روزنامہ قوم۔ ملتان۔ سوموار 8 جنوری 2024 کالم بحوالہ ممتاز خان کھچی مرحوم
کارِ جہاں۔ تحریر: میاں غفار
زندگی میں ہزاروں لوگوں سے واسطہ رہا اور ہر روز ہی انسانی جبلت‘ نفسیات و رویوں کے حوالے سے نت نئے تجربات ہوتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ زندگی میں آتے اور ایسے جاتے ہیں کہ یاد ہی نہیں رہتے۔بعض طویل عرصے کیلئے آتے ہیں مگر جلد بھول جاتے ہیں مگر بعض چند ملاقاتوں ہی میں وضعداری اور اپنے کردار کی عظمت کے حوالے سے نہ بھولنے والی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام سابق ضلع ناظم وہاڑی ممتاز خان کھچی کا تھا جو سال نو کی 6 جنوری بروز ہفتہ آسودہ خاک ہوئے۔ میلسی کے معروف کچھی خاندان کے اس باوصف سیاستدان سے میرا مختصر مگر احترام والا رابطہ تھا۔ بطور اخبار نویس ہماری کم ہی سرکاری اداروں سے وابستہ افراد اور سیاستدانوں سے بن پاتی ہے اور میں تو اخبار نویسوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو خبر ضائع نہیں کرتے بندہ ضائع کر لیتے ہیں۔ ممتاز خان کھچی کی موت پر ان سے وابستہ چند یادیں قارئین سے شئیر کر رہا ہوں۔
ممتاز خان کھچی ضلع ناظم وہاڑی تھے، میلسی سے ان کا تعلق تھا۔ میلسی میں ان کے مخالف گروپ نے ان کے خلاف جلوس نکالا جس کی پشت پناہی محمود حیات عرف ٹوچی خان گروپ کے چند لوگ کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک جانور کو کرسی پر بٹھایا اور اس کے گلے میں گتے پر ضلع ناظم وہاڑی لکھ کر تصاویر بنائیں اور اخبارات کو بھجوا دیں۔ ساتھ ہی احتجاج کی خبر بھی بھجوا دی۔ میں اس روز لاہور میں تھا۔ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا دور نہ تھا اور نیوز ایڈیٹر چند منٹ کی فون کال کے ذریعے ہی رابطہ کر کے چیدہ چیدہ خبریں ڈسکس کر لیا کرتے تھے۔ اگلے روز مجھے وہاڑی سے ایک دوست کا ٹیلی فون آیا اور اس نے اس وقت کے ضلع ناظم وہاڑی ممتاز خان کھچی کے حوالے سے خبر اور تصویر پر خاصا اعتراض کیا۔ میں جب دو دن بعد واپس ملتان آیا تو میں نے اخبار منگوا کر دیکھا تو بہت شرمندگی ہوئی۔ وہ تصویر شائع نہیں ہونا چاہیے تھی۔ چیف نیوز ایڈیٹر سے بھی خفگی کا اظہار کیا مگر مجھے کھچی خاندان کی طرف سے کسی بھی قسم کا رد عمل نہ آیا۔ چند ہی دنوں بعد مجھے کسی کام سے وہاڑی جانا پڑا۔ میں تحصیل ناظم وہاڑی میاں ثاقب خورشید کے دفتر میں ان سے گپ شپ لگا رہا تھا کہ اچانک ایک شخص بھاگتا ہوا آیا اور تحصیل ناظم سے کہنے لگا کہ ضلع ناظم صاحب آپ سے ملنے آ رہے ہیں۔ ان دونوں میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ تو تھی مگر بہت اچھے تعلقات نہ تھے حالانکہ سیاسی گروپ ایک ہی تھا۔ میں ذہنی طور پر تیار ہو گیا کہ اب لڑائی نہ بھی ہوئی تو تلخی ضرور ہو گی۔ ممتاز خان کھچی اتنی دیر میں میاں ثاقب خورشید کے کمرے میں آ گئے۔ ان کے بیٹے آفتاب خان کھچی بھی ساتھ تھے اور ان کے علاوہ درجن بھر افراد۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے، اوہ! میاں صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ گلے سے لگایا اور گرم جوشی سے ملے۔ نہ شکوہ نہ شکایت نہ ہی ماتھے پر بل بلکہ حیران کن خندہ پیشانی۔ اپنے بیٹے کہنے لگے آفتاب خان! میاں غفار صاحب سے رابطہ رکھا کرو ہماری سیاست تو پرانی ہو گئی اب نئے سیاسی رجحانات سیکھنے کیلئے ملتان میاں غفار صاحب کے پاس جایا کرو۔ میں کھڑا کھڑا ایک ہی لمحے میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا اور ممتاز خان کھچی ایک بلند اور روشن مینار کی طرح میرے سامنے کھڑے تھے۔ دو دہائیاں بیت گئیں میں ان کے اس منفرد رویے کی چاشنی آج بھی محسوس کرتا ہوں اور آج بھی اس واقعہ کو یاد کرکے احساس ندامت کے حصار میں جکڑ جاتا ہوں۔
میرا چھوٹا بھائی میاں مدثر سول انجینئر ہے اور جب ممتاز خان کھچی چیئرمین ضلع کونسل وہاڑی تھے وہ ڈسٹرکٹ انجینئر وہاڑی تعینات رہا۔ وہ ممتاز خان کھچی کی بہت تعریف کیا کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کا ایک دوست سعودیہ سے پاکستان آیا اور مری جانے کا پروگرام بن گیا۔ اس کے دوست کی فیملی پہلے ہی بھوربن پہنچ چکی تھی اور وہاں کے فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پذیر تھی تو بھائی کو بھی اسے کمپنی دینے کیلئے وہیں ٹھہرنا پڑا۔ دوپہر کے کھانے پر ممتاز خان کھچی سے ملاقات ہوئی۔ سلام کیا خیرت پوچھی اور ممتاز خان کھچی نے اس کے بچوں کو پیار کیا۔ دو روز بعد واپسی پر جب میاں مدثر بل دینے کیلئے کائونٹر پر گیا تو اسے بتایا گیا کہ آپ کا بل تو ادا ہو چکا ہے۔ استفسار پر بتایا کہ ممتاز خان کھچی یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دو دن کا بل ایڈوانس جمع کرا دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر زیادہ دن ٹھہریں تو بھی بل نہیں لینا۔ میاں مدثر تو ضلع ناظم کا ایک ماتحت آفیسر تھا مگر ان کا یاد رکھنا اور احترام دینا یہ کسی اعلیٰ ظرف اور وضعدار انسان ہی کا وصف ہوتا ہے۔
میرے دوست میاں محمد اسلم ملتان میں کنسٹرکشن کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور میلسی کے موضع فدہ ہی کے رہائشی ہیں جو کہ ممتاز خان کھچی مرحوم کا آبائی قصبہ ہے اور جہاں وہ آسودہ خاک ہوئے ہیں۔ میاں اسلم بتاتے ہیں کہ وہ ہر شخص بارے معلومات رکھتے اور انہوں نے باقاعدہ ایک تنخواہ دار بندہ رکھا ہوا تھا جو جہاں بھی اور جس سے بھی ممتاز خان کھچی مرحوم کو ملنے، تعزیت کرنے یا کسی تقریب میں شرکت کیلئے جانا ہوتا تھا وہ مکمل احوال اور تعارف پہلے ہی سے انہیں بتا دیا کرتا تھا اور پھر ممتاز خان نام لے کر مذکورہ شخص، اس کے کاروبار اور بچوں بارے بھی نام لے کر پوچھتے اور واپسی پر لوگوں کے دل بھی جیت کر ساتھ لے آتے۔ ایسے وضعدار سیاستدان ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور دنیا دار سیاستدان ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے ناجائز مقدمات کی سیاست نہیں کی۔ وہ توڑنے کی بجائے جوڑنے کے قائل تھے۔ ویسے بھی جسے اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے وہ یقینی طور پر کرم اور فضل یافتہ ہوتا ہے۔ اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان کرے اور ان کے طرز سیاست کو جاری رکھے ( آمین )۔