اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کالعدم قرار دیکرنواز شریف کو مقدمے سے بری کردیا۔الیکشن سرپرہیں۔اس فیصلے سے ن لیگ کوتقویت حاصل ہوگی تودوسری جانب مخالفین کوبھی اس سے بڑادھچکالگاہے،یادرہے کہ قبل ازیںاسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے دی تھی ۔اس مقدمے کا آغاز پاناما پیپرز کے نام سے سامنے آنے والے اسکینڈل کے بعد ہوا تھا۔ تین اپریل 2016 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے ساڑھے گیارہ لاکھ سے زائد خفیہ دستاویز جاری کی تھیں جن میں وسطی لندن کے مہنگے علاقے پارک لین میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری کا معاملہ بھی شامل تھا۔ دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ شریف خاندان کے پاس نوے کی دہائی سے سینٹرل لندن میں چار فلیٹس ہیں۔شریف خاندان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ فلیٹس غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بنائے گئے تھے۔ تاہم شریف فیملی ان الزامات کی تردید کرتی رہی۔ان دستاویزات میں مبینہ طور پر آٹھ آف شور کمپنیوں کا تعلق پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان سے بتایا گیا تھا۔ایون فیلڈ ریفرنس قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سن 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں دائر کیا گیا تھا۔اگست 2016 میں اپوزیشن کی جماعتوں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پاناما پیپزر معاملے پر عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔عدالت میں درخواست دائر کرنے کے بعد تحریک انصاف نے ستمبر میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور ان کے استعفی کے لیے 30 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر کو پاناما پیپرز معاملے میں در خواستیں قبول کرنا شروع کیں اور 28 اکتوبر 2016 کو ان کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے نواز شریف کو نااہل کرنے کی رائے دی جب کہ اکثریتی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر الزامات کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم جاری کیا تھا۔سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو قابلِ وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ایون فیلڈ جائیدادوں، جدہ میں قائم العزیزیہ کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں احتساب عدالت میں کارروائی کا فیصلہ جاری کر دیا تھا۔آٹھ ستمبر2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنسز العزیزیہ ریفرنس، فلیگ شپ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیے گئے تھے۔احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو لندن میں موجود ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مالک ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی تو قرار دیا تھا لیکن مریم نواز کو 7 سال کی سزا جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروانے پر نہیں بلکہ جرم میں اعانت کرنے پر سنائی گئی تھی۔ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے وقت نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اگست 2018 میں لندن روانہ ہوئے تھے۔احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد 13 جولائی 2018 کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پاکستان واپس آئے تو انہیں گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔سولہ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پر نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے اپیل دائر کی تھی۔نواز شریف کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ نے فوری ضمانت کی درخواست مسترد کر کے اس پر آئندہ سماعت جولائی 2018 کے آخری ہفتے کے لیے ملتوی کر دی تھی۔پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ستمبر 2018 میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کی درخواست پر اُن کی سزا معطل کرتے ہوئے اُنہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔اسی معاملے پر کچھ عرصہ قبل گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے ایک بیانِ حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر دباؤ ڈالا تھا کہ نواز شریف اور اُن کی بیٹی کی ضمانت الیکشن سے قبول منظور نہ کی جائے۔ اس معاملے پر پاکستانی سیاست میں ہلچل مچ گئی تھی، تاہم توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہونے پر چند روز قبل رانا شمیم اپنے ہی بیانِ حلفی سے منحرف ہو گئے تھے۔مریم نواز نے گزشتہ برس اکتوبر میں سزا کو کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو اس ریفرنس میں بری کر دیا ۔دریں اثناگزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کردیا، احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی تھی۔ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ان میں اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور دیگر موجود تھے۔ نیب پراسکیوشن ٹیم بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اپیل منظور کر کے بری کیا گیا، شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔مجد پرویز نے نیب آرڈیننس کی مختلف شقیں پڑھیں اور کہا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے اس پر ہماری معاونت کریں۔دوران سماعت نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل کی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کے لیے اپیل کی۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ بے نامی ، اعانت جرم اور زیر کفالت سے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں تشریح کی ہے، آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے، معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے، 9 اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کے لیے تمام تقاضے پورے نہیں کیے گئے،اس کیس میں جرم ثابت کرنے کے لیے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔ وکیل نے کہا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں اور اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔وکیل نے کہا کہ 1993ء سے 1996ء کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ریفرنس میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ یہ جائیدادیں کس تاریخ کو بھیجی گئیں، پاناما فیصلہ، جے آئی ٹی رپورٹ، نیب انویسٹی گیشن رپورٹ، ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو، واجد ضیا نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں، فرد جرم عائد کرنے میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں۔امجد پرویز نے کہا کہ سب سے اہم بات ان پراپرٹیز کی آنرشپ کا سوال ہے، نہ تو زبانی، نہ دستاویزی ثبوت ہے کہ یہ پراپرٹیز کبھی نواز شریف کی ملکیت میں رہی ہوں، استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، نواز شریف کی زیر کفالت تھے، بچوں کے نواز شریف کی زیر کفالت کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں، ان تمام چیزوں کو استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے، ان چیزوں کا بار ثبوت دفاع پر کبھی منتقل نہیں ہوتا، کوئی ثبوت نہیں کہ پراپرٹیز نواز شریف کی ملکیت یا تحویل میں رہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ سارا پراسیکیوشن کا کام ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ جی بالکل یہ سب استغاثہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب کو یہ ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے پراپرٹیز کی خریداری کے لیے ادائیگی کی، یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ پراپرٹی ان کے یا بے نامی دار کے زیر ملکیت ہے، کورٹ نے مفروضے پر سزا دی اور فیصلے میں ثبوت کے بجائے عمومی بات لکھی، عدالت نے کہا کہ مریم نواز بینفشل اونر تھیں اور نواز شریف کے زیر کفالت بھی تھیں۔وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کے ایک ملزم انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ امتیاز کو بری کیا، اس بنیاد پر بریت ہوئی کہ نیب نے ملزم کی مبینہ جائیدادوں کی قیمت اور ملزم کی آمدن کا تعین کیے بغیر ہی اُس پر ریفرنس دائر کر دیا تھا، سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کوئی بھی متضاد فیصلہ نہیں دیا، مریم نواز کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ان عدالتی فیصلوں اور اصولوں کی توثیق کی ہے۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کا کہنا ہے کہ بچے عمومی طور پر والد کے زیر کفالت ہوتے ہیں اور عدالت نے صرف اس بات پر سزا سنائی کہ بچوں کے نام جائیداد پر والد ذمہ دار ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا ہے کہ بے نامی کیلئے 4 مندرجات کا ثابت ہونا ضروری ہے، ان چاروں میں سے ایک بھی ثابت نہیں تو وہ بے نامی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مریم نواز کی ہائی کورٹ سے بریت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر مریم نواز کو بری کیا تھا، عدالت نے لکھا پراسیکیوشن کے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک ڈاکیومنٹ موجود نہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کیے گئے تھے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہاکہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی؟ ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی، ریفرنس دائر ہوگیا سزا بھی ہوگئی۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی تھی، اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے تو عدالت نے کہا کہ پھر اس کو منظور کرلیں؟دریں اثنا فلیگ شپ ریفرنس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی، عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا تھا جس کے خلاف نیب نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی دئی گئی سزا کالعدم قرار دے دی اور انہیں مقدمے سے بری کردیا، نواز شریف کو نیب کورٹ نے دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریاں کررہی ہیں اورفیئرپلیئنگ فیلڈکامطالبہ کیاجارہاہے۔نوازشریف کیس کے فیصلے کے بعدامیدہے کہ دیگرسیاسی رہنمائوں کے کیسزکےبھی جلدفیصلے ہونگے تاکہ سیاسی جماعتیں کسی جماعت کوریلیف دینےکااعتراض نہ کرسکیں۔قومی اتفاق رائے میں ہی ملک وقوم کی بہتری ہے۔
سوشل میڈیاپربلیک میلنگ کاشکارخواتین ایف آئی اے سےبھی غیرمحفوظ
سوشل میڈیاپربلیک میلنگ کاشکار خواتین ایف آئی اے افسروں کے ہاتھوں بھی پامال ہونے لگیں، ایف آئی اے سائبر کرائم نے پنجاب پولیس کو کرپشن کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دور جدید کے تقاضوں اورسوشل میڈیا کے اس دور میں سائبر کرائم کی اہمیت میں بلا شبہ اضافہ ہوا ہے لیکن ادارہ میں بیٹھی چند کالی بھیڑوں نے لوٹ مار اور بے حیائی و بے شرمی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ گھریلو خواتین کے موبائل استعمال کرنے کے بعد ملک بھر میں بلیک میلنگ جیسے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے باعث خواتین اور نو عمر لڑکیاں اسی قسم کے جرائم کا نشانہ بن رہی ہیں۔ وہیں اپنی عزت بچانے کے ڈر سے آنے والی حوا کی بیٹیوں کو انصاف تو نہیں ملتا بلکہ اُلٹا مزید بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ انصاف کے حصول اور عزت بچانے کی خاطر آنے والی متاثرہ خواتین کو درخواست وصول کرنے کے بعد ہراسگی کرنے والی ویڈیوز، میسجز دکھانے کو کہا جاتا ہے۔ ثبوت کے طور پر موبائل فون مانگنے کے بعد انہیں کہا جاتا ہے تسلی کر لیں آپ رات گئے دفتر آ جائیں یا رش کا بہانہ بنا کر رات گئے اکیلے تنہائی میں معاملہ سننے کے غرض سے بلا لیا جاتا ہے ۔ ڈر اور خوف میں مبتلا اپنی اور بعض خواتین اپنے خاندان کی عزت بچانے کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ بھی بھرنے کو تیار ہو جاتی ہیں اور پھر اس طرح ایک بار پھر سے حوا کی بیٹی کو ہراسگی اور عصمت دری سے گزرنا پڑتا ہے یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جس پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں خواتین تفتیشی افسر کی کمی کو دور کر کے ادارہ میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اسی طرح دیگر جرائم کی درخواست وصول کرنے سے لیکر 3 نوٹسز تک خوب مال بٹورا جاتا ہے جبکہ تیسرے نوٹس پر معاملات طے کر لیے جاتے ہیں۔ جتنی رقم کا فراڈ ہوتا ہے اس کا دوسرا یا تیسرےحصے پر معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھا دیا جاتا ہے۔ سائبر کرائم ونگ کے افسران بارے چند معلومات قائدین کی نظر کیے دیتا ہوں جب اعلیٰ افسران اپنے گھر کے بجلی کے بل، گاڑیوں کی مرمت، اضافی پٹرول و دیگر اخراجات تفتیشی افسران سے پورے کرانے میں مصروف ہو جائینگے تو ان حالات میں بگاڑ تو پیدا ہو گا ہی پھر لوگوں کی عزتوں اور جیبوں پر ہاتھ ڈالا ہی جانا ہے۔ سائبر کرائم ونگ میں پاکستان کی اعلیٰ ترین شخصیت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہ تحریر کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک اعلیٰ ترین شخص کی بیٹی نے اپنی ایک سہیلی کو موبائل تھما دیا اس نے کسی کو کوئی مسیج کر دیا۔ کافی عرصے بعد سائبر کرائم سے بچی کو کال آئی اور پیش ہونے کا حکم دیدیا گیا اور پھر اس فیملی کو اتنا ہراساں و پریشان کیا گیا کہ اعلیٰ ترین شخص ڈیڑھ لاکھ دیکر اپنی فیملی کی عزت بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طر کے ڈھیروں معاملات روزانہ کی بنیاد پر عوام پر بیت رہے ہیں۔ اگر ایک ایک کر کے ان کا تذکرہ کرنا شروع کیا جائے تو اخبار کی سطریں کم پڑ جائینگی۔ واقعات ختم نہیں ہونگے۔ تحریر لکھنے کا مقصد واضح ہے کہ حکومت وقت کو ان حالات سے آگاہ کرنا ہے اور اس قسم کے گھنائونے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کرانے کی طرف توجہ دلوانا ہے جو بطور ایک صحافی ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔