واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی – واسا ملتان میں گزشتہ روز ایک اور دھماکہ خیز پیش رفت سامنے آئی، جب ڈائریکٹر ورکس ملک محمد عارف عباس کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ ان کی جگہ ڈائریکٹر انجینئرنگ محمد منعم سعید کو ورکس ڈیپارٹمنٹ کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے، جبکہ عارف عباس کو ڈپٹی ڈائریکٹر سیوریج ڈویژن (جنوبی) واسا تعینات کر دیا گیا
یہ تبدیلیاں ڈی جی ایم ڈی اے واسا ملتان رانا محمد سلیم کے 21 جنوری 2025ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت کی گئیں۔ تاہم، ان تبدیلیوں کے پیچھے کرپشن، بوگس ادائیگیاں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری پروجیکٹس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کے الزامات کی ایک گہری کہانی چھپی ہوئی ہے۔

“واسا کی طاقتور ٹرائیکا”: تین افسران پر سنگین الزامات

ملک محمد عارف عباس، عبدالسلام اور محمد سعید ڈوگر کو واسا ملتان کی “طاقتور ٹرائیکا” کہا جاتا تھا، لیکن ان تینوں افسران پر کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی تبادلوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
یہ الزامات سابق ایم ڈی واسا ملتان محمد دانش کے دور سے جڑے ہیں، جب ان تینوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
محمد سعید ڈوگر: ڈائریکٹر ایڈمن کے طور پر تعینات کیے گئے اور بعد میں متنازع نوٹیفکیشن کے ذریعے ڈائریکٹر فنانس بن گئے۔

عبدالسلام: ڈائریکٹر ریکوری مقرر کیے گئے اور ان پر کرپشن کے الزامات ہیں۔
عارف عباس: ڈائریکٹر ورکس کے طور پر تعینات کیے گئے اور مبینہ طور پر ٹھیکوں میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب قرار پائے۔
سابق ایم ڈی محمد دانش کی تقرریاں اور تبادلے لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں چیلنج کیے گئے، جس پر عدالت نے ایچ یو ڈی پنجاب کے سیکرٹری کو معاملہ سن کر فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔ انکوائری کے بعد، ڈی جی ایم ڈی اے رانا محمد سلیم نے ان تبادلوں کو غیر قانونی قرار دیا۔
کرپشن کی داستانیں: ترقیاتی منصوبے بدعنوانیوں کی بھینٹ چڑھ گئے
واسا ملتان میں 2021-22 کے دوران شروع کیا گیا دو ارب روپے مالیت کا واٹر سپلائی لائنز کی تبدیلی کا میگا پروجیکٹ مبینہ کرپشن کی نذر ہو گیا۔
غیر معیاری پائپ استعمال کیے گئے، جن کی وجہ سے آج بھی پانی کے سپلائی نیٹ ورک میں بار بار رکاوٹیں اور لیکج ہوتی ہیں۔
نئے ٹرانسفارمرز اور موٹروں کی تنصیب کے لیے مختص تین کروڑ روپے کا منصوبہ بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔
پیٹرول اور ڈیزل کے غیر معمولی اخراجات کے تحت فیول کھپت کے اعدادوشمار بھی متنازع رہے ہیں، جو اب نصف رہ گئے ہیں۔
ان کرپشن کے الزامات پر تحقیقات اینٹی کرپشن ملتان کے سپرد کی گئیں، لیکن دو سال گزرنے کے باوجود کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
افسران کی باہمی محاذ آرائی: الزامات کی گھن گرج
واسا ملتان کے اندرونی اختلافات اور افسران کی باہمی محاذ آرائی نے محکمے کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔
سابق ڈائریکٹر انجینئرنگ عبدالسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ پروجیکٹ کی بوگس ادائیگیوں کے ذمہ دار نہیں، بلکہ ان کے بعد تعینات ہونے والے افسران کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
دوسری جانب، موجودہ ڈائریکٹر انجینئرنگ منعم سعید نے کہا کہ وہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد تعینات ہوئے، لہٰذا ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
فنانس ڈیپارٹمنٹ پر بھی بوگس ادائیگیوں اور غیر قانونی سیکورٹی ریفنڈز کے الزامات ہیں، لیکن اب تک ان الزامات کی تحقیقات مکمل نہیں کی جا سکی۔
پنجاب حکومت کی کارروائیاں اور پیڈا ایکٹ کا اطلاق
حکومت پنجاب نے ایک اور انکوائری کی روشنی میں عبدالسلام، عارف عباس اور محمد سعید ڈوگر کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
ان پر عدالت کو جعلی نوٹیفکیشن کے ذریعے گمراہ کرنے اور دو ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات ہیں۔
ڈی جی ایم ڈی اے واسا ملتان، رانا محمد سلیم، اس کارروائی کے ذمہ دار افسر مقرر کیے گئے ہیں۔
واسا ملتان: ایک ادارہ عوامی اعتماد سے محروم
واسا ملتان، جس کے ذمے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے مسائل حل کرنا ہیں، عوامی اعتماد سے مسلسل محروم ہوتا جا رہا ہے۔
ناقص کارکردگی، کرپشن اور غیر معیاری ترقیاتی کاموں نے شہریوں کو مایوس کر دیا ہے۔
شہری واسا کے مکمل اسپیشل آڈٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن پنجاب حکومت اس پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔
نتیجہ: کیا واسا اصلاحات کے قابل ہے؟
واسا ملتان اس وقت سنگین بحران کا شکار ہے۔ ایک جانب کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کا سامنا ہے، تو دوسری جانب محکمے کے اندرونی اختلافات اور انتظامی ناکامیاں اصلاحاتی عمل میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
کیا واسا ان مسائل پر قابو پا کر ایک شفاف اور مستحکم ادارے کے طور پر ابھر سکتا ہے؟ یا یہ بحران مزید گہرے ہوتے جائیں گے؟ یہ سوالات وقت کے ساتھ جواب طلب رہیں گے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ شہریوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے واسا کو فوری اور موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔