آج کی تاریخ

نو مئی کے واقعات , آگے کیسے بڑھا جائے؟

نو مئی کے واقعات , آگے کیسے بڑھا جائے؟

نو مئی کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تلخ یاد کے طور پر جانا جاتا ہے، جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور فسادات برپا ہوئے۔ یہ واقعات نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی استحکام کے لیے بھی خطرہ بنے، کیونکہ سیاسی عدم استحکام براہ راست معاشی عدم استحکام کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اختلافات اور تنازعات سے بھرپور ہے، جس میں ہر سیاسی دھڑے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو زیر کرے۔ نو مئی کے واقعات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں، جہاں پی ٹی آئی کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد پورے ملک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس ردعمل نے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی اور اقتصادی محاذوں پر بھی ملک کو نقصان پہنچایا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے اس بات کی وضاحت کی کہ فوجی اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی حرکتوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ان کے خلاف سازشی تھیوریز اور جھوٹی پرچار تھی، جس کا مقصد سیاسی جماعت کو کمزور کرنا تھا۔
دونوں جانب سے جوڈیشل کمیشن کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاکہ نو مئی کے واقعات کی تحقی
قات کی جا سکیں۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ یہ کمیشن مکمل طور پر آزاد ہو اور اس میں فوجی اداروں کا کوئی دخل نہ ہو، تاکہ شفافیت کے ساتھ حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔
پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی استحکام کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھانے پڑیں گے، جس میں سب سے اہم کردار سیاسی قیادت کا ہوگا۔ معاشی استحکام اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔
نو مئی کے واقعات کو بطور سبق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک مستحکم راہ پر چلنے کی ضرورت ہے، جہاں تمام فریقین کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کی فضا قائم ہو۔ اس کے لیے جرات، دانشمندی اور قومی مفاد کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

لاہور میں وکلا پر پولیس کا بدترین تشدد

لاہور ہائیکورٹ کے باہر پیش آنے والے واقعات نے قانون کی حکمرانی کے دعوؤں کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جب وکلا نے پرامن اور قانونی طور پر احتجاج کا حق استعمال کیا تو پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور گرفتاریاں ایک خطرناک رویہ ثابت ہوئیں، جو کہ 1973 کے آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ پرامن اجتماع کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کا پولیس کو وکلا کے خلاف تشدد سے گریز کرنے کی ہدایت اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت بھی اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ پولیس کا یہ عمل ناقابل قبول ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان انور پنجاب پولیس سے وزیراعلیٰ کی ہدایت ک مطابق عمل کیوں نہیں کراسکے؟ اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم کا قیام ضروری ہے، جو اس واقعے کی وجوہات کا تعین کرے اور ذمہ داران کو کٹہرے میں لاکر کھڑا بھی کرے-
مزید برآں، ان واقعات میں وکلا پر دہشت گردی کے مقدمات کا اندراج بھی ایک انتہائی سخت اقدام ںطر آتا ہے، جسے لاہور ہائی کورٹ نے منظور کیا۔ ایسے اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے، کیونکہ یہ معاشرے کے بہت سے طبقات کے نزدیک اور ملک بھر کی وکلاء تنظیموں کے نزدیک انتہائی سخت ترین اقدام تھا جس کا حکم لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے دیا گیا-
وکلا کی برادری کو بھی اپنے اندر جھانکنے اور اپنے اراکین کے رویے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے- انہیں اپنے اندر خود احتسابی کے میکنزم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس دوران پنجاب بھر کی عدالتوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں وکلاء کا کردار ان کے ضابطہ اخلاق اور بروسیجر اینڈ پریکٹس قوانین کے برخلاف تھا-
ایسے رویوں کا اصلاح ضروری ہے تاکہ وکلا کی برادری اپنے پیشے کی ساکھ کو بہتر بنا سکے۔
اس تمام صورتحال میں، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل ، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت وکلاء برادری کی نمائندہ تنظیموں کی قییادت کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر یہ الزام عائد کرنا کہ ان کی جانب سے اس معاملے کو حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر بنانے کی کوشش کی گئی بہت سنگین الزام ہے اور اس الزام کو دھونے کی ضرورت ہے۔
پنجاب بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پولیس کی اس بدترین کارروائی کی مذمت اور متاثرہ وکلا کے لئے فوری طبی امداد کا مطالبہ، ایک جائز قدم ہے۔ ان واقعات کا مکمل اور شفاف جائزہ لینا اور اس میں ملوث تمام فریقوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ نہ صرف پاکستان کی عدلیہ بلکہ حکومتی نظام کے لیے بھی ایک امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ کس طرح اس طرح کے بحرانوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور کس طرح یہ دکھاتے ہیں کہ عوام کے بنیادی حقوق اور آزادی کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط اور پاکستان کا اقتصادی مستقبل

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان حالیہ مذاکرات اور اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت جاری رہنے والے تعلقات نے ملک کے مالیاتی مستقبل پر ایک نیا دور شروع کیا ہے۔ ایف بی آر کو موجودہ مالی سال کے ہدف کے مقابلے میں اگلے مالی سال کے لیے 1.59 کھرب روپے کی اضافی وصولیوں کا ہدف دیا گیا ہے، جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔
مالی سال 2024-2025 کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف، جو کہ 11.005 کھرب روپے ہے، نہ صرف ایف بی آر کی کارکردگی کا امتحان ہوگا بلکہ یہ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کے استحکام کا بھی مظہر ہوگا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے حکومت کو نہ صرف موجودہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہوگا بلکہ ٹیکس ادائیگی کے نظام کو مزید شفاف اور موثر بنانا ہوگا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی اور ایس بی اے کے تحت آخری قسط کی وصولی، پاکستان کے لیے مالی استحکام کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف ملکی معیشت کے لیے ضروری ہیں بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کو ایک محفوظ سرمایہ کاری مقام کے طور پر پیش کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔
موجودہ اور آنے والے مالی سال کے دوران، حکومت کو اندرونی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جیسے کہ ٹیکس سسٹم میں شفافیت، عوامی شعبے کی اداروں کی اصلاحات، اور خسارے کو کم کرنے کے لیے اخراجات میں کمی۔ ان اقدامات کے بغیر، ٹیکس وصولیوں کے بڑھتے ہوئے ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ایف بی آر کی تاجر دوست اسکیم کی ناکامی، افسران کے بڑے پیمانے پر تبادلے، اور پی ٹی اے کی جانب سے نان فائلرز کے سم کارڈز کو غیر فعال نہ کرنے کا فیصلہ، یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور ان میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں میں استحکام لانا ہوگا اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانا ہوگا تاکہ مالی سال 2024-2025 کے دوران معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ تمام اقدامات پاکستان کے لیے نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی استحکام کے نئے دور کی بنیاد رکھیں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں