آج کی تاریخ

وبائی نمونیا: حکومت پنجاب کب حرکت میں ائے گی؟

وبائی نمونیا: حکومت پنجاب کب حرکت میں ائے گی؟

پنجاب میں بالعموم اور جنوبی پنجاب میں بالخصوص نمونیا کی وبا چھوٹے بچوں پر اپنے وار جاری رکھے ہوئے ہے – روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق صرف چلڈرن ہسپتال ملتان کے ترجمان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال میں صرف 2 ماہ 18 دن میں ایک ہزار اٹھاون بچے نمونیا وبا سے متاثر ہوکر ہسپتال داخل ہوئے جن میں سے 58 بچوں کی جان چلی گئی – جبکہ گزشتہ سال کے اخری 4 مہینوں میں 7 ہزار سے زائد بچے نمونیا انفیکشن کے سبب چلڈرن ہسپتال ملتان میں داخل ہوئے تھے۔ اگر جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن میں سرکاری ہسپتالوں میں نمونیا وائرس سے چھوٹے بچوں کے متاثر ہونے اور ان میں سے اس بیماری میں جان سے اہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے بارے محکہ صحت نے فروری کے آخری ہفتے میں جو اعداد وشمار جاری کیے تھے ان کے مطابق پنجاب بھر میں ایک ماہ 20 دن میں 479 کے قریب چھوٹے بچے موت کا شکار ہوئے تھے جبکہ ہسپتالوں میں نمونیا کا شکر ہوکر داخل ہونے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں تھی- ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب میں فضائی آلودگی جس بدتر طریقے سے موجود ہے اس کی وجہ سے بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کے لیے لگائی جانے والی حفاظتی ویکسین بھی کام کرنا چھوڑ گئی ہے۔ اس وقت پاکستان کو نمونیا کے طاقتور وائرس سے مقابلہ کرنے کی استعداد رکھنے والی ویکسین کی ضرورت ہے جو فی الحال تو حکومت مہیا نہیں کرسکی ہے۔ پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب میں فضائی الودگی میں اضافہ کرنے والے کارخانے، فیکٹریاں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اور زگ زیگ ٹیکنالوجی سے کریزاں اینٹیں تیار کرنے والے بھٹّے ان سب کے خلاف تاحال حکومت کے متعلقہ اداروں کی سرگرمیاں تسلی بخش نہیں ہیں ۔ وہ آلودگی کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے مسلسل گریزاں نظر آتے ہیں- محکمہ تحفظ ماحولیات اندھا دھند این او سی جاری کرنے کی مشین بن گیا ہے۔ ہر آلودگی پھیلانے والی فیکٹری ، کارخانے، اور پروجیکٹ کے پیچھے اس ی ادارے کے این او سی پائے جاتے ہیں- یہ ماحولیاتی اسسمنٹ رپورٹ جاری کرنے میں اکثر فواعد و ضوابط کو نظر انداز کرجاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے ترقیاتی ادارے مسلسل جنگلات کو کاٹے جانے، زرعی رقبوں کو ختم کیے جانے اور باغات کو ختم کرکے رہائشی کالونیوں کی تعمیر کو جاری رکھنے کی روش کا خاتمہ کرنے میں یکسر ناکام ہیں- ان سب اداروں کی نا اہلی کا خمیازہ جنوبی پنجاب کا عام آدمی بھگت رہا ہے۔ عام آدمی کے چھوٹے چھٹے بچوں تک کو اداروں کی غفلت، ان اداروں میں اوپر سے نیچے بیھٹے بدعنوان اہلکاروں کی ہوس زر کی قیمت اپنی جانوں سے چکانا پڑ رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں معصوم بچے فضائی الودگی کے سبب سانس کی جان لیوا انفیکشن میں مبتلا ہورہے ہیں اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں- ایک طرف تو جنوبی پنجاب میں ڈسٹرکٹ ، تحصیل اور ٹاؤن سطح پر ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیوز اور آر ایچ ایس سطح پر نمونیا کے طاقتور وائرس کے شکار بچوں کے اندر سریئس کیسز سے نمٹنے کی سٹیٹ آف دا آرٹ سہولت موجود نہیں ہے ، دوسرا ملتان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن کے دو واحد چلڈرن ہسپتالوں میں گنجائش انتہائی کم ہے ، ایسی صورت حال میں نمونیا کی طاقتور وآئرل انفیکشن کا شکار معصوم بچے بس خدا کے سہارے ہوتے ہیں اور ان میں سے بہت سارے زندگی کی بازی ہارے جاتے ہیں- حکومت پنجاب اسموگ ، آلودگی کے خلاف کاروائی کے دعوے تو بڑے بڑے کرتی رہی رہتی ہے اور نمائشی اقدامات پر فنڈز لگانے کی روایت سے ہٹ جانے کا خیال تک نہیں آتا- لیکن کیا وہ محکمہ تحفظ ماحولیات ، ضلعی انتظامیہ ، ترقیاتی اداروں کے مجاز حکام اور محکمہ صحت کے ذمہ داران کو باہم مل کر ایک مربوط پالیسی اور اس کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کر پائے گی؟

ای – کامرس میں لاقانونیت کا خاتمہ کب ہوگا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی – پی ٹی اے نے 6 سال پہلے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ڈیوائس شناخت ، رجسٹریشن اور بلاکنگ سسٹم متعارف کرایا تھا جس کا مقطصد ٹیلی کام شعبے میں غیرقانونی حرکات کی روک تھام تھا- پی ٹی اے نے اس سسٹم کو نافذ کرتے وقت اسمگل شدہ، چوری کرلیے گئے اسمارٹ فونز کے استعمال کو اچھے سے روکنے کے دعوے بھی کیے تھے۔ پی ٹی اے نے حکومت پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ اسمگلنگ کی گئی ڈیوائسز پر ٹیکس جمع کرانے کی روش میں اس اقدام سے بہت زبردست طریقے سے بدلاؤ آئے گا اور حکومتی آمدنی میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملے گا- آج چھے سال کے بعد جب جائزہ لیا جا رہا ہے تو پتا چلا ہے کہ قومی حزانے کو اب بھی ان مصنوعات کی وسیع پیمانے پر اسمگلنگ کی وجہ سے خاصے نقصانات کا سامنا ہے۔
ای- کامرس کی صنعت کا دائرہ کار جیسے وسیع ہوا ہے ویسے ہی ای – کامرس کی صنعت کو اسمارٹ فونز کی غیرقانونی خرید و فروخت کے لیے استعمال کرنے کے رجحان میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی ایک معروف ای -کامرس نام مبینہ طور پر غیر قانونی اور پی ٹی اے سے غیر منطور شدہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ وغیرہ فروخت کررہے ہیں- صارفین آن لائن ان ڈیوائسز کو بنا حکومت کو ٹیکس ادا کیے خرید سکتے ہیں- ان ڈیوائز کی خرید فو فروخت پر 6 ماہ کی وارنٹی بھی دی جا رہی ہے۔ اس سے حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکس مد میں نقصان پہنچ رہا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ سام سنگ اور اپیل جیسے معتبر ناموں کے مستند ای-سٹور بھی پی ٹی اے سے غیر منظور شدہ ڈیوائسز کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں- ان سرگرمیوں پر متعلقہ سرکاری ادارے اور حکام کی توجہ بالکل نہیں ہے یا پھر اندر سے کچھ کالی بھیڑیں اس غیرقانونی دھندے میں ملوث ہیں- بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز کا دعویٰ ہے کہ “ان کے پاس فروخت کنندگان کے لیے سخت پالیسی ہدایات ہیں”، جنہیں مبینہ طور پر صرف ان کی کاروباری تفصیلات کی مناسب تصدیق کے بعد مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت ہے تاکہ ان کی اصلیت کو یقینی بنایا جا سکے، لیکن یہ واضح ہے کہ جب مہنگے اسمارٹ فونز کی فروخت کی بات آتی ہے تو، یہ بات یقینی ہے کئی منافع کی ہوس میں مبتلا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں-
وفاقی بوررڈ آف ریونیور – ایف بی آر کی کارکردگی پر یہاں سب سے بڑا سوال اٹھتا ہے۔ اس نے یا تو اپنی ذمہ داری سے غفلت برتی ہے یا دیکھے کو ان دیکھا کردیا ہے یا پھر اس کے افسران و اہلکار اس غیرقانونی ای-کامرس میں ملوث ہیں- سبب کوئی ہو ایک بات واضح ہے کہ ایف بی آر اسمگل شدہ اسمارٹ فونز کی خرید و فروخت کے کاروبار کرنے والوں کے دلوں میں نہ تو قانون کا خوف بٹھا سکا نہ ہی انہیں پکڑ سکا ہے۔ کیا یہاں کچھ سوالات اٹھانا مناسب نہیں ہوگا؟ ایف بی آر نے ہر شعبے، بشمول ان لینڈ ریونیو سروس اور کسٹمز، نے اسمگلنگ کے خلاف یونٹس قائم کیے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان اداروں کو چلانے پر قیمتی مالی وسائل خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے اور ان میں عملہ کیا کام کر رہا ہے اگر اسمگل شدہ اسمارٹ فونز کو آن لائن کھلے عام تجارت کی جا رہی ہے۔ ایف بی آر اور اس کے مختلف بازوؤں کی صلاحیتوں کے بارے میں جائز سوالات اٹھتے ہیں کہ وہ ڈیجیٹل عہد کی چیلنجوں کا سامنا کر سکتے ہیں، جو جامع اصلاحات اور جدید ٹیکنالوجی کی ترقیوں کے مطابق ڈھلنے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں-
دسمبر 2023ء میں وفاقی حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اسمگلرز اور ڈیلرز کے ایک قومی نیٹ ورک کا پتہ لگایا تھا، جنہیں مختلف محکموں، بشمول ایف بی آر، ایف آئی اے، پولیس، ایف سی اور پی آئی اے کے اہلکاروں کی مدد حاصل تھی،ے۔ واضح ہے کہ ان محکموں سے بدعنوان عناصر کو ختم کرنے کے لیے اس کے بعد سے کوئی معنی خیز کارروائی نہیں کی گئی ہے، جبکہ اسمارٹ فونز کی اسمگلنگ بے روک ٹوک جاری ہے۔ اگر کبھی ہماری حکومت کے محکموں میں بدعنوانی کے اثرات کے بارے میں کوئی شک تھا، بشمول ہماری معیشت پر، تو ایسی خبریں انہیں دور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فوری طور پر ضرورت ہے کہ ای کامرس پلیٹ فارمز پر اسمگل شدہ اسمارٹ فونز کی فروخت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، جس کے لیے ریگولیٹری باڈیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بڑھتی ہوئی نگرانی، ایسے آلات کی آن لائن فروخت پر پابندی لگانے والی پالیسیوں کو مضبوط بنانے، خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے واضح سزائيں، بشمول ای کامرس ویب سائٹس اور فروخت کنندگان کے لیے، اور مشکوک لسٹنگز یا فروخت کنندگان کی اطلاع دینے کے طریقوں کی فراہمی کے ذریعے لین دین میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے محکموں کی صلاحیت، بشمول ایف بی آر، کو ڈیجیٹل نوعیت کے جرائم سے نمٹنے میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ان اداروں سے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ہماری معیشت کی حالت یہ نہیں ہے کہ حکام اسمگل شدہ اسمارٹ فونز کی غیر محدود تجارت کو برداشت کریں۔ ضروری ہے کہ وہ اس غیر قانونی سرگرمی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور آن لائن مارکیٹ اسپیس اور حکومتی آمدنی کی سالمیت کی حفاظت کریں#

شیئر کریں

:مزید خبریں