آج کی تاریخ

وزیراعظم پاکستان کا عشائیہ

وزیراعظم پاکستان کا عشائیہ

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ رات اتحادی جماعتتوں کے اراکین اسمبلی اور قیادت کے اعزاز میں وزیراعظم ہاؤس میں پرتکلف عشائیہ دیا گیا- اس دعوت شیراز کو ایک ایسے موقعہ پرمنعقد کیا گیا جب پاکستان اس وقت سے کہیں زیادہ مالی مشکلات کا شکار ہے جتنا وہ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کے وقت انھوں نے سرکاری دفاتر اور محکموں میں سادگی کی پالیسی دی تھی اور نجی ہوٹلوں یا کرائے پر ہال بک کرکے کانفرنسز کے انعقاد پر اور ہر طرح کی تقریبات میں کھانے پر پابندی لگائی جانا بھی اس پالیسی میں شامل تھی- اگرچہ سادگی کی اس پالیسی پر نہ خود وزیراعظم عمل کرسکے تھے اور نہ ہی وزراء و سرکاری بابوؤں نے پرواہ کی تھی لیکن اس مرتبہ تو آغاز ہی میں حکومتی خرچے سے شاہانہ ڈنر تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس تقریب کے انعقاد سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نئی حکومت کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا ہے۔ یقینی بات ہے ایک خطیر رقم اس تقریب کے انتظامات پر خرچ کردی گئی ہوگی اور یہ رواں سال کے مالیاتی بجٹ پر اور بڑا بوجھ ہے جس میں رکھے گئے گئے حکومتی اخراجات پہلے ہی گزشتہ سال کی نسبت 26 فیصد زیادہ ہوچکے ہیں- کیا وفاقی حکومت اور سرکاری بابو عوام کے ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی اور مقامی بینکوں سے بلند شرح سود پر لیے گئے بھاری قرضوں سے جمع ہونے والی رقم کو غیر ضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں اڑانے سے اپنے آپ کو روک پائیں گے؟ حیرت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان گزشتہ رات قومی حزانے پر بوجھ بننے والی ایک تقریب میں ہی یہ دعوا بھی کررہے تھے کہ وہ کئی کئی گھنٹے اور دن رات معشیت کی ابتری کے خاتمے کے لیے کام کررہے ہیں۔ وہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اتارنے کا سب سے سیدھا حل یہ بتا رہے تھے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی- تیل، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا- ظاہر ہے نجکاری سے بے روزگاری اور قیمتیں بڑھانے سے پہلے سے غربت کی چکی میں پس رہے لوگ اور نیچے جائیں گے۔ جب حالات اتنے خراب ہیں تو ایسے میں ایوان وزیراعظم می اتنی بڑی شاہانہ تقریبات کے انعقاد کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ ہم وزیراعظم پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ حکومتی اخراجات پر سخت قسم کی کٹوتی پالیسی کا نفاذ کریں اور مثال قاغم کریں کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ معشیت کے بوجھ میں اپنا حصّے کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔

آئی ایم ایف مشن پاکستانی کی مذاکراتی ٹیم کا منتظر

عالمی مالیاتی فنڈ – آئی ایم ایف ایک بار پھر اس وقت میڈیا کی نظروں کا مرکز بن گیا جب آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکشن نے میڈیا کو پریس بریفینگ دیتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف اس بات کا منتظر ہے کہ نئی حکومت کے سربراہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کب آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے کمیٹی بناتے ہیں- آئی ایم ایف کی طرف سے یہ بیان نئی حکومت کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ -ایس بی اے کے دوسرے جائزے کے عمل میں شریک ہونے کا اشارہ ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب میڈیا میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے کئے خط کے بعد شاید آئی ایم ایف نئی حکومت سے بات چیت نہ کرے – اس بیان کے بعد کم از کم یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کو نئی تشکیل پانے والی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ گیند اب نئی حکومت کے کورٹ میں ہے جس نے ابھی تک اپنی معاشی ٹیم کا اعلان نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ فیصلہ ہوسکا ہے کہ نئی حکومت کی کابینہ میں وزیر خزانہ کا قلمدان کس کے پاس ہوگا؟ اگرچہ حبیب بینک کے سی ای او اورنگ زیب خان کا نام میڈیا رپورٹس میں آیا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کا تعلق نیا نہیں ہے – پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرض پروگرام 1952ء میں حاصل کیا تھا اور اپریل 2023ء میں اس نے 32 واں پروگرام حاصل کیا- پاکستان نے زیادہ تر سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام حاصل کیے اور پھر ان میں سے کئی ایک توسیعی فنڈ سہولت – ای ایف ایف ز اور ایس بی اے پروگرام تھے۔ آخری پروگرام اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ – ایس بی اے کے تحت ارب 90 کروڑ ڈالر قرض لینے کا معاہدہ تھا جو آنے والے اپریل میں تکمیل کو پہنچ جائے گا- اس معاہدے کے تحت اب آخری قسط جاری ہونی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد پاکستان کی معشیت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا اور آبادی کے معاشی ابتری کے سب سے زیادہ متاثر حصّوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا- پاکستان معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرتا رہا ہے۔ لیکن ان معاہدوں میں جو دور رس اصلاحات کے وعدے کیے جاتے رہے وہ کسی بھی حکومت نے پورے نہیں کیے۔
ڈائریکٹر کمیونیکشن آئی ایم ایف نے میڈیا کو بریفینگ دیتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف کا مرکزی فوکس پاکستان کے میکرواکنامک اشاریوں کو بہتر بنانا ہے- انھوں نے نگران حکومت کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ دور رس سٹرکچرل اصلاحات کی طرف نگران حکومت نے بھی کوئی پیش رفت نہیں کی- وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور فنانس ڈویژن کے حکام کی اب تک کی بات چیت سے یہ پتا چلا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے توسیعی فنڈ سہولیات – ای ایف ایف پروگرام پر بات کرنے کی خواہش مند ہے اور اس مد میں وہ 6 بلین ڈالر اور بعض خبروں کے مطابق 8 بلین ڈالر قرض حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نئی حکومت بھی آئی ایم ایف پر انحصاریت کے ساتھ معاشی معاملات چلانا چاہتی ہے۔ اس کی طرف سے اب تک کوئی ایسا پلان سامنے نہیں آیا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ ملک کو بیل آؤٹ پیکجز اور عارضی قرض سہولتوں جیسے ناپسندیدہ اور عوام پر عذاب ڈھانے والے قڑصوں سے نجات کیسے دلا پائے گی-
ناقدین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام فوری اور عارضی سکون کا سانس تو بحال کرتے ہیں لیکن اکثر وہ انتہآئی سخت ترین شرائظ کے ساتھ یہ مسکن آور دوا فراہم کرتے ہیں- ایسے عارضی سکون کے معشیت اور سماج پر بہت گہرے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں- ان ّروگراموں میں عمومی طور پر حکومتیں ایسی کٹوتیاں کرتی ہیں جن کا تعلق سراسر نچلے درمیانے اور غریب طبقات سے ہوتا ہے جن کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔ جبکہ اکٹر جہاں جمہوریت کمزور ہو یا اشرافیہ کے قبضے میں سیاسی جماعتیں ہوں وہاں ایسے کٹوتی پروگرام عوام کی آمدنی کا بڑا حصّہ کھا جاتے ہیں اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہوتی ہے -کچھ ایسا ہی ہم پاکستان میں ہوتا دیکھ رہے ہیں- حکومت کا کٹوتی پروگرام صرف و صرف عام آدمی کی آمدن پر کلہاڑا بن کر چل رہا ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے پروگرام اس لیے بھی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں کہ کسی بھی حکومت نے پروگرام کے تحت ملنے والے قرضے سے حاصل ہونے والے ریلیف کے وقفے میں نہ تو ملیاتی ڈسپلن/ نظم و ضبط قائم کیا، نہ اداروں ميں سٹرکچرل پروگرام پر عمل درآمد ہوا۔ وزیر اعظم شہباز شریف بار بار پی آئی اے 825 ارب قرض کا زکر تو کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ اور ان کے حکمران اتحادی (ایسے ہی اپوزیشن پر بیٹھی جماعتیں) کم از کم 90ء کی دہائی سے لیکر ابتک بار بار برسراقتدار آئیں اور آئی ایم ایف سے قرض پروگرام سائن بھی کیے لیکن کسی نے بھی سرکاری انٹرپرائز میں اصلاحات کرکے ان کے قرضوں کا بوجھ کم نہ کیا-
ہم انتہائی ناگواری کے ساتھ یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ ابھی تک نئی تشکیل پانے والی حکومت نے اشارے سے بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ اس مسئلے کا دیرپا حل کیا نکالنے جا رہی ہیں؟۔

ویسٹ مینجمنٹ بوجھ کیوں بن رہا ہے؟

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات نے ‘گلوبل ویسٹ منیجمنٹ آؤٹ لک 2024ء رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر عالمگیر پیمانے پر کوڑا کرکٹ پیدا کرنے کی رفتار کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کے دنیا بھر میں انتہائی خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق 2023ء میں عالمی سطح پر 2 ارب 23 کروڑ ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوا ہے اور یہ 2050 تک 3 ارب 80 کروڑ ٹن تک پہنچ جائے گا- کوڑا کرکٹ کے حجم میں اضافہ ویسٹ مینجمنٹ آپریشن کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ تو کر ہی رہا ہے ساتھ ساتھ یہ اس کے ساتھ پدا ہونے والے دوسرے مسائل جیسے آلودگی پھینے کا مسئلہ، زیر زمین سییوریج اور واٹر سپلائی کی لائنوں کے بند ہونے جیسے مسائل پیدا کر رہا ہے جس سے کئی اور شعبوں کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں میونسپل سطح پر ویسٹ منیجمنٹ شعبہ یا کمپنیاں 38 فیصد کوڑا کرکٹ کو ٹھیک طریقے سے ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہی نہین ہوئی – اور اس سے ماحولیاتی و صحت خطرات بڑھ گئے۔ رپورٹ کوڑا کرکٹ کو اٹھاکر ڈسپوز کرنے کی بجائے اسے ری یوز، ری سائیکل کرنے پر زور دیتی ہے اور اس طرح سے سالانہ 108 ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں