آج کی تاریخ

وزیر اعظم پاکستان کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات

وزیر اعظم پاکستان کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات

وزیر اعظم پاکستان کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات

عالمی مالیاتی فنڈ-(آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر، کرسٹالینا جارجیوا، اور پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حالیہ ملاقات نے ملک کی معاشی صورتحال پر گہری بحث کو جنم دیا ہے۔ اس ملاقات میں، جو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے سائیڈ لائنز پر منعقد ہوئی، دونوں قائدین نے معاشی اصلاحات اور پاکستان میں معاشی استحکام کے حصول کے لئے نئے پروگرام پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو بتایا کہ ان کی حکومت ملک کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف کا پاکستان کو گزشتہ سال 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں مدد فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
یہ ملاقات اور اس کے نتائج پاکستان کی معیشت کے لئے ایک نازک موڑ ثابت ہو سکتے ہیں، جہاں مالیاتی نظم و ضبط اور اقتصادی استحکام کا فقدان دیکھا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے، جو کہ میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔
اہم نکتہ جو وزیراعظم شہباز شریف نے اٹھایا، وہ عالمی عدم مساوات کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات، بھوک، غربت اور معیار زندگی میں کمی ایسی مشکلات ہیں جو پہلی دنیا کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک میں دیرپا بن چکی ہیں۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک کی عالمی سطح پر اٹھائی گئی آواز ہے، جو معاشی اور ماحولیاتی عدل کی طلبگار ہے۔
پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ٹیکس نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔ موجودہ ٹیکس سسٹم، جو کہ بنیادی طور پر بالواسطہ ہے، غریبوں پر زیادہ بوجھ ڈالتا ہے جبکہ اشرافیہ اور امیر طبقہ اس سے زیادہ تر محفوظ رہتے ہیں۔ اس کی بجائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ براہ راست ٹیکسیشن کو فروغ دے، جس میں امیر طبقات پر موثر ٹیکس عائد کیا جائے تاکہ مالیاتی دباؤ میں کمی لائی جا سکے اور اس طرح سماجی انصاف کو بڑھاوا دیا جا سکے۔
پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے جامع اور طویل المدتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ساتھ معاشرتی ترقی کے لئے بھی کوششیں شامل ہونی چاہیے۔ عدلیہ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ، حکومت کو بدعنوانی کے خلاف موثر کارروائی کرنی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔

گندم خریداری میں تاخیر: کسانوں کی مایوسی اور حکومتی ذمہ داریاں

پاکستان میں زراعت کا شعبہ اقتصادی ترقی کا اہم ستون ہے، جس کا بڑا دارومدار کسانوں کی محنت اور سرکاری پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ حالیہ واقعات میں، گندم کی سرکاری خریداری میں تاخیر نے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو شدید مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
کسان بورڈ پاکستان کے مطابق، اس احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے کسان بورڈ پنجاب کے سربراہ میاں عبدالرشید کو گرفتار کر لیا ہے اور دیگر رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ اقدامات کسانوں کی مشکلات کا حل پیش کرنے کی بجائے، ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
گندم کی خریداری میں تاخیر کی وجہ سے، کسانوں کو اپنی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں مل رہا، جس سے ان کی معاشی حالت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ حکومت نے گندم کی ایک مقررہ امدادی قیمت مقرر کی ہوئی ہے، لیکن اس قیمت پر خریداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ چیئرمین کسان اتحاد، حسیب انور کا کہنا ہے کہ وہ گندم کی خریداری یقینی بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیں گے۔ اس صورتحال میں کسانوں کا احتجاج ایک جائز ردعمل ہے، جو ان کی معاشی بدحالی اور مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، نگراں حکومت کے دور میں نجی شعبے کے ذریعے ایک ارب ڈالر مالیت کی 34 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے درآمد کی گئی، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مقامی کسانوں کی بجائے درآمدی گندم پر زیادہ انحصار کر رہی ہے، جس سے مقامی کسانوں کی معاشی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات اٹھائے۔ گندم کی خریداری کو یقینی بنانا، امدادی قیمت پر عملدرآمد کرانا، اور کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب دام دلوانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ، کسانوں کی معاونت کے لیے زرعی پالیسیوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کے احتجاج اور حکومت کے ردعمل میں توازن قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ کسانوں کی گرفتاریاں اور ان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے، حکومت کو ان کے مسائل کو سنجیدگی سے سننے اور حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسانوں کے جائز مطالبات کو پورا کرنا نہ صرف ان کی معاشی حالت کو بہتر بنائے گا بلکہ ملک کی زراعت پر مبنی اقتصادی ترقی کو بھی فروغ دے گا۔
اختتاماً، کسانوں کی خوشحالی کو یقینی بنانے اور زراعت کے شعبے کو مزید ترقی دینے کے لیے حکومت کی جانب سے سنجیدہ اور موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ گندم کی خریداری میں تاخیر جیسے مسائل کا حل تلاش کرنا اور کسانوں کی آواز کو اہمیت دینا، پاکستان کے زرعی شعبے کی مستقبلی ترقی کے لیے اساسی ہے۔
اس طرح، آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات کے نتائج کو پاکستان کی معاشی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے، اقتصادی اصلاحات کو تیز کرنے، اور عالمی معاشی عدم توازن کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
چینی برآمد پر پابندی: حکومتی فیصلہ اور کسانوں کے حقوق کی پذیرائی
وفاقی حکومت کا چینی کی برآمد نہ کرنے کا فیصلہ پاکستانی عوام اور کماد کے کاشتکاروں کے لیے ایک خوش آئند اقدام ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ملکی سطح پر چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی کوشش ہے بلکہ یہ بھی ایک مثالی قدم ہے کہ حکومت عوامی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔
شوگر مل مالکان کی طرف سے چینی کی قیمتوں کو نہ بڑھانے کی کوئی یقین دہانی نہ ملنے کی صورت میں، حکومت نے بروقت اور دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے چینی کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ یہ اقدام نہ صرف مقامی مارکیٹ میں چینی کی دستیابی کو یقینی بناتا ہے بلکہ اس کے زریعے چینی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کا بھی سدباب ہوتا ہے۔
برآمد کی اجازت دینے کی خبروں کے باعث مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، جس سے عام صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہوتا۔ تاہم، حکومتی فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انتظامیہ مقامی ضروریات کو عالمی مارکیٹ کے فوائد پر فوقیت دے رہی ہے، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ وہ کماد کے کاشتکاروں کے مفادات کی بھی حفاظت کرے۔ کاشتکاروں کو شوگر ملوں کی طرف سے ان کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے چاہیے۔ کسانوں کو ان کی محنت کا صحیح دام دلانا نہ صرف ان کی معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے زرعی شعبے کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔
یہ وقت حکومت کے لیے ایک امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ کس طرح کسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور کس طرح انہیں ان کی محنت کا مناسب صلہ دلواتی ہے۔ چینی کی برآمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلا قدم تو صحیح اٹھایا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کی اقتصادی خودمختاری اور مالی استحکام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
اختتامی طور پر، حکومت کا یہ فیصلہ نہ صرف مقامی مارکیٹ کو استحکام دینے میں مددگار ہوگا بلکہ یہ کسانوں کے لیے بھی ایک حوصلہ افزا پیغام ہے کہ ان کی محنت کی قدر کی جائے گی اور انہیں مارکیٹ کے حالات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔ اس فیصلے کے ذریعے حکومت نے عوامی مفادات کو تجارتی فوائد پر ترجیح دی ہے، جو کہ ہر اعتبار سے ستائش کے قابل ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں