تحریر :طارق قریشی
گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے لاہور میں ایک تقریب میں پاکستانی نظام میں موجود خرابیوں اور انکے اثرات کے حوالے سے بڑی تفصیلی گفتگو کی۔ شاہد خاقان عباسی گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستانی سیاست کا اہم کردار رہے ہیں۔ وفاقی وزراتوں سے لے کر وزیراعظم کے عہدے تک انہوں نے فرائض انجام دیئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ پاکستانی نظام اور اس کی کارکردگی بارے بات کرنے کے اہل بھی ہیں ساتھ ساتھ وہ اس نظام کے شریک کار بھی رہے ہیں اس لیے اس کے عینی شاہد بھی ہیں۔ شاہد خاقان کے بقول انگریز حکمرانوں کا بنایا گیا نظام نہ صرف فرسودہ ہو چکا ہے بلکہ آہستہ آہستہ اس نظام میں کرپشن لازمی جز بن گئی ہے اس سلسلے میں انہوں نے تازہ ترین حوالے کے طور پر پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں رمضان کے مہینے مفت آٹا تقسیم کرنے کی حکومتی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 180 ارب کی سکیم میں نظام میں موجود طریقہ کار کے باعث 20 ارب روپیہ کرپشن کی صورت میں مخصوص افراد کی جیبوں میں جا چکا ہے۔ شاہد خاقان کے اس بیان نے ملکی سیاست میں زلزلہ پیدا کر دیا سیاسی قیادت کرنے والے ذمہ دار لوگوں نے بیان کو سمجھے بغیر ہی اس پر شور مچانا شروع کر دیا۔ ایک طرف صوبائی نگران وزرا نے اپنی پاکبازی کی قسمیں کھانی شروع کر دیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے بیان بازوں کو بیان بازی کا موقع مل گیا اور انہوں نے گرفتاریوں تحقیقات اور برطرفیوں کے مطالبات شروع کر دیئے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ شاہد خاقان نے جو کہا اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ بات افراد کی ہے ہی نہیں موجودہ نظام میں افراد کی حیثیت ایک مہرے جیسی ہے۔ مہرہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتا اسی طرح پاکستانی نطام میں نہ وزیر کی حیثیت ہے نہ سیکرٹری کی اور نہ ہی متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسروں کی۔ اس ساری ترتیب میں کوئی ایک مہرہ ایماندار آ بھی جائے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ موجودہ نظام اپنے اندر کرپشن کو اس طرح جذب کر چکا ہے کہ اب کوئی فرد یا افراد اس نظام میں کرپشن کو روکنا تو محال رکاوٹ بھی نہیں ڈال سکتے۔ انگریز حکمرانوں کے زمانے سے ہی مختلف اداروں میں خاص طور پر ترقیاتی محکموں میں ٹھیکیداری نظام کے ساتھ ساتھ کمیشن کا نظام بنا دیاگیا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹے اہلکار سے لے کر اعلی ترین افسر کا کمیشن ایک تناسب کے مطابق طے شدہ ہوتا تھا نہ یہ حفیہ ہوتا تھا اور نہ ہی اسے پوشیدہ رکھنے کی کوئی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ ضرور تھا کہ کمیشن کے اس طریقہ کار سے کام کے معیار یا مقدار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا کام کے تخمینہ کے موقع پر ہی کمیشن کی رقم اس تخمینہ سے شامل ہوتی تھی اسی لیے پرانے وقتوں کے منصوبے آج بھی اپنی مدت پوری کرنے کے باوجود اپنے معیارکی گواہی دے رہے ہیں۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات اور اس کے بعد اراکین اسمبلی کی حمایت برقرار رکھنے کے لئے ترقیاتی منصوبوں میں اراکین اسمبلی کی شرکت نے ایک طرف اس نطام میں کمیشن کے پیمانے تبدیل کر دیئے دوسری طرف اراکین اسمبلی کی سفارش پر ضلعی سربراہوں سے لے کر ترقیاتی محکموں کے سربراہوں کی تقرری نے سارا نظام ہی تلپٹ کر دیا۔ طویل عرصے سے رائج کمیشن کے نرخ جو گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے ایک ہی سلیب یعنی 12 سے 15 فیصد رائج تھے یکدم دگنے تگنے اور چوگنے اضافے تک پہنچ گئے مگر یہ سلسلہ یہاں پر ختم نہ ہوا اور فرضی بلنگ نے اس کی جگہ لے لی۔ اداروں کے سربراہ اپنے اعلیٰ افسروں کے جوابدہ ہی نہیں رہے۔ مقامی سیاست دانوں کے ڈیرے اب تعیناتی اور تبدیلیوں کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔ سیاست دانوں کے مطالبات اور طے شدہ حصوں سے زائد وصولی نے نہ معیار چھوڑا نہ مقدار باقی رہی۔ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج پہلے تو محکموں کی لڑائی اس بات پر ہوتی ہے کہ فلاں رکن اسمبلی کے فنڈ یہ محکمہ استعمال کرے گا تو فلاں رکن کا فنڈ وہ استعمال کرے گا۔ اراکین اسمبلی ہیں تو وہ فنڈ لانے سے پہلے ہی اپنا حصہ ایڈوانس دینے والے محکمے کے نام پر اپنا فنڈ منظور کراتے ہیں۔ شاہد خاقان نے آٹے کے حوالے سے محکمہ خوراک میں رائج طریقہ کار کے حوالے سے بیان کیا تھا کہ محکمہ خوراک میں رائج مروجہ نظام کے باعث کم از کم 25 فیصد رقم مختلف ذمہ داروں کی جیب میں چلی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں موصوف نے یہ پانچ سات سال پرانے طریقہ کار کے حوالے سے بات کی ہے۔ آج یہ معاملات 25 فیصد سے ہیں آگے نکل کر 40 اور 45 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ محکمہ خوراک کا پورا نظام ایک کھلی کتاب کی مانند ہے گندم خریداری کے مراکز پر موجود مزدور سے بھی پوچھیں گے تو وہ بتا دے گا کہ گندم کی فی من خریداری سے لے کر عام آدمی تک آٹے کی صورت میں پہنچنے تک کس کا کتنا حصہ بنتا ہے یہ حصہ کون اکٹھا کرتا ہے اور نظام میں موجود اخری فرد تک کیسے پہنچتا ہے۔ اس سارے نظام میں نہ کوئی اکیلا فرد کوئی اہمیت رکھتا ہے نہ ہی کسی کی ایمانداری کہیں رکاوٹ بنتی ہے۔ سارا نظام ایک مروجہ طریقہ کار سے چلایا جاتا ہے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کرتا ہے نہ ہی اب یہ ممکن ہے۔ خریداری مراکز پر چھوٹے اہلکاران کی تعیناتی سے لے کر فلور ملز کو گندم کوٹہ دینے کے ساتھ ساتھ بار دانے کی خریداری سے لے کر گندم اور آٹے کی نقل و حرکت ہر قدم کا ایک مروجہ طریقہ کار ہے ہر قدم پر شریک کار افراد کا حصہ بھی اپنے اپنے تناسب سے طے شدہ 20 سے 25 فیصد حصہ تو گندم خریداری اور فلور ملز تک پہنچنے سے پہلے ہی متعلقہ افراد کی جیبوں میں چلا جاتا ہے فلور ملز میں آٹا بننے اور بعد میں فروخت کرنے والے مراکز کے شراکت داروں کا حصہ تو صورتحال کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ رمضان پیکج جیسی ہنگامی صورتحال میں تو یہ حصہ اکیلے ہی 20 سے 25 فیصد تک جاسکتا ہے۔ شاہد خاقان نے بڑی ہی محطاط بات کی ہے 25 فیصد کے مطابق 20 ارب روپیہ۔ اس سارے نظام میں نہ وزیراعظم کی اہمیت ہے نہ وزیراعلیٰ کی اور نہ ہی متعلقہ وزیر کی۔ کوئی حصہ لینا چاہے تو دینے والے تیار ہیں مگر کوئی رکاوٹ ڈالنا چاہے تو اسے اپنی بے اختیاری نظر آجائے گی۔ موجودہ نظام کرپشن کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے بلکہ کرپشن کے بغیر موجودہ نظام چلنا ہی ممکن نہیں رہا۔ یوں تو یہاں ہر ادارہ اپنی مثال آپ ہے مگر میں صرف محکمہ صحت میں دوائیوں کی خرید کے نظام سے بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ خریداری کے لیے خود ساختہ پیپرا رولز کے تحت ہر چیز کی خریداری میں معیار سے زیادہ قیمت خرید میں مسابقت کا اصول بنایا گیا ہے اب صرف ایک دوائی کی مثال دیتا ہوں پیرا سیٹا مول کی گولی جو ہر ہسپتال یا ڈسپنسری کی ضرورت ہے معیاری کمپنی کی یہ گولی دو روپے سے لے کر پانچ روپے میں دستیاب ہے مگر سرکاری ہسپتالوں میں سپلائی کی جانے والی یہ گولی پچاس پیسے سے بھی کم میں سپلائی کی جاتی ہے سینکڑوں کاغذی کمپنیاں جو گھروں کے اندر قائم ہیں مروجہ نظام میں کمیشن کی ادائیگی کے ذریعے دوا کے نام پر زہر لوگوں کے اندر انڈیل رہے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں خریداری کرنےوالے بھی کمپنیوں کے نام منؔظور کرنے والے بھی اور کمپنیوں کو اجازت نامے دینے والے بھی۔