آج کی تاریخ

نواز لیگ – پی پی پی اتحاد : گنجی نہائے گی کیا ۔۔۔۔۔

نواز لیگ – پی پی پی اتحاد : گنجی نہائے گی کیا ۔۔۔۔۔

پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان نئی حکومت بنانے پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے طے پا جانے کی اطلاع دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت نے دو روز پہلے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دی- اس پریس کانفرنس میں دونوں سیاسی جماعتوں نے صرف یہ بتایا کہ وزیراعظم پاکستان کے امیدوار میاں محمد نواز شریف ہوں گے جبکہ صدارتی امیدوار آصف علی زرداری ہوں گے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کے اور درمیان شراکت اقتدار کا یہ معاہدہ کس فارمولے کے تحت تشکیل پایا ہے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی جماعت وفاقی کابینہ کا حصّہ ہوگی یا وہ اپنے بیان کے مطابق وفاقی کابینہ میں شریک نہیں ہوں گے؟
پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپاٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ ایک ایسے وقت میں طے پایا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے جیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف انتخابی مہم کے ساتھ ہی انتہائی سخت اور درشت رویہ اپنا رکھا تھا- انھوں نے پاکستان کی معشیت کی بربادی کا سب سے بڑا ذمہ دار میاں محمد نواز اور مسلم لیگ نواز کو قرار دیا تھا- وہ میاں محمد نواز شریف کو براہ راست ٹی وی پر نشر ہونے والاے مناظرے کی دعوت بھی دیتے رہے۔ ایک ٹی وی اینکر سے بات چیت کے دوران انہیوں نے دو ٹوک انداز میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ انتخابات کے بعد وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔
عام انتخابات کے دوران چاروں صوبوں میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پنجاب مسلم لیگ نواز سے واپس لیں گے اور اس بیان کے جواز کے طور پر انہوں نے یہ دعوا بھی کیا تھا کہ پنجاب میں نواز لیگ مسلط گئی اور اس کا مینڈیٹ اصلی نہیں ہے۔ وہ پنجاب میں پی پی پی کے دوبارہ احیاء کے خواب بھی پنجاب کے جیالوں میں بیچ رہے تھے۔ انھوں نے پیپلزپارٹی کے سندھ میں 16 سالہ اقتدار کے دوران اٹھائے جانے والے اقدامات کو بنیاد بناکر پنجاب کے عام ووٹر کو جیتنے کی کوشش کی- ان کی اس جارحانہ انتخابی کمپئن کو دیکھتے ہوئے پی پی پی پنجاب کے کئی ایک گھر بیٹھے جیالوں نے واپسی اختیار کی اور یہ بجث بھی چھڑ گئی کہ پی پی پی نے سیاسی مفاہمت کی راہ ترک کرکے اپنی پرانی پالیسی کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
انتخابی نتائج آئے تو پتا چلا کہ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں صورت حال زرا بہتر نہ ہوئی اور وسطی پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک راجا پرویز اشرف کی سیٹ بچا پائی ۔ جبکہ جنوبی پنجاب سے اس کے پاس قومی اسمبلی میں چھے نشستیں ملیں – 2018ء میں پی پی پی کے پاس جنوبی پنجاب سے 6 نشستیں تھیں، ملتان سے ایک، رحیم یار خان سے 2 اور مظفر گڑھ-کوٹ ادو سے 3 اور اس مرتبہ مظفرگڑھ سے اس کے پاس محض ایک ، ملتان سے 3 اور رحیم یار خان سے 3 ہیں- دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی پنجاب کے 37 اضلاع میں سے صرف چار اضلاع میں 7 نشستیں ہیں- پی پی پی کے پاس کے پی کے سے ایک اور بلوچستان سے 2 نشستیں ہیں- دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی اس وقت سندھ میں ہی غالب کردار کی مالک نظر آتی ہے۔ جبکہ بلوچستان میں اس کے پاس قومی اسمبلی کے دونوں اراکین اسٹبلشمنٹ کے خاص نمائندے ہیں اور باپ پارٹی سے بھیجے گئے ہیں- کیا پیپلزپارٹی کو پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں اپنی انتہائی کمزور پوزیشن کا ادراک نہیں تھا جو اس کے چیئرمین انتخابات کے دوران اور بعد کے ابتدائی چند دنوں میں بیانات کی حد تک سولو فلائٹ کرنے اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی پرانی جارحانہ سیاست کرنے کا دعوا کرتے رہے؟ پیپلزپارٹی انتخابات کے دوران بھی یہی بیانیہ رہا کہ بطور سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ختم ہوگئی ہے اور اب مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہے۔ جبکہ نواز لیگ پنجاب میں اپنے مدمقابل سرے سے کسی جماعت کو نہیں دیکھ رہی تھی- ان جماعتوں کی قیادت مستقبل کی پیش بینی میں کس قدر گمراہ کن اندازوں کی مرتکب پائی گئیں اس کا اندازہ موجودہ انتخابی پوزیشن سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں سب سے بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں سے تشکیل پانے والی سنّی اتحاد کونسل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ نواز نے انتخابی نتائج مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے آپ کو اکثریتی پارٹی قرار دے کر حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا- دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزآد امیدواروں کا مستقبل طے ہوئے بغیر پاکستان تحریک انصاف پر رابطہ نہ کرنے کا الزام عائد کرکے نواز لیگ سے اشتراک اقتدار کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی اور یوں اشتراک اقتدار کا ایک فارمولا تشکیل دے ڈالا-
ہمارے نزدیک پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنی سیاسی حکمت عملی طے کرنے کا پورا حق ہے لیکن اس دوران دونوں پی پی پی نے جیسے اپنے جیئرمین بلاول بھٹو کے انتخابی کمپئن کے دوران اور بعد میں دیے جانے والے بیانات اور تقریروں کے برعکس فیصلے کیے وہ اس پارٹی کی اخلاقی پوزیشن بہت کمزور کردیتے ہیں- ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب میں ہی نہیں بلکہ سندھ کو چھوڑ کر باقی سب صوبوں میں اپنی پارٹی چند گھرانوں کو ‘آؤٹ سورس، کرچکی ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ آیا اس کی ترجیح اب بھی وفاق کی چاروں اکائیوں کی سیاست ہے یا نہیں؟
پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ اور وہ ایک ایسی اتحادی حکومت کے وزیراعظم ہوں گے جس میں قانون سازی اور ملک کی اہم مالیاتی اور معشیتی پالیسیاں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ ،وزیر تجارت و پیداوار، وزیر توانائی، وزیر پٹرولیم ، وزیر ٹیکسٹائل ، وزیر پلاننگ بنائیں گے۔ اور اب تک ان کے اتحادیوں کی جو تفصیل سامنے آئی ہے وہ فضل الرحمان، ڈاکٹر مالک اور اچکزئی کو چھوڑ کر پی ڈی ایم میں شامل اتحادی ہوں گے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم ٹو حکومت ہوگی تو کیا پی ڈی ایم ٹو کا وزیر خزانہ اس مرتبہ بھی اسحاق ڈار ہی ہوں گے؟
نئی تشکیل پانے والی حکومت کو پی ڈی ایم ون کی حکومت کے آخر میں اسحاق ڈار کی قیادت میں معاشی ٹیم کی طرف سے آئی ایم ایف سے کیے جانے والے ‘اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ’ معاہدے میں قبول کی گئیں بہت سی شرائط کو پورا کرنا ہوگا اور نئے معاہدے کے لیے اس سے کہیں زیادہ سخت شرائط ماننا ہوں گی- اس وقت ایس ایف آئی ایس جیسی کونسل میں موجوداسٹبلشمنٹ کے طاقتور اداروں کے نمائندے براجمان ہیں جو ایس بی اے معاہدے میں موجود شرائط پر من وعن عمل درآمد کرانا چاہتے ہین- عالمی مالیاتی اداروں، پاکستان کے دیرینہ دوست ممالک، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں نئی حکومت سے ہر صورت جیلنجنگ معاشی اصلاحات کرانے کی خواہش مند ہیں-
اس تفصیل کو مد نظررکھا جائے تو نئی حکومت بہت تیزی سے پاکستان ائر لائن سروسز- پی ائی اے، پاکستان اسٹیل ملز سمیت ان تمام پبلک انٹرپرائز کی نجکاری کرنا ہوگی جنھیں بیچنے کے لیے پاکستان پر آئی ایم ایف سمیت ہر ایک ڈونر کا دباؤ ہے۔ اسے انرجی ، پٹرول و گیس سیکٹر میں پبلک اداروں میں اسٹرکچرل اصلاحآت کا نفاذ کرنا ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہزاروں ملازمین کی برطرفی، جبری ریٹائرمنٹ ہے۔ حکومت کو سرکاری پنشن فنڈ اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی لانی ہے۔ تیل اور گیس کے ساتھ بجلی کے بلوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔عام آدمی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ روپے کی ڈالر مفابلے میں روپے کے استحکام کو دکھا کر معشیت کے استحکام کے دعوؤں کو مسترد کررہا ہے۔ کیونکہ اسے تو اب 34ء5 فیصد افراط زر /مہنکآئی کا سامنا ہے اور 40 فیصد غربت اس کا منہ جڑا رہی ہے۔
اگر حکومت ادارے نجکاری کرے گی، ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ کرے گی ۔ تیل بجلی کيس کی قیمتوں میں اضافہ ہوش ربا کرتی جائے گی اور لآغف لائن کنزیومر تک سے رعایت چھین لے گی تو لامحالہ اس سے عام آدمی کے اندر بے چینی بڑھے گی اور وہ سڑک پر احتجاچ پر مجبور ہوجائے کی۔ کیا نواز لیگ کی اتحادی جماعتیں اس بوجھ سہارنے میں اس کا ساتھ دیں گی؟ پیپلزپارٹی جس نے انتخابی کمپئن کے دوران خود کو بار بار سنٹر لیفٹ اور سوشل ڈیموکریٹک سیاست کا علمبردار بتایا تھا اور وہ نواز لیگ کے معاشی و مالیاتی وژن کو پاکستان کی معشیتکی بربادی کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے قائد میاں نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج دے رہے تھے وہ فاق میں ایک ایسی حکومت کی حمایت کا جواز کیسے پیش کریں گے جو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی روشنی میں مويد وہ سخت ترین اقدامات کرے گی جس کو بلاول بھٹو پاکستان کی معشیت کی بربادی کا سبب بتاتے رہے ہیں-
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اب تک دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی عوام سے انتخابی منشور اور حکومتی پروگرام کے نام پر ایسے وعدے کیے ہیں جن کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان کے حزانے میں پیسا ہی نہیں ہے۔ وہ عوام کو یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ موڈی اور فچ نے پاکستان کي کریڈٹ ریٹنگ منفی کی ہے اس کے ہوتے ہوئے پی ڈی ایم ٹو وہ 16 ارب ڈالر کی بیرونی فنڈنگ کہاں سے لائے گا جس کے لانے کا پی ڈی ایم ون نے اسحاق ڈار کی قیادت میں بجٹ 2023-24 میں ذکر کیا ہوا ہے اور اب تک ایک ڈالر اس مد میں نہیں آیا-
ہاں پی ڈی ایم ٹو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے بہت سارے وسائل آسانی کے ساتھ دینے کا اہتمام کرکے کچھ غیرملکی سرمایہ کھینچ سکتی ہے جن میں پاکستان بھر کے ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنا، تمام پبلک آئل ریفائنریوں کی نجکاری، بڑے پیمانے پر زرعی رقبوں اور جنگلات کو لیز پر دینا وغیرہ شامل ہوسکتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے تیل، گیس، بجلی اور دیگر یوٹیلٹی میں رعایت کے جو خواب ووٹرز کو دکھائے وہ اس حقیقت کو چھپاتے ہوئے دکھائے کہ دونوں جماعتوں کے پی ڈی ایم ون حکومت میں شامل پاکستان پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے معاشی ٹیم لیڈروں نے نگران وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک پاکستان کے ساتھ ایک ‘لیٹر آف انٹینٹ’ پر دستخط کیے تھے۔ اس خط پر تاریخ 18 دسمبر 2023ء کی ہے جس میں صاف صاف لکھا ہے : “نگران حکومت دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر سٹیٹ انٹر پرائز / سرکاری ملکیت میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے زریعے سے غیر ملکی سرمایہ کاری لیکر آئے گی تاکہ غیر ملکی زدمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکے”۔ آج جب نئی حکومت تشکیل پانے والی ہے تو اس لیٹر آف انٹیٹ میں بیان کیے کئے ہدف کو پورا نہیں کیا جاسکا- پاکستان کو اپریل 2025ء تک 25 ارب ڈالر اکٹھا کرنے ہیں جبکہ یہ ہدف کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آرہا- اور ایسے میں یوٹیلٹی میں ایک پینی کی گنجآئش نظر نہیں آتی- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت عوام سے ایسے ودعے کیوں کرتی رہیں اور رہی ہیں جن کے پورے ہونے کا امکان زرا نہیں ہے؟

غزہ: ظالمانہ ویٹو

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کو تیسری بار ویٹو کرکے امریکا نے ہیٹ ٹرک کرلی ہے۔ چونکہ ترک کردہ پٹی میں اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو روکنے سے انکار کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ تل ابیب کے کچھ کٹر یورپی حامی بھی دشمنی کے خاتمے کے عالمی مطالبے میں شامل ہو گئے ہیں۔ لیکن اسرائیل کے لیے ایک ملک کی ’آہنی پوش‘ حمایت برقرار ہے، کیونکہ امریکا صہیونی ریاست کی پشت پناہی کرنے کے لیے پرعزم ہے، قطع نظر اس کے کہ اس نے غزہ میں کتنے ہی بے گناہوں کو قتل کیا ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے ویٹو کا جواز پیش کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ جنگ بندی کی طرف پیش قدمی کو “صحیح راستہ” بنایا جانا چاہیے اور “صحیح وقت پر” آنا چاہیے۔ واشنگٹن کے لیے، غزہ میں اب تک 29,000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا، ظاہر ہے کہ وہ وقت نہیں آیا۔ روس اور چین سمیت یو این ایس سی کے دیگر مستقل ارکان نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کی سرزنش کرنے کے لیے سخت زبان استعمال کی، ماسکو کے سفیر نے کہا کہ امریکی ویٹو نے اسرائیل کو “قتل کرنے کا لائسنس” دیا ہے، جب کہ بیجنگ کے نمائندے نے اسے نان اسٹاب ذبح کرنے کا گرین سگنل قرار دیا ہے۔”
جب کہ 1967 کی جنگ کے بعد سے امریکہ مضبوطی سے اسرائیلی کیمپ میں ہے، جہاں غزہ میں موجودہ قصائی کا تعلق ہے، بائیڈن انتظامیہ نے صحیح اور غلط کا تمام احساس کھو دیا ہے کیونکہ وہ تقریباً مذہبی جوش کے ساتھ تل ابیب کا دفاع کرتی ہے۔ تعصب کے اس بھیانک مظاہرے کے بعد، امریکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں سنجیدہ کھلاڑی ہونے کو بھول سکتا ہے، جب کہ عرب اور مسلم دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی اس کی خواہش غزہ کے ملبے میں دھنس چکی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے غیرسنجیدہ تشدد کا مسلسل دفاع کرتے ہوئے امریکہ نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عالمی سطح پر انسانی حقوق کے دفاع کے بارے میں اس کا منتر بمشکل ہی قابل اعتبار ہے، کیونکہ 29,000 فلسطینیوں کی جانیں واضح طور پر اس کی کوئی قیمت نہیں تھیں، حالانکہ دسیوں ہزار امریکیوں نے سڑکوں پر خون آلود اسرائیلی مہم میں اپنی حکومت کے ملوث ہونے کی بہادری سے مذمت کی ہے۔ نیویارک اور واشنگٹن کے. دریں اثنا، مسلم دنیا بے چین ہے، کچھ ریاستیں مبینہ طور پر خفیہ طور پر اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں۔ جیسا کہ الجزائر کے اقوام متحدہ کے سفیر نے نوٹ کیا، “آج، ہر فلسطینی موت، قتل و غارت اور نسل کشی کا نشانہ ہے”۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری کے ارکان یا تو ان جرائم میں شریک ہیں، یا خاموش اکثریت فلسطینیوں کے قتل عام کی لائیو سٹریمنگ کو خاموشی سے دیکھتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں