ملتان (سٹاف رپورٹر)سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی کاشتکار دشمن امپورٹ پالیسی نے ملکی ضرورت سے کہیں زیادہ گندم امپورٹ کرکے جہاں قیمتی زرمبادلہ ضائع کرایا وہاں ملک بھر کے گندم کے کاشت کاروں کا کڑاکا بھی نکال کر رکھ دیا ۔ آئی ایم ایف کے شدید دباؤ پر موجودہ حکومت نے محکمہ خوراک کے ذریعے سرکاری طور پر گندم کی خریداری کا سلسلہ ہی ختم کر دیا۔ سرکاری ریٹ پر گندم کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں کی موجیں لگ گئیں اور 3900 روپے فی من سرکاری ریٹ والی گندم ذخیرہ اندوزوں، شوگر مافیا اور فیڈ مافیا نے دو ہزار روپے سے 2200 روپے من خرید کر اپنے گودام بھر لیے اور صرف پانچ ماہ کے اندر اندر یہ سٹاک شدہ گندم دگنی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت بیوروکریسی اور ذخیرہ اندوزوں کی ملی بھگت سے ملک میں گندم وافر ہونے کے باوجود غلط اعداد و شمار پیش کرکے یہ ظاہر کیا گیا کہ ملکی ضرورت کے لئے گندم کم ہے اس لئے حکومت پاکستان کو گندم باہر سے منگوانی پڑے گی اور حیران کن طور پر سابق وزیر خزانہ اور موجودہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے گزشتہ دور میں نگران حکومتیں آنے سے قبل اس منظم سازش پر کام شروع ہو چکا تھا جسے نگران حکومت نے کسی بھی قسم کی تصدیق کیے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور ملکی ضرورت سے وافر گندم ہونے کے باوجود نجی شعبے کو گندم کی درآمد کی کھلی اجازت دے دی جس سے نجی شعبے کو ایک منظم طریقے سے انڈر کور کروڑوں ڈالر باہر بھجوانے کا جہاں موقع مل گیا ۔ غیر معیاری گندم پاکستان کو سپلائی کی گئی جبکہ قیمت اعلیٰ کوالٹی کی گندم کے لئے باہر کے ممالک میں بھجوائی گئی۔ ملک میں ڈالر کی کمی کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر گندم کی خریداری کی آڑ میں ڈالر باہر بھجوانے کے معاملے کا آئی ایم ایف نے بھی سخت نوٹس لیا اور گندم پر پاکستانی عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کروا دی جس کے بعد چاروں صوبوں میں سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا سلسلہ روکتے ہوئے محکمہ خوراک ہی کو ختم کر دیا گیا اور گندم کی خریداری کے عمل سے صوبائی حکومتوں نے خود کو علیحدہ کر لیا اس کے بعد ملک بھرکاکاشتکار ذخیرہ اندوز کے عتاب کا شکار ہو گیا اور ملک بھر کے ذخیرہ اندوزوں، شوگر مافیا کے لوگوں نے گندم کی قیمت گرانا شروع کر دی جس کے بعد گندم کے کاشتکار کو 3900 روپے فی من والی گندم ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں تقریبا ًنصف قیمت پر فروخت کرنا پڑی اور مہنگی کھادوں و مہنگے بیچ کے علاوہ مہنگی بجلی کی وجہ سے کاشت کار کو گندم کی بوائی کا فائدےکے بجائے شدید نقصان ہوا اور انہیں لاگت بھی نہ مل سکی۔ معلوم ہوا ہے کہ حکومت کا رواں سال بھی گندم خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کا دباؤ برقرار ہے اور یہی وجہ ہے کہ 50 سال بعد گندم کے ذخیرہ اندوزوں کی پھر سے لاٹری نکل آئی ہے جو بھٹو دور میں ختم کر دی گئی تھی۔







