آج کی تاریخ

Let him die in the chair

نیب ۔۔ کبھی حاضر کبھی غیب ( قسط اول )

تحریر:میاں غفار(کار جہاں)

ایک مرتبہ پھر نیب کے پنجے تیز کئے جانے اور بلا امتیاز کڑے احتساب کی نوید سنائی جا رہی ہے اور یہ آخری موقع ہے کہ پھر شائید کچھ بھی باقی نہ رہے اور پھر شائید ایسا موقع بھی دوبارہ نہ آئے۔ بہت سال قبل ایک انگریزی فلم دیکھی تھی جس کا نام تو یاد نہیں مگر لب لباب یہ تھا کہ ایک جزیرہ ہے جہاں چند لوگ قابضین ہیں جبکہ باقی سارے کے سارے شہری صبح سورج نکلنے سے رات کے اندھیرے تک محنت مزدوری کرتے ہیں اور انہیں صرف دو وقت کی روٹی کے علاوہ سال میں دو سوٹ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کے شہری حقوق حاصل ہیں۔ وہ سال میں 364 دن کام کرتے ہیں اور صرف 25 دسمبر کو چھٹی ہوتی ہے مگر اس دن بھی وہ کوئی خوشی نہیں منا سکتے نہ ہی وہ جزیرے سے باہر جا سکتے ہیں جبکہ ہر قسم کی تفریح کا حق اس جزیرے پر قابضین ہی کو حاصل ہے۔
پاکستان بھی سیاسی قابضین کا مقبوضہ علاقہ ہے اور اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو بدترین کہلائی جانے والی مارشل لائوں میں بھی اکانومی مستحکم اور امن و امان بہتر رہتا ہے جبکہ سیاسی ادوار میں اکانومی کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے 12 سالہ دور میں ڈالر کی قیمت میں پونے دو روپے کا اضافہ ہوا جبکہ بھٹو دور میں ڈالر صرف ساڑھے چار سال میں 5 روپے سے 12 روپے کا ہو چکا تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں مسلسل گیارہ سال تقریباً 12 سے صرف ایک روپے اضافہ کے ساتھ 13 روپے پر رہا مگر جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو ڈالر 20 ماہ میں 24 روپے کا ہو گیا اور پھر نواز شریف اسے 36 روپے پر تین سال میں لے گئے تو پھر دوبارہ بے نظیر آئیں اور ڈالر 47 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ پھر نواز شریف اس ڈالر کو 47 سے 62 روپے پر لے گئے تو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا اور 1999ء سے 2008ء تک ڈالر کی قدر میں اضافہ کی بجائے کمی ہوئی اور پرویز مشرف ڈالر 61 روپے پر چھوڑ کر رخصت ہوئے ۔ ( یہ معلومات مختلف ذرائع سے لی گئی ہیں )
زندگی بھر یہی دیکھا کہ جس تھانے دار نے تھانے کا چارج سنبھالتے ہی منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈائون کا اعلان کیا اس نے پھر منشیات ہی کو روزگار کا ذریعہ بنایا‘ جس نے برائی کے اڈوں کے خاتمے کی مہم چلائی پھر اس نے سرپرستی بھی کی۔ جس نے جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کا دعویٰ کیا اس کے چرنوں میں جرائم پیشہ لوگ ہی جمع ہوئے۔ میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ پہلی مرتبہ سنبھالنے کے بعد احتساب کا اعلان کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کے عہدے پرلاہور کے ایک دوکاندار سیف الرحمان کو چیئرمین بنا دیا۔ بلا شبہ انہوں نے بہت محنت کی‘ بہت سے ثبوت اکٹھے کئے‘ دن رات کام کیا اور فائلوں کا اچھا خاصا پیٹ بھرا گیا مگر یہ تمام تر محنت صرف اور صرف نواز شریف کے مخالفوں کی گو شمالی تک ہی محدود رہی۔ انہی خطوط پر پیپلز پارٹی کے دور میں کام جاری تو رہا مگر بہت سست روی سے کہ محترمہ انتقام کی حامی نہ تھیں۔ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی نیب کے دانت تیز کر دیئے اور کڑے‘ سخت ترین و بے رحمانہ احتساب کا اعلان کر دیا۔ کرپٹ افراد اور ملک کے اثاثے لوٹنے والوں کی فہرستیں بنائی گئیں اور تیزی سے کام شروع ہو گیا۔ یہ فہرستیں بعض من پسند اخبار نویسوں کے ذریعے جزوی طور پر جاری بھی ہوئیں تو اس فہرست میں پہلا نام بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا تھا اور دوسرا حسنین کنسٹرکشن کمپنی کے شیخ یوسف مرحوم کا۔ ملک ریاض نے فوری طور پر پرویز مشرف کے سمدھی کو اس زمانے میں 5 لاکھ تنخواہ پر ملازم رکھ لیا اور شیخ یوسف نے مشرف کے قریبی دوستوں کو منیج کر لیا۔ پرویز مشرف نے ملک ریاض کی گرفتاری کا حکم دیا تو انہیں ان کے گھر سے آ کر ایک ایسا طاقتور شخص اپنے گھر لے گیا کہ جہاں ریڈ کرنے کا مشرف تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مذکورہ طاقت ور نے باقاعدہ ملک ریاض کو اپنے گھر میں عارضی دفتر کیلئے جگہ دے دی۔ چند دنوں میں خطرہ ٹل گیا اور مشرف بھی ملک ریاض کی ’’محبتوں‘‘ کے اسیر ہو گئے۔انہی دنوں ملک ریاض کو نماز جنازہ میں شریک کیلئے سیالکوٹ جانا پڑا تو نماز جنازہ کے بعد ان کی گرفتاری کا پلان بنا مگر تمام وقت مذکورہ اہم ترین شخصیت نے ملک ریاض کا بازو تھامے رکھا اور انہیں اپنی گاڑی میں واپس اسلام آباد لے گئے۔
میں ملتان سے ٹرانسفر ہو کر روزنامہ خبریں اسلام آباد کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن گیا تو اس دور میں میرے ساتھ ایڈیٹر رپورٹنگ سرمد سالک تھے جو کہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے بریگیڈیئر صدیق سالک کے صاحبزادے تھے اور بہت اچھی اردو لکھتے تھے۔ مجھے ایک دن وزیر اعظم ہائوس میں نیب کے دفتر لے گئے جہاں ایک باریش ریٹائرڈ بریگیڈیئر غالباً ان کا نام صغیر تھا‘ سے ملاقات ہوئی۔ سرمد نے بتایا کہ یہ میاں غفار ہیں اور ملتان سے ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں۔ چند لمحے میری طرف دیکھنے کے بعد بریگیڈیئر (ر) صغیر بولے ‘ میں آپ سے کہیں ملا ہوں۔ میں نے کہا کہ میری آپ سے ملاقات کبھی بھی نہیں ہوئی اور اللہ کے فضل سے میری یادداشت اچھی ہے۔ وہ بضد تھے دو تین مرتبہ میرا نام دہرایا اور بولے ۔ میں میاں غفار کو جانتا ہوں مگر یاد نہیں آ رہا کہ کیسے۔ ہم پرتکلف چائے پینے لگ گئے تو انہوں نے اپنے پی اے کو بلایا اور کہنے لگے۔ ذرا یوسف رضا گیلانی کی فائلیں تو لائو۔ فائلیں آئیں تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پتوکی پاور جنریشن سسٹم‘ بہاولپور ایڈ ھیبل آئیل سمیت درجنوں خبریں ان فائلوں میں موجود تھیں ( باقی مجھے یاد نہیں )۔ سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے میں نے کرپشن کی متعدد خبریں جو اپنے نام کے ساتھ ملتان سے روزنامہ خبریں کی ریذیڈنٹ ایڈیٹری کے دوران میں نے شائع کی تھیں وہ ساری خبریں نیب کی فائلوں کا حصہ تھیں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ شائع شدہ خبر کبھی ضائع نہیں ہوتی‘ کہیں نہ کہیں سے نکل ضرور آتی ہیں ( جاری ہے )

شیئر کریں

:مزید خبریں