے روزانہ کم از کم 300 مرتبہ پڑھا کرتے تھے اور بعض اوقات لا تعداد بھی پڑھ لیتے۔ کچھ اور بھی اللہ تبارک وتعالی کے ناموں کا ہارون الرشید صاحب ورد کرتے تھے مگر وہ اب مجھے یاد نہیں آ رہے۔ اس دوران کھانا آ گیا۔ انتہائی مزے دار شوربہ اور تازہ روٹی سے کھانے کا لطف دوبالا ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں ہارون صاحب کے ہمراہ میں پروفیسر احمد رفیق اختر کے روبرو تھا۔ کیا اطمینان ان کے چہرے پر تھا۔ کتنے تحمل سے وہ بات کرتے تھے۔ سبحان اللہ
ہارون الرشید صاحب نے میرا تعارف کرایا، نام بتایا تو انہوں نے ایک کاغذ پر میرا نام لکھ لیا اور ہارون الرشید صاحب سے پوچھنے لگے۔ خبریں میں وہ جو پہلے ایڈیٹر تھے ضیاء شاہد کے بیٹے وہ کہاں چلے گئے۔ ہارون صاحب نے بتایا کہ وہ لاہور واپس چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ میاں غفار ملتان سے اسلام آباد ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں۔ پروفیسر صاحب گویا ہوئے کہ آپ انہیں جب میرے پاس لائے تھے تو میں نے انہیں بتا تو دیا تھا کہ نہ تو اخبار ان کا ذریعہ روزگار ہے اور نہ ہی پاکستان میں وہ رہیں گے۔ وہ کوئی کمپیوٹر وغیرہ کا بزنس کریں اور باہر چلے جائیں۔ یورپ امریکہ وغیرہ کیونکہ مجھے ان کا مستقبل پاکستان میں نظر نہیں آ رہا تھا، پھر پروفیسر صاحب نے ضیاء شاہد صاحب کے حوالے سے کچھ باتیں کیں اور کہا کہ وہ بہت ذہین ہیں مگر غصے میں اپنا بہت زیادہ نقصان کر لیتے ہیں۔ پھر جو کچھ انہوں نے کہا اس کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ ضیاء شاہد لکی بندہ ہے۔ انہیں قدرت سے یہ فن ملا ہے کہ دماغ لوگوں کا ، خیالات لوگوں کے، تجاویز لوگوں کی، محنت لوگوں کی حتہ کہ فنڈز بھی لوگوں کے مگر وہ کمال عقلمندی سے ان سب کا بہت ہی ہوشیاری سے اپنے لیے استعمال کر جاتے ہیں۔ پھر اور بھی بہت سی باتیں کہیں مگر کوئی بات ایسی نہ کی جس سے ضیا شاہد مرحوم کے عمومی تاثر میں کسی بھی قسم کا الجھاؤ پیدا ہو۔ ویسے بھی حقیقی صوفیاء کرام ایسے تاثرات دیا بھی نہیں کرتے کہ وہ تو خیر بانٹنے اور محبتیں دلوں میں جگانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر پروفیسر صاحب کی توجہ میری طرف ہو گئی۔ کاغذ پر لکھے میرے نام کو دیکھا، کہنے لگے بلڈ پریشر رہتا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں، پھر گویا ہوئے جب نبی پاک ؐ کا وصال ہوا کیا ساری دنیا سدھر گئی تھی؟ تب انہیں نہ ماننے والے مدینے میں موجود تھے اور مکہ میں بھی۔ نبی کریم نے اپنا فرض ادا کیا۔ اللہ کا پیغام لوگوں تک بہت ہی احسن طریقے سے خود کو نمونہ بنا کر پہنچایا اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے آسودہ خاک ہوئے اچھی بات ہے آپ عام آدمی کی مدد کرتے ہو مگر حد کراس کر جاتے ہو۔ پھر ہارون الرشید صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ۔ ہارون صاحب یہ میاں غفار موجودہ صدی کا آدمی نہیں ہے یہ کوئی 17 ویں یا اٹھارویں صدی میں زندہ ہے۔ پرانا اور روایتی تاہم یہ دوست بہت ہی اچھا ہے، برائی کا مقابلہ کرے مگر یہ حد کراس نہ کرے کہ صرف اسی نے برائی کے مقابلے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔ آپ کا رزق تو جنوب میں ہے، یہاں کیا کر رہے ہیں، آپ واپس جائیں۔
میرے لیے پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے یہ جملہ بہت ہی حیران کن تھا اور میں تو بمشکل ملتان سے جان چھڑا کر اسلام آباد میں بہت ہی قلیل عرصے میں اپنے پائوں جما چکا تھا۔ میں نے صرف 3 ماہ میں اسلام آباد اسٹیشن کے تمام معاملات سیدھے کر دیئے تھے۔ تمام کارکنان کی تنخواہیں نہ صرف بروقت کر دی تھیں بلکہ سابقہ رکی ہوئی تنخوائیں بھی ادا کر دیں تھیں اس دوران آزاد کشمیر کے جنرل الیکشن آ گئے تو میں نے اچھا خاصا بزنس چند دنوں میں کر لیا تھا۔ جس کا تمام تر کریڈٹ عرفان قریشی مرحوم کو جاتا تھا جو کہ اب دنیا میں نہیں اور کینسر کے باعث جوانی ہی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گیا۔ میں تو روزانہ کی بنیاد پر اخباری کاغذ کی تمام تر ادائیگی لاہور آفس بھجواتا تھا اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے واپس جنوب کی طرف یعنی ملتان اور اس سے متصل علاقوں میں جانا ہو گا۔ مگر وہی ہوا جو پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک کاغذ پر میرا نام لکھ کر کوئی بھی سوال پوچھے بغیر کہہ دیا تھا۔ ان دنوں جنرل (ر) خالد مقبول چیئرمین نیب تھے جو بعد میں گورنر پنجاب بھی طویل عرصہ رہے۔ میں نے نیب کے حوالے سے ایک خبر شائع کی تو اگلی صبح ایک نیب آفیسر ریٹائرڈ بریگیڈیئر نام مجھے یاد نہیں، البتہ ان کے نام کے ساتھ ڈار لگتا تھا، کی لینڈ لائن پر آنے والے فون کال نے مجھے جگا دیا۔ وہ بہت ہی زیادہ خفا تھے۔ پھر چند ہی دنوں بعد مجھے جناب ضیاء شاہد کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ ایک مجبوری آڑے آ گئی ہے میں آپ کو واپس اسلام آباد سے ملتان ٹرانسفر کر رہا ہوں۔ میں نے غصے میں استعفیٰ لکھ کر بھجوا دیا ۔ استعفیٰ کی اس تحریر پر ہارون الرشید صاحب نے مجھے 100 روپےکے نوٹ پر لکھ کر دیا کہ میں نے اس سے بہتر استعفیٰ نہیں پڑھا۔ اس طرح پروفیسر احمد رفیق اختر کی بات بہت ہی عجیب طریقے سے درست ثابت ہو گئی۔ دوسری بات جو انہوں نے عدنان شاہد مرحوم کے حوالے سے کہی وہ بھی 6 سال بعد درست ثابت ہوئی اور ضیا ء شاہد صاحب کے علاج کے لیے امریکہ جانے والے عدنان شاہد وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پاکستان سے امریکہ ایسے گئے کہ پھر فروری 2007 میں وہیں ان کا انتقال ہوا اور پاکستان میں ان کا جسد خاکی ہی واپس آیا۔ مجھے بھی پروفیسر صاحب نے پڑھنے کے لئے اللہ پاک کے نام بتائے کہ ان کا ورد کریں مگر میں لا پرواہی کرتا رہا۔ پروفیسر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے میرا دوسرا تعارف تو بہت ہی حیران کن تھا جس کی تفصیلات اگلی قسط میں انشاء اللہ (جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں