وارڈن سسٹم سے اتھارٹیز تک شاہانہ اخراجات عوام سے پورے کرنے کی خفیہ پالیسی نافذ

لاہور (تجزیاتی رپورٹ: میاں غفار) عوام الناس کیلئے جرمانوں میں اچانک کئی گنا اضافہ، موٹر سائیکل سواروں میں دو ہزار کا ہیلمٹ فروخت کرنے کی آگاہی مہم کے لیے چند ہفتوں کی چھوٹ دینے کےبجائے ہیلمٹ نہ پہننے پر دو ہزار روپے فی کس جرمانہ اور مقدمہ، یہ کوئی فوری فیصلہ نہیں بلکہ یہ سالہا سال قبل طے ہونے والی ایک منظم پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز ہے جس کا ادراک ابھی تک عام پاکستانی کو نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں بسنے والوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان کے حکمرانوں، جملہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی کو کئی سال پہلے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ دنیا بھر سے اب مزید نہ تو کوئی امداد ملے گی اور نہ ہی آسان شرائط پر قرضے مل سکیں گے بلکہ قرض دینے والے عالمی ادارے زیادہ پوچھ گچھ کریں گے اور بتدریج شرائط سخت کرتے جائیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی ساکھ دنیا بھر میں برباد کرکے رکھ لی ہے اور ہمارے گنے چنے سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں ،بیوروکریٹس اور ان کی اولادوں کو جس قسم کی پرتعیش زندگی گزارنے کی عادت پڑ چکی ہے، اس میں تو کسی طور پر کمی نہیں ہو سکتی، وہ اپنے لائف سٹائل پر تو کسی بھی طرح کی قدغن لگا نہیں سکتے اور نہ ہی اس حوالے سے اپنی ذات سے کوئی سمجھوتہ کر سکتے ہیں لہٰذایہ طے پا چکا تھا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ نچوڑا اور انہی کا عرق نکالا جائے۔ یہی وہ پالیسی ہے کہ جس کے تحت سرکاری ڈیپارٹمنٹس کو بتدریج ختم کر کے خود مختار ادارے یعنی اتھارٹیز اور ایجنسیز بنائی جا رہی ہیں۔ حکمرانوں کے عزائم بتا رہے ہیں کہ محکمہ پولیس، ریونیو اور انتظامیہ کو اپنے پاس رکھ کر باقی تمام محکمے مستقبل میں ٹھیکیداری نظام کے تحت ہی چلائے جائیں گے اور حکومت انہیں کسی بھی قسم کے کوئی فنڈز نہیں دے گی حتیٰ کہ تنخواہیں اور پنشن بھی نہیں ملےگی۔ اس طرح کے قائم کردہ تمام خود مختار ادارے، اتھارٹیز اور ایجنسیز اپنی تنخواہوں اور دیگر اخراجات، پنشن اور دیگر سہولیات و لوازمات عوام سے وصول شدہ بلوں اور جرمانوں کی رقم سے پورا کریں گی جس کا ابتدائی طور پر کامیاب تجربہ ٹریفک پولیس کو ختم کرکے وارڈن سسٹم کے قیام، موٹروے پولیس اور ہائی وے پولیس کا خود ساختہ اور خود انحصاری کا نظام کامیابی سے چلا کر پہلے سے ہی کر لیا گیا تھا۔ اسی پالیسی کے دوسرے مرحلے میں محکمہ ہیلتھ اور ایجوکیشن کو بتدریج پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے اور اربوں روپے مالیت کی کمرشل اراضی پر موجود سرکاری تعلیمی ادارے مرحلہ وار نجی شعبے کو دینے کا منصوبہ پہلے ہی سے عمل درآمد کے مراحل میں ہے۔ پہلے مرحلے میں بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت بتدریج خود مختار بنائے جا رہے ہیں اور مرحلہ وار سکول بھی نجی شعبے کے پاس جا رہے ہیں۔ 1998 میں پنجاب یونیورسٹی کی 60 مربع اراضی پر کمرشل سنٹر بنانے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا اور پنجاب یونیورسٹی کو رائیونڈ روڈ پر شہر سے باہر شفٹ کیا جانا تھا اور وہ معاملہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھا اس کا فریم ورک تیار ہو رہا تھا کہ حکومت تبدیل ہو گئی اور پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس طرح پنجاب یونیورسٹی رائیونڈ روڈ پر منتقل نہ کی جا سکی۔ خود مختار ادارے اور اتھارٹیز بنانے کا 100 فیصد نقصان تو عوام کو اٹھانا پڑتا ہے مگر فائدہ بیوروکریسی اور سیاست دان کو ہوتا ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ اداروں میں اکاموڈیٹ کیا جا سکتا ہے اور بیوروکریسی کے لیے نت نئی اسامیاں پیدا کی جا سکتی ہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست دانوں کی تعلیمی کمزوریوں کا سب سے زیادہ فائدہ بیوروکریسی نے اٹھایا ہے۔ ہر آنے والے دن میں بیوروکریسی نے خود کو مضبوط اور اپنے نیٹ ورک کو زیادہ منظم کیا ہے۔ اس تمام صورتحال کا سب سے توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ خالص سرکاری محکمہ جات میں بھرتی کا طریقہ کار اچھا خاصا مشکل اور پیچیدہ ہے پھر اس کے لیے پبلک سروس کمیشن سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایک باقاعدہ امتحانی پراسس کے بعد ملازمت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر ، کمشنر یا سیکرٹری لامحدود اختیارات کے باوجود سرکاری محکمے میں اپنی پسند کے بندے بھرتی نہیں کر سکتا مگر جب وہی کسی خود مختار ادارے کا سربراہ ہوتا ہے تو اس کے پاس گریڈ ایک سے لے کر گریڈ 19 تک ہر طرح کی آسانی پیدا کرنے اور ان پر اپنی پسند کے بندے بھرتی کرنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے پنجاب کی کسی بھی یونیورسٹی کے ایکٹ اور قانون میں ڈائریکٹر جنرل کی کوئی اسامی نہیں ہے اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کسی ایسی اسامی کو منظوری کے مرحلے سے گزارا ہے مگر پنجاب ہی کی یونیورسٹی میں وائس چانسلر نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ڈی جی کا عہدہ تراش کر اپنے من پسند بندے کو اکاموڈیٹ کر لیا۔ خود مختار ادارے کے سربراہ کےپاس اس طرح کے بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں جن کا سرکاری محکموں میں تصور بھی محال ہے لہٰذاعوام خاطر جمع رکھیں اب اشرافیہ کے اخرجات کا بوجھ انہیں ہی اٹھانا پڑے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں